Hum Bhi Wahan Mojood Thay
ہم بھی وہاں موجود تھے

آج صبح صبح ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں قطر کے لیے پاکستان اور بھارت کے ایمبیسیڈرز کا موازنہ کیا گیا تھا۔ بھارت کے ایمبیسیڈر 1998 سے فارن سروسز سے منسلک ہیں اور دینا کے بہت سے ممالک میں بھارتی ایمبیسیڈر/ڈپلومیٹ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی ایک لمبے عرصہ تک ایکسٹرنل افیئرز کی ذمہ داریاں آپ کے کاندھوں پر رہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اس سیٹ کے لیے کتنے موزوں ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی ایمبیسیڈر ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ہیں جن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں زرداری صاحب کا ملٹری سیکرٹری ہونا، کرپشن کے کیسز میں ملوث ہونا شامل ہے۔ مشہور مثال ہے کہ دیگ کا ایک دانہ چھکنے سے ہی پوری دیگ کا اندازہ ہو جاتا ہے تو پھر یہیں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی ساکھ اتنی متاثر کیوں ہے اور کس طرح پاکستان ایک ہی سپر پاور کی راکھیل کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اب آتے ہیں اس کتاب کے اوپر۔۔
یہ لیفٹننٹ جنرل عبد المجید ملک صاحب کی آپ بیتی ہے جو کہ بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کی روداد ہے کہ کیسے فوج میں ایک سپاہی بھرتی ہونے والا نوجوان قومی اور بین الاقوامی سطح پر اتنی اہم ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔ آپ نے اس کتاب میں پڑھنے والوں پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ پاکستانی اداروں کی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد ایک بات صاف صاف سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر تو آپ فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں یا آپ کے چاچے مامے فوج ہیں تو اس ملک میں آپ کا مستقبل خوب روشن ہے، نہیں تو چپ کرکے دنیا کے کسی ایسے کونے میں نکل جائیں جہاں آپ کی تعلیم، آپ کی ذہانت، آپ کی محنت، آپ کی ایمانداری کی قدر کی جائے تاکہ آپ عزت کی روٹی کما سکیں، کیونکہ اس ملک میں تو باوا جی بہت مشکل ہے۔۔