Darhi Wala
داڑھی والا
آج سے کوئی دو سال قبل میرے استاد محترم نے مجھے فون کرکے کہا، "احمر یار کدھر ہو میری طرف آؤ ایک دوست کی عیادت کے لیے جانا ہے" جب ہم جی-11 پہنچے تو وہاں پہلی دفعہ حسنین جمال سے میری ملاقات ہوئی (تب تک آپ ابھی داڑھی والا نہیں بنے تھے)۔ گو کہ آپ کی طبیعت کچھ ناساز تھی پھر بھی آپ نے کمال محبت سے ہمیں عراق سے درآمد شدہ قہوہ پلایا اور ساتھ کتابوں کی خوب خوب باتیں ہوئیں۔
جب باتیں کچھ کھلیں تب پتہ چلا کہ آپ بی بی سی اردو پر بلاگز لکھتے ہیں اور عنقریب ہی آپ کی ایک کتاب آنے والی ہے، جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس ملاقات کے کوئی مہینہ بعد ہی اُن کی کتاب (داڑھی والا) منظر عام پر آ گئی اور آتے ہی چاردانگ عالم میں اس کا ڈنکا بج گیا۔ مجھے یہ کتاب پڑھے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا ہے، ہر کتاب کے بعد سوچتا اب اس پر تبصرہ کرتا ہوں اب کرتا ہوں، مگر جب لکھنے کا سوچتا کوئی اور کتاب گریبان پکڑ لیتی۔ آج سوچا دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے داڑھی والا پر تبصرہ لکھ کر ہی چھوڑوں گا۔ آئیے اس کتاب پر آتے ہیں۔
میں اس کتاب کا پوسٹ مارٹم اس کتاب کے سرورق پر لکھی ہوئی ایک تحریر کی روشنی میں کروں گا، جو کہ کچھ یوں ہے۔
"تحریریں جو آپ کی سوچ کو نیا زاویہ دیں گی اور زندگی کو نیا ڈھنگ"
ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ یہ لائن کس کی لکھی ہوئی ہے، مگر اس کتاب کو ڈیفائن کرنے میں اس سے بہتر تحریر میری نظر سے نہیں گزری۔ اس کتاب کے اوپر میں دو حصوں میں بات کرنا چاہوں گا۔ ایک تو اُن واقعات کی نشاندہی کروں گا جنہوں نے اس کتاب کو چار چاند لگائے۔ دوسری اس کتاب کی زبان کہ جس نے بے رنگ سے واقعات میں دھنک کے تمام رنگ بھر دیے۔
جہاں تک اس کتاب کے مضامین کی بات ہے تو ایسی روزمرہ کی چیزیں مصنف نے بیان کی ہیں، جو ساری زندگی ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم نے کبھی اُن پر غور نہیں کیا۔ مثلاً
کیا آپ کی گاڑی جینوئن ہے کہ نہیں
15 سال کا ہونے پر بیٹی کے نام ایک خط
عورتوں کے موڈ ایویں خراب نہیں ہوتے
اب یہ صرف تین بلاگز کی ہیڈنگز میں نے آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کی ہیں، اگر ان کی تفصیل میں جانا شروع کروں تو مضمون بہت لمبا ہو جائے گا۔ مختصراً اتنا کہوں گا کہ
ہم جینوئن اور ٹھُکی ہوئی گاڑی کے چکر میں ایسی پڑتے ہیں کہ ساری زنگی گھمن گھیریوں سے باہر نہیں نکل سکتے۔
ہمارے معاشرے میں والدین بچوں سے کوسوں دور رہتے ہیں اور ان سے بات کرنا جان جوکھوں کا کام سمجھتے ہیں۔ اس مسئلہ کو بھی مصنف نے خوب بیان کیا ہے۔
پھر جو ہمارے گھر کی عورتیں ہوتی ہیں، اُن کی نفسیات کو بھی اتنی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ منٹو بھی عورت کو کیا بیان کرتا ہوگا۔
اب اگر اس کتاب کی زبان کی بات کی جائے تو وہ انتہائی سادہ اور پر اثر ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر میں کلاسک ادب سے اس کا موازنہ کرنے لگ گیا۔ جیسے ہم انیس اشفاق اور شمس الرحمٰن فاروقی کے توسط سے پرانے زمانے کے لکھنو اور دہلی کی زبان کو انجوائے کرتے ہیں، بعینہ سو سال بعد جب کوئی اس کتاب کو پڑھے گا تو اسے معلوم پڑے گا کہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں زبان کیسی بولی جاتی تھی اور اس کے اندر دوسری زبانوں کے الفاظ کتنے کچھ شامل تھے (یہ پہلی کتاب میری نظر سے گزری ہے جس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہے، مگر وہ نظر کو گراں نہیں گزرتے) کیونکہ انگریزی ہماری اردو میں رچ بس چکی ہے جس سے ہم جان نہیں چھڑوا سکتے۔