Kalela o Dimna
کلیلہ و دمنہ
دوستو کیا آپ کسی ایسی کتاب سے واقف ہیں۔ جس کا ترجمہ دنیا کی پندرہ یا اس سے بھی زیادہ زبانوں میں ہوا ہو؟ وہ بھی بڑی زبانیں جیسا کہ عربی، فارسی، فرنچ، سپینش، انگریزی وغیرہ۔ اگر نہں تو آئیں آج میں آپ کا تعارف ایک ایسی ہی کتاب سے کرواتا ہوں۔
کلیلہ و دمنہ
ہندوستان کی قدیم دانش کا قیمتی سرمایہ جس کو ایک عاقل برہمن "بیدپافیلسوف" نے اپنے راجہ "رائے دابشلیم" کو حکمرانی کے ڈھنگ اور رعایا کے ساتھ پیش آنے کے درست اصول و قواعد سمجھانے کے لیے تصنیف فرمایا۔ اس بات نے مجھے ذرا اچھنبے میں ڈال دیا کہ ہم نے تو سنا تھا کہ تمام عقل و دانش بیرونی حملہ آوروں کے پاس ہوتی تھی اور ہندوستان کے لوگ تو رہے جاہل کے جاہل۔
اب جب یہ کتاب پڑھی تو سوچ آئی کہ جس قوم کے بندے نے اتنی عقل کی باتیں کیں وہ قوم یقیناً لیاقت میں اپنا ایک مقام رکھتی ہوگی۔ اب لیاقت غلاموں اور خستہ حال قوموں میں تو پیدا ہونے سے رہی، مطلب اس وقت ہندوستان کی تہذیب خوب پنپ رہی ہوگی۔ اور کسی قوم کو آگے لے جانے والے تمام عوامل سے بہرہ مند تھی۔ یہ تمہید تو ویسے ہی ذہن میں آ گئی آئیے، آپ سے اس کتاب کا تعارف کرواتا ہوں۔
برہمنوں کے قدیم پند و نصائح کے طریقہ کار کے مطابق اور عقیدہ تناسخ اور ارواح کی موجودگی کا قائل ہونے کی وجہ سے ہندوازم میں جانوروں کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ وہ نہ صرف جانوروں کو حکمت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، بلکہ ان کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ جیسے ہاتھی، بندر، سانپ وغیرہ وغیرہ۔ مصنف نے ہندوؤں کی اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے دو کردار تخلیق کیے "کلیلہ و دمنہ" جو کہ دو گیدڑ ہیں اور وہ دونوں انتہائی چالاک، مکار اور ذی علم ہیں۔
یہ دونوں اس کتاب کے مرکزی کردار ہیں۔ جس کے بعد اور بہت سے جانوروں کو پیش کیا گیا۔ جیسے شیر کو بادشاہ بنا کر اور اس کی رعایا میں باقی تمام جانوروں کو دکھایا گیا اور بادشاہ کو اشاروں کنائیوں سے سمجھایا گیا کہ رعایا کے ساتھ کیسے رہنا چاہیے۔ پھر الو اور کوے کی کہانی بیان کی کہ کسی دشمن سے کیسے بچ کر رہنا چاہیے۔ پھر چوہے اور بلی کی کہانی کہ دشمنوں سے دوستی اور مصالحت کرنی چاہیے کہ نہیں؟ اور اگر کرنی چاہیے تو کن خطوط پر۔ پھر کبوتر، لومڑی اور بگلے کی کہانی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو دوسروں کو رائے اور مشورے دیتا ہے۔ اسے خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔
ویسے تو یہ کتاب نصیحتوں سے بھری پڑی ہے اور انسان پڑھتے وقت بہت جگہ پر بور ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کتاب پڑھتے وقت مجھے ایک احساس ضرور ہوا، کہ آج تک ہم نے جتنی بھی نصیحتیں یا جتنی بھی ضرب الامثال سنیں ان تمام کتابوں کا ماخذ یہ کتاب ہے۔ مطلب اس کتاب میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں نظر آیا، جو میں ہزارہا بار پہلے نہ سن چکا ہوں۔ مختلف کرداروں کے ساتھ، مختلف اوقات میں اور زندگی کے مختلف مواقعوں پر۔