Barf Ke Qaidi
برف کے قیدی

یوراگوئے سے ایک جہاز اڑتا ہے جو 45 لوگوں کو لے کر چلی جا رہا ہے۔ اس جہاز میں ایک رگبی کی ٹیم ہے جن لڑکوں کی عمریں 20 سے 24 سال کے درمیان ہیں اور باقی ان کے رشتہ دار اور جہاز کا عملہ ہے۔ ارجنٹینا کے برفیلے پہاڑوں میں طوفانی ہواؤں کی بدولت اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ سکتا اور کریش لینڈ کر جاتا ہے۔ 19 لوگ موقع پر ہی مر جاتے ہیں اور باقی جو لوگ بچ رہتے ہیں یہ ان کے سروائیول کی کہانی ہے۔
اس کتاب کا مصنف پیئرز پال ریڈ ایک برطانوی تاریخ دان، محقق اور ناول نگار ہے جو کہ جہاز حادثے کے فوراً بعد یوراگوئے پہنچ جاتا ہے اور زندہ بچ جانے والوں، ان کے لواحقین اور ان کی تلاش میں مشغول ہونے والے تمام متعلقین سے خود ملتا ہے۔ ان تمام سے انٹرویوز لیتا ہے اور یوں تحقیق و جستجو کے بعد یہ کتاب وجود میں آتی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کتاب Alive کے نام سے دنیا بھر میں شائع ہوتی ہے جس کا ترجمہ مشہور مزاح نگار کرنل اشفاق حسین نے انتہائی سادہ اور خوبصورتی سے کیا ہے۔
کتاب کا انداز بیشک جاندار اور خوبصورت ہے مگر کتاب کے واقعات اپنے اندر کراہت، حیرت، تجسس، مایوسی، خوشی، غمی، بےبسی، پرامیدی اور تمام کے تمام جذبات سے پُر ہیں۔ حادثہ میں بچ جانے والے لوگ 70 دن ایک برفانی پہاڑ میں گزارتے ہیں جہاں ان کے ہر طرف برف ہی برف ہوتی ہے اور وہاں سے باہر نکلنے کا ہر راستہ مسدود ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ کیسے اتنے دن ان پہاڑوں میں گزارتے ہیں وہ تمام واقعات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہاں سے نکلنے کی سعی بھی کتاب کی سنسنی خیزی کو برقرار رکھتی ہے۔ چھوٹی سی عمر کے لڑکوں کی قائدانہ صلاحیتیں قاری کے منہ سے عش عش نکلوا دیتی ہیں۔

