1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Ali Ahmar/
  4. Hama Yaran Dozakh

Hama Yaran Dozakh

ہمہ یاراں دوزخ

دوستو بات کچھ یوں ہے کہ چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت ہوا، جب میں نے ایک اور کتاب پر تبصرہ لکھا تھا۔ تو اصولاً مجھے تین سے پانچ دن کے بعد اس کتاب پر تبصرہ لکھنا چاہیے تھا، مگر شومئی قسمت سے یہ کتاب بھی ختم کر لی اور شہر کے خراب حالات کے باعث کام بھی کچھ نہیں تھا تو سوچا چلو یہ تبصرہ بھی لکھ ہی ڈالیں۔ چونکہ یہ تبصرہ مجبوری کی حالت میں لکھنا پڑ رہا ہے تو اس میں ہونے والی غلطیوں سے صرف نظر کریے گا۔

یہ کتاب میجر صدیق سالک کے قلم کا شاہکار ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی بھارت یاترا (اسیری) کے واقعات قلمبند کیے ہیں۔ اس کتاب کے واقعات ان دو سالوں پر محیط ہیں۔ جو اکہتر کی جنگ ہارنے کے بعد ہمارے نوے ہزار فوجیوں کے ساتھ بھارتی جیلوں میں پیش آۓ۔ چونکہ یہ کتاب ایک فوجی کے قلم سے نکلی ہے تو اس میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس میں ایسا مواد بھی ملتا ہے۔ جو اس وقت کی فوج کی ذہنی عکاسی کرتا ہے۔ میں اس کتاب کے اوپر تین حصوں میں بحث کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلے تو اس کتاب کا انداز بیان بہت ہی خوبصورت اور رواں ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے، جو صدیق سالک کی میری نظر سے گزری ہے اور اپنے باقی پیٹی بھائیوں (کرنل محمد خان، کرنل اشفاق حسین) کی طرح اردو پر آپ کو خوب عبور حاصل ہے۔ آپ نے اپنی اسیری کی ایک ایک واردات ایک ایک لمحہ اتنا خوبصورت بیان کیا ہے کہ تمام واقعات انسان کی آنکھوں کے آگے گھوم جاتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھتے پڑھتے کبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ مصنف نے وہ تمام فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ جن میں مجرم جیل توڑ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ بہت سے واقعات ان فلموں کی شباہت لیے ہوۓ تھے۔ یا پھر یہاں پر انگریزی کا وہ مقولہ چسپاں کرنا چاہیے۔

Truth is stranger than fiction

کہ سچائی کے آگے فلمیں تو کچھ معنی نہیں رکھتی۔

دوسرے نمبر پر جو چیز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہ انسانی نفسیات ہے، جو ان دو سالوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ انسان کو جب اتنے سخت حالات سے گزرنا پڑتا ہے، تب اس کے وہ تمام جوہر باہر آ جاتے ہیں، جو عام حالات میں شاید کبھی سامنے نہ آ سکیں۔ اگر ایک طرف جذبہ حب الوطنی پوری معراج پر نظر آتا ہے تو دوسری طرف دشمن ملک سے نفرت اپنے عروج پر دکھتی کے۔ اگر ایک طرف ایثار کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے تو دوسری طرف سب کچھ جھپٹ لینے کی خصلت دیکھنےمیں آتی تھی۔ کبھی قیدی اتنا پر امید جیسے کل ہی گھر کو روانہ ہو جاۓ گا اور کبھی اتنا ناامید جیسے ساری زندگی اسی جگہ بسر کرنی پڑے گی۔ کبھی دوسروں کا درد اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو کبھی اپنوں سے بھی بیگانہ۔

یہ کتاب پڑھتے پڑھتے ایک چیز نے مجھے چونکا کر رکھ دیا وہ تھی ہماری فوج کی ذہنیت۔ مطلب کتنی ہی جگہوں پر مصنف نے خود کو دشمن فوج سے برتر پایا۔ جب ان کو گاڑی میں بٹھا کر لے جانے لگے تو ہندوستان کی بوسیدہ گاڑیوں کی نسبت ان کو اپنی چمچماتی گاڑیاں یاد آ گئیں، بھارتی فوجوں وہ یاسیت دیکھتے اور اپنے فوجیوں میں بشاشت، بھارت کو تنگ دل تنگ نظر اور اپنے آپ کو وسیع القلب اور وسیع النظر، مجموعی طور پر مصنف کے نزدیک پاکستانی فوج ڈسپلن، پروفیشنلزم، انٹیلیجنس ہر شعبہ میں بھارتی فوج سے بہتر تھی۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری فوج ہر لحاظ سے برتر تھی تو شکست ہمیں کیوں ہو؟ نوے ہزار فوجی ہمارے کیوں قید ہوۓ؟ ملک ہمارا کیوں دو لخت ہوا؟ اس کے تو دو ہی جواب نکل سکتے ہیں۔ یاں تو ہمارے ساتھ جھوٹ بولا گیا کہ ہماری فوج ایسی ہے ہماری فوج ویسی ہے۔ اور اگر جھوٹ نہیں سچ بولا گیا تو پھر لازماً فوج نے خود خیانت کی۔ واللہ عالم

ایک اور بات جو یہ کتاب پڑھتے وقت میں سوچتا رہا کہ مصنف نے حالات و واقعات تو ہمارے گوش گزار کر دیے کہ کیسے پاکستانی فوج کو بنگال میں شکست ہوئی، کیسے ان سے ہتھیار ڈلواۓ گۓ کیسے ان کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر بھارت لے جایا کر کیسے جیلوں میں رکھا گیا جیلوں کے مجموعی حالات وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کاش مصنف وہ عوامل بھی لکھ دیتا جو پاکستان کی شکست کا باعث بنے۔ کیوں بنگالیوں کو پاکستان سے نفرت ہوگی؟ کیوں انہوں نے بھارت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا؟ سفارتی، سیاسی اور فوجی محاذ پر کس کس نے کیا کیا کھیل کھیلا جس کی بنا پر پاکستان دو لخت ہوگیا۔ کاش۔۔

مصنف نے 1972 کا بھارت ہمیں فاقہ کش اور غربت زدہ دکھایا ہے۔ خوش ہو کر یہ بات بتائی ہے کہ پاکستان کا روپیہ بھارت سے تگڑا تھا۔ فخر سے یہ باتیں بتائی ہیں کہ بھارت اپنے ملک کی چیزیں استعمال کرتا ہے، جب کہ پاکستان "امپورٹڈ" چیزیں استعمال کرتا ہے۔ آج جب 2023 میں ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ بھارت پر نظر ڈالی جاۓ تو یہ تمام باتیں پاکستان کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ بھارت نے ان تمام "گھٹیا اور دقیانوسی" پالیسیوں سے خطہ میں پاکستان کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ نہ صرف خطہ میں بھارت کا راج ہے، بلکہ وہ اس سے بڑھ کر پوری دنیا کی حکومت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ میں ابھی فوجوں کے موازنے پر نہیں جا رہا اور نہ ہی سفارتی معاملات کی چھان بین کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ ہمیں ہر جگہ شکست کا ہی سامنا ہے۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo