Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Ali Ahmar/
  4. Fazail e Ahlebait

Fazail e Ahlebait

فضائل اہل بیت

اس کتاب کے اوپر تنقید کرنے سے پہلے میں یہ بات عرض کر دوں کہ میں نے کتاب کوئی اور منگوائی تھی۔ جس کے ساتھ یہ کتاب بھی مجھ تک پہنچ گئی۔ جب اس کا مضمون دیکھا تو وہ بھی من پسند نکلا تو سوچا چلو اچھی بات ہے یہ بھی پڑھ لیتے ہیں کیا حرج ہے۔

اب جب یہ کتاب پڑھنا شروع کی تو دل کچھ اداس ہونا شروع ہوگیا، نہ صرف اداس بلکہ ایک طرح کی تکلیف شروع ہوگئی کہ یہ کتاب جگہ جگہ "علمی خیانت" سے پر ہے۔ اب اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یاں تو مصنف (علامہ جلال الدین سیوطی) فضائل اہل بیت سے پوری طرح واقف نہیں اور ان کی شان میں جو آیات و احادیث بیان ہوئی ہیں، آپ نے ان سے صرف نظر کیا ہی۔

نمبر دو، آپ ان تمام آیات و احادیث سے واقف ہے، مگر ناصبیت نے آپ پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔

نمبر تین، نہ تو آپ ناصبی ہیں اور مناقب اہل بیت سے بھی پوری طرح واقف ہیں، آگے جن جناب نے آپ کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے انہوں نے خیانت کی ہے۔ واللہ عالم بالثواب

آئیے میں ذرا تفصیل سے وہ خیانتیں بیان کرتا ہوں، جو اس کتاب میں مجھے نظر آئیں۔

اس کتاب میں اہل بیت کے فضائل میں ساٹھ احادیث بیان کی گئی ہیں، جو کہ محب اہل بیت کے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہیں۔ مگر جوں جوں بندہ کتاب پڑھتا جاتا ہے تو سوچتا جاتا ہے کہ احادیث کے الفاظ تو کچھ اور ہیں پر یہ متن کیسے تبدیل ہوتا جا رہا ہے؟ مطلب اس کتاب میں اہل بیت میں حضور ﷺ کی بیبیاں اور رشتہ دار بھی شامل کیے جا رہے ہیں جو کہ پنجتن پاک کا حق ہے۔ نہ صرف حق ہے، بلکہ بارہا قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے جس کی سند آیت مباہلہ، آیت تطہیر اور آیت کساء ہیں۔

اس کتاب میں بہت خوبصورتی اور چالاکی کے ساتھ اور لوگوں کو بھی ساتھ شامل کیا جا رہا ہے۔ جس کے ڈانڈے کہیں اور ہی جا کر ملتے ہیں۔

پھر ایک جگہ پر ایک حدیث بیان کی گئی ہے کہ اسلام کی بنیاد آپ ﷺ کے صحابہ اور اہل بیت ہیں۔ اس بات کے اوپر میں بارہا بحث کر چکا ہوں کہ ہر دو میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہ فرق کیسے ہے؟ حضور پاک ﷺ نے اس فرق کو کیسے بیان فرمایا؟ آپ ﷺ نے حجت کسے قرار دیا؟ وغیرہ وغیرہ، جو مختلف کتابوں کے تبصروں میں آپ کو مل جائیں گے۔

میں اشرف علی تھانوی کی مشہور و معروف کتاب بہشتی زیور کو پڑھنے سے آج تک محروم ہی رہا۔ آج جب اس کتاب کے کچھ اقتباسات پڑھے تو شکر کا سانس کیا کہ اللہ پاک نے مجھے اس کتاب سے محروم ہی رکھا۔ مطلب لوگوں کے نزدیک اتنا بڑا آدمی اور اتنی بڑی کتاب اور جناب نے اس میں باتیں کیا لکھی ہوئی، آپ بھی سنیے۔۔

جب حضور پاک ﷺ نے حضرت زینب سے نکاح فرمایا جو کہ آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کے نکاح میں تھیں تو آپ ﷺ نے اللہ پاک کے حکم کے مطابق یہ سارا کام کیا جو کہ دور جاہلیت کی ایک فرسودہ رسم کو ختم کرنے کے واسطے تھا اور اسلام میں ایک حجت قائم کرنا تھی۔ جناب کے نزدیک حضور پاک ﷺ نے یہ فیصلہ کیوں کیا، انہی کی زبانی سنیے۔

"جب آپ ﷺ کو معلوم پڑا کہ زید ان کو طلاق دے کر رہیں گے تو اس وقت آپ نے سوچا اول ہی ان کو یہ رشتہ پسند نہ تھا، مگر میرے کہنے سے قبول کر لیا اب اگر طلاق ہوگئی تو ان کی بہت دلشکنی ہوگی۔ ان کی دلجوئی کے لیے کیا کیا جائے؟ آخر سوچنے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر میں اپنے سے نکاح کر لوں تو بیشک ان کے آنسو پونچھ جاویں گے ورنہ اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی"۔

لا حول ولا قوہ تف ہے مصنف کی نادانی پر۔ درج بالا عبارت پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ تھانوی صاحب نے حضور پاک ﷺ کو معاذ اللہ کیا سمجھا ہوا ہے؟ کہ وہ ہماری طرح کوئی عام سے انسان تھے۔ جن کی سمجھ میں اور کوئی بات نہیں آرہی تھی؟ او بھائی نبی کا ایک ایک کام مصلحت کے تحت ہوتا ہے ایک ایک کام سے اللہ پاک اس کی اور اس کی امت کی تعلیم فرما رہے ہوتے ہیں۔ کدھر گئی وہ آیات جو اس ضمن میں جبریل امین لے کر آئے تھے؟ یہاں کسی ایک آیت اور حدیث کا ریفرنس نہیں دیا گیا۔ ایسے بیان کیا گیا ہے کہ دو عام سے انسانوں کے درمیان معاملہ ہو رہا ہے۔

بہشتی زیور کے اور بھی بہت سے اقتباسات اس کتاب میں درج ہیں۔ مگر میں نے صرف ایک پر ہی اکتفا کیا ہے کیونکہ سیانے کہتے ہیں چاول کے ایک ہی دانے سے پوری دیگ کا پتہ لگ جاتا ہے۔

Check Also

Kitaben Parhne Ke Mausam

By Sondas Jameel