Tabdeeli Sirf Imran Khan Se Mashroot Kyun? (2)
تبدیلی صرف عمران خان سے مشروط کیوں؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
عام طور پر تبدیلی کی بات کی جاۓ تو ہم اس لفظ کو عمرا ن خان سے مشروط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جاۓ تو ہمیں اپنے تئیں اس لفظ پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ وہ ہوتا ہے۔ جب وہ خود کو بدلنے کی ٹھان لیتا ہے۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تبدیلی خود سے شروع کرنا لازمی ہے۔ جب تک ہم خود تبدیل نہیں ہوں گے تب تک معاشرے میں تبدیلی لانا نا ممکن ہے۔ بلکہ اس کی مثال ایک خیالی پلاؤ کی سی ہے۔
ہم تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر خود تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔ میرے ملک پاکستان میں پھل فروش سے لیکر افسر شاہی تک ہر شخص خود تبدیل ہونا نہیں چاہتا جبکہ تبدیلی کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔ گلی، محلوں، بازاروں میں بیٹھے لوگ تبدیلی کے نام پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں اور یہ اکثر وہ لوگ ہیں جو بے ایمانی، ملاوٹ، جھوٹ بولنے میں کسی سے کم نہیں یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان کی حکومت سے عوام کو جو تبدیلی کی اُمید تھی وہ پُوری نہیں ہو سکی۔ حکومت نے دعٰوی تو بہت کیے مگر اُن پر ابھی پُورا نہیں اُتر سکی۔
یہ کہنا بھی سراسر غلط ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو شوکت خانم جیسا کینسر ہسپتال دے کر خان صاحب نے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اور میری خان صاحب سے اس پلیٹ فارم سے درخواست ہے کہ وہ گورننٹ کے ہسپتالوں کو بھی شوکت خانم کے طرز پر اچھے اور معیاری ہسپتال بنائیں۔
تبدیلی کوئی آلہ دین کا چراغ نہیں۔ جسے رگڑنے سے کوئی جن حاضر ہوگا اور عرض کرے گا کہ کیا حکم ہے میرے آقا؟ آقا حکم دیں گے اور جھٹ سے تبدیلی آ جاۓ گی۔ تبدیلی بڑی بہترین چیز ہے مگر شرط یہ ہے کہ مثبت ہو لیکن میرا تبدیلی کے منتظر لوگوں سے سوال ہےکہ ہم جو دوسروں سے اپنی زندگی میں تبدیلی کی آس لگا کر بیٹھے ہیں ہم خود اپنی زندگی میں تبدیلی کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
اگر ہم بحیثیت ایک انسان اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اس نظام کی خرابی کہ اصل وجہ صرف سیاستدان یا حکمران نہیں بلکہ ہم خود بھی ہیں اس کی مثال اس سے لے لیں کہ بینک میں بل جمع کروانے کے لیے لائن لگی ہوتی ہیں اور ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لائن توڑ کر پہلے چلا جاۓ۔ گھر کی مثا ل لے لیں کے ماں باپ گھر کے کونے مں پڑے ہیں کوئی پو چھنے والا نہیں مگر ا ک بڑی سی عالی شان گاڑی لے کر اُس پے ماں کی دعا لکھوا کے اپنے فرض سے فارغ ہوجاتے ہیں۔
پھر ہم اتنے زمانہ ساز ہیں کہ 14اگست پر اک اچھے محبِِ وطن بن جاتے ہیں۔ رمضان میں اچھے مسلمان بن جاتے ہیں۔ شبِ برات پے معافیاں مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ 25دسمبر کر اپنے لیڈر کو یاد کر لیتے ہیں۔ 9نومبر کو جس نے پاکستان کا خواب دیکھا اُس کو یاد کرلیتے ہیں ایک ماں کا دن منا لیتے ہیں ایک باپ کا دن منا لیتے ہیں ایک دن اُساتذہ اور ایک دن مزدوروں کا منا کر اپنے فرض سے فارغ ہوجاتے ہیں اور یہ سب بھی صرف سوشل میڈیا پر چند تصاویر اور ویڈیوز کے سٹیٹس لگانے تک محدود ہوتا ہے مگر عملاً۔؟
مگر عملاًاس سب کا ہماری روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ تبدیلی ہمیں خود سے شروع کرنا ہوگی اور خوابٍ غفلت سے نکلنا ہوگا جس کا حل صرف اور صرف اپنی ذات میں تبدیلی سے ہی شروع ہونا ہے کسی سیاسی پارٹی کی تبدیلی سے نہیں۔
اب میں قارئین کی نظر ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ جب وزیراعظم عمران خان نے عام انتخابات سے پہلے اعلان کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ صوبوں کے گورنر ہاؤس عوام کے لیے کھول دیں گے اس وعدے کو پورا کرتے ہوۓ خان صاحب نے چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤس کو صبح 10سے شام 6بجے تک عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ اب ہمیں چاہیے تھا کہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے مگر حالات اس کے برعکس تھے۔ کہیں باغوں سے پھل غائب تھے۔ کہیں جھیل کے پُل ٹوٹے، کہیں گملے ٹُوٹے۔ یہ سب کرنے والے ہم میں سے ہی تھے۔ جو باہر آکر تبدیلی کے نعرے پر تبصرے کرتے نظر آتے ہیں کیا ایسے تبدیلی ممکن ہے؟
یا ہمیں عادت ہو گئی ہے کہ ہم ہر بات کو سیاسی پہلو دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر بات میں منفی بات نکالنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ خُدارا یہ ملک میرا اور آپ ہم سب کا ہے۔ اس کی حفاظت کریں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرکے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع مت کریں۔ پہلے اپنے آپ کو بدلیں تاکہ معاشرے میں ایک بُرا انسان ختم ہوسکے۔