Company Ki Hukumat
کمپنی کی حکومت

تاریخ شروع سے میرا پسندیدہ مضمون رہا ہے اور ستم ظریفی دیکھیے کہ مسخ ہوئی تاریخ سے میں نے اپنے پڑھنے کا آغاز کیا۔ بیشک وہ تاریخ مسخ تھی لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ہماری پوری پود کو پڑھنے کی طرف راغب کرنے میں "نسیم حجازی" کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ نسیم حجازی کے بعد تاریخ اسلام کو پڑھنا شروع کیا (جس میں تاریخ کی بڑی کتب جیسے طبری، ابن خلکان اور سیرت ابن ہشام شامل تھی) مگر افسوس جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے گئے اور بالآخر میں نے تاریخ اسلام سے جان چھڑوا لی۔
تاریخ اسلام سے تو جان چھڑوا لی مگر تاریخ میرے اندر سے نہ نکل سکی اور اس کے بعد جب میں مختلف تواریخ کے مطالعے میں غرق تھا تب تاریخ برصغیر میرے سامنے سے گزری۔ اس میں محمد بن قاسم سے لے کر 1857 کی تاریخ بیان کی گئی تھی مگر انگریزوں کے کردار و حالات پر طائرانہ سی نظر ڈال کر مصنفین آگے بڑھ جاتے تھے۔ انسانی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ جو چیز اس کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے انسان اسی کے لیے زیادہ تگ و دو کرتا ہے، تو مجھے بھی برصغیر میں انگریزوں کے حالات و واقعات جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ جب تھوڑی تحقیق کی تو پتہ چلا "کمپنی کی حکومت" اس حوالے سے ایک مستند حوالہ مانا جاتا ہے تو میں نے بھی یہ کتاب پڑھنے کی ٹھانی۔ کتاب کے اختتام پر اس نے برصغیر کے حالات میرے سامنے کس طرح سے پیش کیے، میں وہ آپ لوگوں کی نظر کیے دیتا ہوں
میں اس کتاب پر دو حصوں میں بات کرتا ہوں جس میں سے پہلا حصہ کتاب کے اوپر مختصر تبصرہ ہے جب کہ دوسرے حصے میں میرا اپنا تجزیہ شامل ہے
سب سے پہلے اگر کتاب کے انداز بیان کی بات کی جائے تو وہ مجھے انتہائی سپاٹ لگا اور بھی لوگوں نے تواریخ لکھی ہیں مگر ان کے انداز بیان کے اندر ایک شیرینی سی ہے جو قاری کو بور نہیں ہونے دیتی (مثال کے طور پر سجاد اظہر کی راول راج پیش کی جا سکتی ہے)۔ اگر کتاب کے مواد کی بات کی جائے تو ؤہ انتہائی زیادہ اور موثر ہے، مصنف نے بہت باریک بینی سے تمام عوامل کا جائزہ لیا ہے جس میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر بیرونی آمدورفت کے ساتھ ہی کتاب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کمپنی کا برصغیر میں وارد ہونا اور "ایناکونڈا" کے مافق تمام ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لینا دکھایا گیا ہے۔
اس کے بعد مغلوں کی حکومت، بنگال کی حکومتیں، کشمیر کی ریاستیں، پنجاب کی حکومتیں، سندھ کی حکومتیں اور ہزارہا متفرق چھوٹی چھوٹی حکومتوں کا بیان ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کے دوران ہی مصنف نے فرانس کے انقلاب کو بھی خوب بیان کیا ہے جو کہ برصغیر کی سیاست سے بلاواسطہ تعلق رکھتا ہے۔ انگلستان کے مفصل حالات کہ کیوں ان کو سات سمند پار آنے کی ضرورت پیش آئی اور کیسے انہوں نےاپنی لیاقت اور سیادت سے اتنے بڑے علاقے کو اپنے قبضے میں رکھا۔ یورپ کے مجموعی حالات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں اور آخر میں صنعتی انقلاب ہمیں بہت سارے سوالوں کا جواب دے جاتا ہے۔
میں نے جن بھی پڑھنے والے لوگوں سے اس کتاب کے بارے سنا سب نے کمپنی کو معتوب و مطعون ہی ٹھہرایا۔ لوگ کمپنی کو گالیاں دیتے تھکتے نہیں ہیں کہ کمپنی ہمیں لوٹ کر کھا گئی، کمپنی نے برصغیر کی سیاست، معاشرت، معیشت تباہ کر دی، کمپنی نے ہمیں جاہل رہنے دیا، کمپنی نے ہم سے روٹی چھین لی وغیرہ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام پروپیگنڈہ سن سن کر میرے کان پک گئے اور میں نے کہا ذرا کھلی آنکھوں اور ذہن نے اس وقت کا جائزہ تو لیں کہ کیا کمپنی واقعی اتنی ساری گالیوں کی حقدار ہے؟
سب سے پہلے میں کمپنی کے آنے سے پہلے کا برصغیر آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں۔
