America Se Hijrat
امریکہ سے ہجرت
یہ کہانی ہے نیو یارک کے ایک خوشحال یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی کی جسے بچپن ہی سے نام نہاد امریکی ثقافت کی چمک دمک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ وہ صرف رقص و سرور اور مخلوط محافل سے دور رہتی تھیں، بلکہ حق کی تلاش میں بھی سرکردہ رہیں۔ بالآخر ان کی تلاش ختم ہوئی اور اسلام کی شکل میں انہوں نے صراط مستقیم پا لیا لیکن ان کا معاشرہ انہیں نۓ دین کے ساتھ قبول کرنے کو تیار نہ ہوا۔ قبول اسلام سے قبل آپ کی جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی سے خط و کتابت چلتی رہتی تھی۔ جن ہی کی دعوت پر آپ ہجرت کرکے پاکستان آئیں اور مستقل یہیں بس گئیں۔
یہ کتاب دراصل ان خطوط پر مشتمل ہے۔ جو مصنفہ نے اپنے ملک سے نکلنے سے لے کر اپنی زندگی کے آخر تک اپنے والدین کو لکھے۔ جس میں نہ صرف ان تمام مسلمان ملکوں کا پتہ ملتا ہے۔ جہاں جہاں سے آپ کا بحری جہاز گزرا، اس کے علاوہ مذہب کی تبدیلی میں آپ کے والدین کے مثبت کردار پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
چونکہ پاکستان میں آپ بالکل نووارد تھیں تو یہاں کے معاشرہ کا آپ نے بہت باریک بینی سے جائزہ لیا اور ایسی ایسی چیزیں بیان کی جن پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا۔ کھانے پینے سے لے کر اوڑھنے بچھونے تک، تہوراوں اور ہر دو معاشروں کا تقابلی جائزہ بھی اس کتاب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
آخر میں ایک بات پر میں خصوصی روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ جس طریقے سے مولانا مودودی کے گھر والوں کو آپ نے بیان کیا ہے، وہ بہت ہی فطرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام انسانوں کو پیغمبروں کے درجے تک پہنچانے میں ملکہ حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح ہم مولانا صاحب کو بھی سمجھتے ہیں۔ اس کتاب کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک عام انسان تھے اور ان کے گھر میں وہی مسائل تھے۔ جو قریب قریب آپ کو ہر گھر میں نظر آ جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف آپ اسلام کے داعی و مبلغ تھے تو دوسری طرف آپ کے ہی صاحبزادے مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے۔ مولانا نے ان مسائل کو اسلام کی روشنی میں کس طرح دیکھا، وہ بھی الگ ہی ایک باب ہے۔ جس میں مولانا کی اعلیٰ ظرفی اور دین کی گہری سمجھ دیکھنے کو ملتی ہے۔