Haider Goth Ka Bakhshan
حیدر گوٹھ کا بخشن

یہ محمد حفیظ خان کا چوتھا ناول ہے جو میں نے پڑھا ہے اور اگر کہانی کے حساب سے میں بات کروں تو اس ناول کا تیسرا نمبر بنتا ہے (انداز بیان قریباً سب کا ایک سا ہے)۔ مصنف ایک مورخ، افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر بھی رہے ہیں جن میں قانون کا شعبہ ان کا پیرنٹ ڈیپارٹمنٹ کہلاتا ہے۔ یہ مصنف کا ایک چھوٹا سا تعارف ہے اب آتے ہیں اس کتاب کی طرف۔
مصنف کے باقی ناولز کی طرح (انواسی کو چھوڑ کر) اس ناول میں بھی سرکاری افسروں، دلالوں، کمیشن ایجنٹوں، کسبیوں، نو خیز دوشیزاؤں، پکی عمر کی عورتوں کے چلتروں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ کہانی کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ میں یہ کہوں گا واقعات میں کم کم سنسنی دیکھنے کو ملتی ہے جس کی کمی مصنف نے انداز بیان کی سنسنی خیزی سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کو بہت زیادہ لمبا کھینچا گیا ہے جس سے بوریت کا عنصر بیچ میں شامل ہو جاتا ہے۔ چونکہ مصنف کا خود کا تعلق قانون کے شعبہ سے رہا ہے تو کچہریوں، وکیلوں، ججوں، تھانوں کے کلچر کو بہت زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جہاں پر ایک طرف مصنف کا ان تمام شعبوں پر عبور نظر آتا ہے تو دوسری جانب جو بندہ ان تمام گھمن گھیریوں سے واقف ہو وہ بور ہو جاتا ہے۔
میرے خیال میں اچھا کہانی باز وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کہانی سے باہر رکھے اور قاری کو ایسے غیر محسوس طریقے سے کہانی سنائے کہ قاری اس کہانی میں کھو جائے۔ حفیظ خان صاحب اس معیار پر پورا نہیں اتر سکے۔ وہ جو بھی کہانی ہمیں سنا رہے ہیں اس سے صاف صاف محسوس ہو رہا ہے کہ جناب اس جگہ پر خود موجود ہیں اور قاری کو زبردستی اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر رہے ہیں۔ کرداروں کے جذبات کو بہت زیادہ ابھار کر پیش کیا گیا ہے (عصمت چغتائی کی طرح) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہر کردار کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر کہانی سنسنی خیز ہوتی تو زیادہ مزہ آتا۔
اللہ دے حوالے۔۔