اگر برصغیر کی چار ہزار سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کہ برصغیر پاک و ہند کا خطہ اپنی تہذیب و تمدن کے حوالے سے بہت جدت کا حامل تھا۔ دنیا کی پہلی یونیورسٹی (جولیانا یونیورسٹی) کی باقیات ہمیں ٹیکسلا کے پاس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت "سٹوپے" ہوا کرتے تھے جو آجکل کی تعلیمی درسگاہوں کا کام کرتے تھے جہاں پر دنیا بھر سے طالب علم آ کر اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے جن میں سے ایک "مانکیالہ سٹوپا" کی باقیات ہمیں روات سے مشرق کی جانب دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کے بعد گندھارا تہذیب کا جائزہ لیا جائے تو وہ بابل و نینوا کے ہم مقابل بلکہ ان سے بھی پرانی اور جدید تہذیب تھی۔ اس کے علاوہ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی کھدائی کے دوران بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تہذیبیں اپنے وقت کی جدید ترین تہذیبیں تھی
جن میں آبپاشی سے لے کر زراعت تک تمام شعبے الگ الگ قائم تھے۔ اس کے بعد اگر بڑے لوگوں کی بات کی جائے تو "پانینی" جس کے سر سنسکرت زبان کی گرائمر ایجاد کرنے کا سہرا سجتا ہے وہ بھی ٹیکسلا سے تعلیم یافتہ تھا۔ اس کے بعد "چندرگپت موریا" کا نام اگر لیا جائے جس نے موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی اور ہندوستان میں تعمیر و ترقی کی ترویج کی۔ پھر اس کا درباری "چانکیہ کوٹلیہ" جس نے ارتھ شاستر نام کی کتاب لکھی جس میں صنعت و حرفت، علوم و فنون، سیاسیات، معاشیات، فوجی مہمات، سیای و غیر سیاسی مہمات الغرض زندگی کے ہر ایک شعبہ پر روشنی ڈالی۔ الغرض برصغیر پاک و ہند کی سرزمین ہر لحاظ سے زرخیز تھی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں برصغیر کے لوگ قدرت نہ رکھتے تھے
اس کے بعد مسلمانوں کی برصغیر میں آمد شروع ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ طوائف الملوکی کا دور شروع ہوگیا۔ برصغیر میں بہت سی اقوام پہلے سے آباد تھی جو وقتاً فوقتاً آپس میں بنرد آزما رہتی تھی۔ اوپر سے مسلمان باہر سے آگئے اور انہوں نے یہاں پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ اگر ایک ایک حکومت کا بیان کیا جائے تو دفتر بھر جائیں یہاں صرف یہ بتانا مقصود کے کہ کمپنی جب برصغیر میں وارد ہوئی تو اسے کن حالات کا سامنا تھا۔ انگریزوں کے لیے میدان ایک دم صاف تھا کیونکہ ہر حکمران دوسرے حکمران سے نالاں رہتا تھا اور ہر کوئی پورے علاقے پر حکومت کرنا چاہتا تھا۔ کمپنی نے حکمرانوں کی اسی خامی کو ہوا دی اور اپنے مطالب نکالنا شروع کر دیے
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ نے ہمیں لوٹا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریز تو سب سے بعد میں یہاں پر آئے تھے ان سے پہلے پرتگیزی، ولندیزی اور فرنچ برصغیر کے ساحلوں پر حملے کر چکے تھے اور یہاں اپنی فیکٹریاں لگا چکے تھے
اگر ہم ان ممالک کی جغرافیائی لوکیشن کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ یہ سب موسم اور حالات سے ستائے ہوئے تھے۔ اوپر سے ان ممالک کو سمندر بھی کوئی نہیں لگتا تھا جب کہ ساری تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی تھی۔ ان ممالک میں میدانوں کی کمی تھی جو میدان تھے وہ موسم کی سختی کی وجہ سے اشیائے خوردنوش پیدا کرنے سے قاصر تھے۔
دوسری جانب برصغیر پاک و ہند ان تمام چیزوں میں خود کفیل تھا۔ یورپی اقوام نے اپنی قوم کی بہتری اور فلاح و بہبود کی خاطر اپنے ملک چھوڑے اور دنیا میں دوسرے ذرائع ڈھونڈنا شروع کیے جس بنا پر وہ ایشیا اور افریقہ گئے۔ اب اگر برصغیر پاک و ہند میں ایکا نہیں تھا، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا، کوئی ایک نظریہ نہیں تھا، کوئی ایک جماعت نہیں تھی، کوئی ایک حکومت نہیں تھی، تو ایسے حالات میں باہر کے لوگ یہاں حملے کرنے میں حق بجانب تھے کیونکہ وہ ایک قوم تھے اور وہ صرف اپنی قوم اور عوام کا سوچتے تھے۔
میرے خیال میں ہمیں کمپنی کو گالیاں نکالنے کے بجائے اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ کیسے وہ تھوڑے سے لوگ سات سمندر پار آ کر اتنے بڑے علاقے پر حکومت کر گئے اور اپنی خامیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس کہ وجہ سے ہم محکوم ٹھہرے

