Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Aik Qatal Jo Na Ho Saka

Aik Qatal Jo Na Ho Saka

ایک قتل جو نہ ہو سکا

رؤف کلاسرا یک منجھے ہوئے صحافی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کی خوبو بھی رکھتے ہیں۔ جس کی مثال ان کی دو کتابیں"گمنام گاؤں کا آخری مزار" اور "شاہ جمال کا مجاور ہیں۔ جن میں میں نے کچھ ان الفاظ میں تبصرہ کیا تھا۔

"اس کتاب میں شامل سب عام کہانیاں ہیں۔ اگر آپ بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کتاب آپ کے کام کی نہیں ہے کیونکہ ان کہانیوں کے تمام کردار ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ ہاں اُن کے کارنامے ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے جن کو کلاسرا صاحب نے خوبصورتی کے ساتھ اِن صفحات کی زینت بنایا ہے"

اس کے بعد یہ تیسری کتاب ہے۔ جو میری نظر سے گزری ہے اور پہلی دو کتابوں سے بالکل جدا۔ یہ کتاب ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے۔ جس میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے قتل کی سازش کی جاتی ہے، جس میں صدر پاکستان تک کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ کلاسرا صاحب نے اس تمام واقعہ کا نہ صرف بغور مطالعہ کیا ہے، بلکہ اسے کہانی کے سے انداز کیں پیش کرنے میں بھی خوب محنت کی ہے۔ اس کتاب کے چیدہ چیدہ واقعات مندرجہ ذیل ہیں۔

سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں بڑے پیمانے پر میرٹ کی دھجیاں کس طرح اڑائی جاتی ہیں۔ وہ چھوٹا سا افسر جس نے کبھی ملزموں سے تفتیش کی ہوتی ہے اور جب وہی ملزم طاقت میں آتے ہیں تو اسی نا اہل افسر کو ایسی پوسٹ پر تعینات کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس کے بعد رسہ گیروں کی ایک طویل داستان ہے کہ ایوان کی گھمن گھیریوں میں (جہاں عوام اپنے نمائندوں کو اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے بھیجتے ہیں) کیسے کیسے واقعات پیش آتے ہیں اور سیاستدان اور افسر اپنے ذاتی اغراض کو کیسے عوام کے حقوق پر مقدم رکھتے ہیں۔

اداروں کے درمیان کشمکش بلکہ چپقلش کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ کیسے ہر ادارہ اپنی ذمہ داری سے جان چھڑوا کر دوسرے کو پھنسانا چاہتا ہے۔ یہ نہیں کہ ملک اگر ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے تو مل کر اس کا سد باب کیا جائے بلکہ اپنا دامن صاف رہے اور ملک جائے بھاڑ میں۔

آخر میں ملک کا سب سے معتبر ادارہ (جوڈیشری) بھی سیاستدانوں اور افسروں کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ جس نے اپنے اپنے وقت میں مندرجہ ذیل انکوائیریز اور کمیشنز کا حکم دیا:

جسٹس منیر کمیشن

حمود الرحمٰن کمیشن

میمو گیٹ کمیشن

جسٹس خواجہ شریف قتل کیس کمیشن

کارگل کیس

نواب اکبر بگٹی قتل کیس

ان تمام کے اوپر کام تو ہوگیا، مگر آج تک کوئی بھی کیس اپنی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ کسی میں انکوائری افسر کو مار دیا گیا کسی میں انکوائری افسر کو خرید لیا گیا اور جو انکوائیریز مکمل ہوگئیں اور ان پر فیصلہ سنا دیا گیا، بعد میں اس فیصلہ پر عمل ہی نہیں کیا گیا۔ اکثر اوقات تو جو درج بالا جرائم کے سرغنہ تھے۔ ان کو ملک کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا گیا۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو وہ نادیدہ ہاتھ آرام سے نظر آ جائیں گے، جو اس ملک کو کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi