Tehreek e Labbaik Kaise Bani? (1)
تحریک لبیک پاکستان کیسے بنی؟ (1)

پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد کم از کم ابتدائی چار دہائیوں میں آج جسے محض "بریلوی فرقہ" کہا جاتا ہے اس کے علماء و مشائخ اور عام پیروکار اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت حنفی کہلوایا کرتے تھے۔ چونکہ یہ برصغیر ہند میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھے تو اس کی مذھبی اسٹبلشمنٹ اپنے آپ کو سواد اعظم یعنی سب سے بڑی جماعت بھی کہا کرتی تھی۔
سواد اعظم ایک حدیث سے مستعار لی اصطلاح ہے جس میں قول رسول اللہ ﷺ بیان کیا گیا کہ "میری امت کا سواد اعظم یعنی سب سے بڑی اکثریت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی"۔
برصغیر ہند میں اٹھارویں صدی ھجری تک سنی اسلام کی بھاری اکثریت عقائد کے باب میں امام منصور ماتریدی، فقہ کے باب میں فقہ حنفی کی پیروی کرتی تھی۔ مشرب کے لحاظ سے یہ صوفیانہ اذکار و افعال و اشغال پر چل رہی تھی۔
عقائد کے باب میں سواد اعظم توسل و استغاثہ، زیارت قبور، استمداد و استعانت بالنبی و الاولیاء کی قائل تھی۔ ان کی ثقافت صوفیانہ رسوم و رواج اور شعائر سے عبارت تھی۔
اس معاملے میں سب سے پہلے الگ راہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے شاہ اسماعیل دہلوی اور شاہ ولی اللہ کے خاندان کے قائم کردہ مدرسہ رحیمی دہلی میں کچھ عرصہ زیر تعلیم رہنے والے سید احمد بریلوی نے اختیار کی۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے حجاز کے سفر سے واپس آکر تقویت الایمان کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب بزبان فارسی لکھی گئی۔ اس کتاب میں توحید و رسالت کے باب میں کم و بیش وہی خیالات بیان کیے گئے تھے جو حجاز میں وہابی تحریک کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی نے اپنی کتاب "کتاب التوحید" میں بیان کیے تھے۔ شاہ اسماعیل دہلوی کے ان عقائد کا رد سب سے پہلے تو خود شاہ ولی اللہ کے خاندان اور ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل علماء نے کیا۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل دہلوی کے عقائد کے رد میں اس وقت کے قریب قریب تمام بڑے سنی حنفی مدارس جیسے مدرسہ خیر آباد جو مولانا فضل حق خیر آبادی کے والد کا قائم کردہ تھا، مدرسہ بدایوں جو مولانا عبدالقادر بدایونی نے قائم کیا تھا، مدرسہ فرنگی محل جسے مولانا عبدالباری فرنگی محل کے آباء نے قائم کیا تھا۔ مدرسہ رامپور بھی شامل تھے نے تحریری و تقریری ہاتھ بٹایا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری میں موجود علاقے ہوں یا رنجیت سنگھ کی قائم کردہ ریاست ہو یا دیگر ہندوستان ہو اس کے اکثر بڑے نامور سنی حنفی مدارس کے علماء اور ہندوستان کے طول و ارض میں پھیلی خانقاہوں اور درگاہوں کے مشائخ یعنی ملا اشتبلشمنٹ اور صوفی اسٹبلشمنٹ نے شاہ اسماعیل دہلوی و سید احمد بریلوی کے توحید و رسالت، شرک و بدعت کے باب میں خیالات کو وہابی عقائد قرار دے کر مسترد کردیا۔ شاہ اسماعیل دہلوی و سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کو بھی سنی اسلام کی مولوی اور صوفی اسٹبلشمنٹ کی اکثریت نے وہابی تحریک قرار دے کر مسترد کیا۔ زوال پذیر مغلیہ سلطنت کے نمائشی آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں چیف جسٹس / قاضی مفتی صدر الدین آزردہ تھے اور ان کے برابر کا عہدہ مولانا فضل حق خیر آبادی کا تھا۔ مولانا فضل حق خیر آبادی نے شاہ اسماعیل دہلوی کے نظریات کے رد میں کئی کتابیں فارسی میں لکھیں۔
سن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی راج نے جو انتقامی کاروائیاں کیں ان کا سب سے بڑا ہدف مذھبی سطح پر سواد اعظم اہلسنت و جماعت کی مولوی و مشائخ اسٹبلشمنٹ تھی۔ ان کے اکثر بڑے نامور مدارس تباہ و برباد ہوگئے۔
سن 1866ء میں موجودہ ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے دیوبند میں انگریز کے قائم کردہ سرکاری نظام تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر کام کرنے والے مولانا مملوک علی نے دارالعلوم عربیہ اسلامیہ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے کی ابتداء میں شامل جو مولوی سب سے نمایاں تھے ان میں مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمود حسن تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس مدرسے کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اسے کچھ گرانٹ بھی فراہم کی۔ اس مدرسے کے بانیان نے ابتداء سے ہی اپنے آپ کو فقہ میں حنفی فقہ کا پیرو، عقائد کے باب میں ماتریدیہ کی پیروی کرنے والا بتایا۔ اس کے بانیان تصوف سے بھی دور نہیں تھے۔ اس کے پہلے مہتمم مولانا قاسم نانوتوی، پہلے شیخ الحدیث مولانا رشید احمد گنگوہی، دوسرے مہتمم مفتی محمود حسن، مولانا اشرف علی تھانوی سمیت کئی اور اساتذہ یوپی کے اندر ایک بڑے صوفی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت تھے۔
دیوبند مدرسہ میں مولانا رشید احمد گنگوہی وہ پہلے عالم دین تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف شاہ اسماعیل دہلوی کے نظریات کے قائل ہوئے بلکہ انہوں نے محمد بن عبدالوہاب نجدی اور شیخ ابن تیمیہ کو راسخ العقیدہ موحد بھی قرار دینا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے توسل کو جائز قرار دیا۔ زیارت قبر نبی و اولیاء کو بھی مستحسن عمل قرار دیا لیکن انھوں نے استغاثہ و استعانت و استمداد کو بدعت سئیہ قرار دے ڈالا اگرچہ انھوں نے شاہ اسماعیل دہلوی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی و شیخ ابن تیمیہ کی طرح اسے شرک جلی قرار نہ دیا اور نہ اس بنیاد پر سواد اعظم اہلسنت کی تکفیر کی۔ لیکن مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کو اپنے اکابرین میں شمار کیا۔ ان کی تعریف و توصیف جاری رکھی۔
مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے برصغیر ہند کے سنی مسلمانوں کی اکثریت کے ہاں رائج ختم، نیاز، عرس تیجے، دسویں اور چہلم، محرم کے ایام میں تعزیہ سازی و تعزیے کے جلوس، نیاز و ختم کو بدعات سئیہ قرار دے کر ممنوع قرار دے ڈالا۔ محفل میلاد، قوالی چاہے مزامیر کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر اسے بھی ممنوع اور بدعت سئیہ میں شمار کیا۔
اس طرح سے توحید و رسالت کے باب میں برصغیر ہند کے سنی مسلمانوں کی اکثریت کے ہاں جو عقائد، رسوم و رواج اور ثقافتی شعائر معمول بہ تھے انھیں مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے "شرک جلی اور بدعات سئیہ " قرار دے ڈالا اور یہی نظریہ "دیوبندی" فرقہ کی شناخت بن گیا۔
دیوبند مدرسے سے فارغ التحصیل علماء کا ایک گروہ جس کے سرخیل مولانا غلام اللہ خان، مولانا حسین احمد بھچرواں، مولانا عبدالستار تونسوی و دیگر تھے وہ دیوبندی مذھبی اسٹبلشمنٹ کی مین سٹریم سے الگ راہ پر عمل پیرا ہوا اس گروہ نے حیات بعد الموت، عذاب قبر، سماع موتا، کا انکار کیا۔ توسل و استمداد و استعانت و استغاثہ کو بدعات سئیہ سے آگے بڑھ کر شرک جلی قرار دے کر ان کے اختیار کرنے والوں کو مشرک قرار دیا۔ یہ دیوبندی گروہ اقلیت میں تھا اور اسے مماتی گروہ قرار دیا گیا۔ مدرسہ دیوبند کی اکثریتی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے ان سے اختلاف کرنے کے باوجود انھیں اپنا حصہ قرار دیے رکھا اور اس گروہ کے مدراس اور مساجد مدرسہ دیوبند سے ہی منسلک رہے۔
مفتی محمود حسن کے زمانے میں مدرسہ دیوبند نے اپنا غیر سیاسی کردار ختم کردیا اور مفتی محمود حسن نے برصغیر ہند میں برطانوی راج کے خاتمے اور عثمانی خلافت کے طرز پر ایک اسلامی خلافت کے قیام کی جدوجہد شروع کی۔ ان کی تحریک کو تحریک ریشمی رومال کہا گیا۔ مفتی محمود حسن افغانستان کی حکومت اور ترک عثمانی حکمرانوں سے مدد طلب کرنے کے لیے خطوط لکھے۔ ان کے کچھ خطوط برطانوی ہندوستان کے حکام کے ہاتھ لگے تو انہوں نے مفتی محمود حسن کو گرفتار کرکے کالا پانی کی سزا سنا دی۔
مفتی محمود حسن کے بعد مولانا حسین احمد مدنی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر ہند آل انڈیا نیشنل کانگریس انڈین نیشنل ازم کے سیکولر بیانیہ کو پھیلا رہی تھی۔ مولانا حسین احمد کی قیادت میں مدرسہ دیوبند اور اس کی مذھبی اسٹبلشمنٹ کی اکثریت نے بھی سیکولر انڈین نیشنل ازم کو قبول کیا اور اس نظریے کی داعی بن گئی۔ یوں مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ آل انڈیا نیشنل کانگریس کی ہمنوا ہوگئی۔
مولانا حسین احمد مدنی نے مدرسہ دیوبند کی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے برصغیر ہند میں دیگر بڑے سنی مدارس کے علماء کے ساتھ اشتراک و تعاون کو بڑھایا اور انڈین سیکولر نیشنلزم کے سیاسی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کے سنی علماء کی ایک نمائندہ سیاسی جماعت جمعیت علماء ہند کی تشکیل کی طرف قدم بڑھایا۔
جمعیت علماء ہند اپنے قیام کے وقت ہندوستان کے دیوبندی اور غیر دیوبندی علماء کی اکثریت کی نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس کے پہلے صدر ایک غیر دیوبندی سنی صوفی عالم مدرسہ بدایوں کے مہتمم مولانا عبدالماجد بدایونی تھے۔ پہلے مرکزی جنرل سیکرٹری مدرسہ فرنگی محل کے سنی صوفی عالم مولانا عبدالباری فرنگی محل تھے۔ اس جماعت میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے والد مولانا علیم الدین صدیقی میرٹھی بھی شامل تھے۔
اسی جماعت نے پہلی عالمی جنگ کے بعد جب عالمی سامراجی قوتوں نے باہم مل کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی کوشش کی تو خلافت عثمانیہ کے بچاؤ کے لیے تحریک خلافت کی بنیاد رکھی۔ خلافت کمیٹی کے مرکزی صدر مولانا عبدالباری فرنگی محل بنے۔
جمعیت علماء ہند میں دیوبندی اور غیر دیوبندی علماء کے درمیان اس وقت اختلافات پیدا ہوگئے جب حجاز میں برطانوی سامراج نے حجاز کو وہابی تحریک کے سربراہ ابن سعود کی قیادت میں ایک وہابی ریاست سعودی عرب کے نام سے ریاست تشکیل کی اور مکہ و مدینہ سمیت حجاز میں صحابہ کرام اور اہل بیت اظہار سمیت ہزاروں تابعین و تبع تابعین کی قبروں پر تعمیر قبوں کو مسمار کردیا۔ قبروں کو ڈھا کر، زمین کے برابر کردیا۔
تحریک خلافت میں شامل دیوبندی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کرلیا اور غیر دیوبندی علماء مولانا عبدالباری فرنگی محل سمیت نامور صوفی سنی علماء کی بہت بڑی تعداد نہ صرف خلافت کمیٹی سے الگ ہوئی بلکہ انھوں نے جمعیت علماء ہند سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
اسی زمانے میں خلافت کمیٹی میں شامل کچھ دیوبندی اور اہلحدیث مولویوں نے جمعیت علماء ہند کے مدمقابل اپنی ایک نمائندہ سیاسی جماعت مجلس احرار ہند قائم کی۔ یہ جماعت سیکولر ہندوستانی نیشنل ازم کے مقابلے میں حکومت الٰہیہ کی حامی بن کر سامنے آئی۔ لیکن مجلس احرار اور جمعیت علماء ہند دونوں ابن سعود کی حکومت کے حامی تھے۔ اس طرح سے دیوبندی اور اہل حدیث فرقے اور ان کی سیاسی مذھبی اسٹبلشمنٹ سعودی عرب کی حامی بن کر سامنے آئی۔
ابن سعود نے جب پہلی بار دنیا بھر سے علماء کی ایک نمائندہ مسلم علماء کانفرنس جسے موتمر اسلامی کا نام دیا گیا بلائی تو دارالعلوم دیوبند نے اس میں شرکت کے لیے جس دیوبندی علماء کا وفد بھیجا تو اس کی سربراہی مولانا شبیر احمد عثمانی کر رہے تھے۔ غیر دیوبندی صوفی سنی علماء نے مولانا عبدالباری فرنگی محل کی قیادت میں اس کانفرنس بائیکاٹ کیا -
مولانا شبیر احمد عثمانی اس کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس ائے تو وہ ابن سعود کے بہت بڑے مداح بن کر لوٹے۔ یوں دیوبندی فرقہ کی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے سعودی عرب کی وہابی حکومت سے تعلق استوار ہوئے یہ تعلقات بعد ازاں ایک باقاعدہ سٹریٹجک تعلق میں تبدیل ہوگئے۔
سن 1925ء سے 1937ء تک صوفی سنی غیر دیوبندی علماء کی اسٹبلشمنت ہندوستان کے سیاسی منظر نامے سے ایک طرح 8 سے غائب رہی اور پھر 1940ء کے آخر میں جب آل انڈیا مسلم لیگ نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ہندوستانی سیکولر نیشنل ازم کے خلاف مسلم نیشنل ازم کی علمبرداری سنبھالی اور اس کو جمعیت علماء ہند کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو آل انڈیا مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں اس کے توڑ کے لیے علماء و مشائخ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی انھیں سب سے زیادہ صوفی سنی علماء و مشائخ کی ایک بہت بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہوئی۔
اس موقعہ پر صوفی سنی علماء و مشائخ نے اپنی ایک نمائندہ مذھبی سیاسی تنظیم تشکیل دی جس کا نام آل انڈیا سنی علماء و مشائخ کانفرنس تھا۔ مولانا عبدالباری فرنگی محل، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا اختر رضا خاں فرزند مولانا احمد رضا خاں، سید نعیم الدین مراد آبادی، پیر جماعت علی شاہ، مولانا علیم الدین میرٹھی و دیگر علماء و مشائخ اس میں شامل تھے اور یہ آگے چل کر مطالبہ پاکستان کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آئے۔
جمعیت علماء ہند میں شامل دیوبندی علماء کی ایک اقلیتی جماعت مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی قیادت میں جمعیت علماء ہند سے الگ ہوگئے اور انھوں نے جمعیت علماء اسلام کے نام سے ایک الگ دیوبندی سیاسی جماعت تشکیل دی اور اس نے مطالبہ پاکستان کی حمایت شروع کردی۔ یہ اقلیتی دیوبندی علماء کی جماعت ان دنوں آل انڈیا سنی علماء و مشائخ کانفرنس کے ساتھ اشتراک عمل میں رہی۔
پاکستان بننے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں دیوبندی علماء کی یہ اقلیت حکمران مسلم لیگ کے بہت قریب آگئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نوزائیدہ ریاست میں جناح کی وفات کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان کے بہت زیادہ معتمد بن کر ابھرے۔ وہ ریاست کے خودساختہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان ٹھہرے۔ قرارداد مقاصد کی تشکیل میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا۔
کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی مساعی سے دیوبندی مدرسے کے کی روایت سے ہم آہنگ دالعلوم کراچی کی بنیاد پڑی۔ یہ مدرسہ سیاسی اعتبار سے مسلم نیشنلزم کا حامی تھا۔ پاکستان میں اس وقت کانگریسی دیوبندی اور جمعیت علماء ہند سے تعلق رکھنے والے سیکولر نیشنلسٹ علماء کے لیے سیاست کا ماحول سازگار نہ تھا۔ اس روایت سے جڑے دیوبندی علماء کا زیادہ تر تعلق صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان سے تھا۔ یہ نیشنلسٹ علماء کا دھڑا جس کی قیادت مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کر رہے تھے کیموفلاج ہوکر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہورہا لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی کی زندگی میں اس جماعت میں یہ طبقہ کوئی خاص کردار ادا نہ کرسکا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کی وفات کے بعد جب جمعیت علمائے اسلام کے نئے مرکزی صدر اور دیگر قیادت کے انتخاب کا مسئلہ سامنے آیا تو ملتان میں اس جماعت کی مرکزی شورا کا اجلاس ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان کا حامی دیوبندی علماء کا اقلیتی گروپ وہاں اجلاس میں شریک مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے کانگریسی اور جمعیت علماء ہند کے دھڑوں سے شکست کھاگیا۔ مفتی محمود جمعیت علماء اسلام کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور مولانا غلام غوث ہزاروی سینئر نائب صدر منتخب ہوئے۔ پاکستان نواز دیوبندی علماء کے گروپ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور مولانا احمد علی لاہوری کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام کا ایک نیا دھڑا تشکیل پایا۔ لیکن دیوبندی سیاست میں مفتی محمود کی قیادت والا دھڑا ہی دیوبندی سیاست کے نمائندہ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا جس کی مضبوط سیاسی جڑیں صوبہ سرحد اور بلوچستان کے اندر تھیں اور اس جماعت نے اپنے نظریاتی اور سیاسی رشتے پاکستان میں چھوٹے صوبوں سے ابھرتی نمائندہ قوم پرست سیاست سے جوڑے جو بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی ولی خان گروپ کی شکل میں سامنے آئی۔
مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام سیاسی اعتبار سے لیفٹ اور قوم پرست سیاست کے قریب رہی لیکن اس کے مذھبی سیاسی مطالبات انتہائی رجعت پرست اور پاکستان کو ایک تھیاکریٹک ریاست بنانے کے تھے۔ اس نے پاکستان کی ریاست کے حکمران جماعت مسلم لیگ اور سول و ملٹری افسر شاہی اسلام کے نام پر اٹھائے جانے والے مطالبات کی نہ صرف حمایت کی بلکہ یہ نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کرتی رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ حکمران مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی جانب سے جاگیرداری کو عین اسلام قرار دینے اور جاگیرداری کو جاری رکھنے کی پالیسی سے ان دنوں اختلاف کر رہی تھی۔ یہ جماعت ان دنوں میں عرب دنیا میں بعث پارٹی جیسی عرب قوم پرست اسلامی شوشلسٹ حکومتوں کی حامی تھی۔ یہ عرب دنیا کی پاپولر عرب قوم پرست حکومتوں جیسے مصر میں جمال عبدالناصر، لیبیا میں کرنل قذافی، انڈونیشیا میں حبیب بورقیبہ، سوئیکارنو، فلسطین کے یاسر عرفات کی حامی تھی۔ یہ پاکستان میں جمہوریت کے قیام، ون یونٹ کے خاتمے، اسلامی سوشلزم اور تھرڈ ورلڈ ازم کی حمایت کررہی تھی۔
ایوب خان کے دور میں مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام لیفٹ اور قوم پرست جماعتوں کی اتحادی اور ان نیشنلسٹ مطالبات کی حامی ہونے کے باوجود ایوب خان کی عائلی قوانین، نکاح و طلاق کی رجسٹریشن، ضبط تولید جیسی اصلاحات کی مخالفت میں قدامت پرست علماء کے ساتھ تھی اور شریعت کے نام پر رجعت قوانین کا دفاع کر رہی تھی۔ اس کا مذھبی سطح پر رویہ اور رجحان فرقہ وارانہ ہی تھا یہ شیعہ اور صوفی سنی عقائد اور شعائر کے خلاف سرگرم تھی۔ اس کے علماء اور کارکن کی بڑی تعداد دیوبندی پلیٹ فارم پر جمعیت اہلسنت والجماعت کی اینٹی شیعہ مہم کا ساتھ دے رہے تھے اور ان کے خلاف پرتشدد کاروائیوں میں ملوث بھی تھے۔ یہ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کی سیکولر نیشنلسٹ سیاست کی حامی تھی لیکن پاکستان میں یہ ریاست کو سیکولر سٹیٹ بنانے کی سخت مخالف تھی۔
ریاست کی تھیاکریٹک پالیسی میں دیوبندی اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر کی یہ حامی جماعت تھی جس کے ردعمل میں غیردیوبندی سنی حنفی علماء و مشائخ کے ایک سیکشن نے اپنی نئی سیاسی مذھبی نمائندہ جماعت کا قیام جمعیت علمائے پاکستان کے نام سے کیا۔ اس کے پہلے صدر مولانا عبدالحامد بدایونی تھے۔ اس جماعت کا زور سندھ کے شہری اردو اسپیکنگ مہاجر اکثریت کے علاقوں خاص طور پر حیدرآباد اور کراچی میں تھا۔ جبکہ پنجاب میں بھی اس جماعت کو غیر دیوبندی سنی علماء اور مشائخ اور ان کے پیروکاروں میں مقبولیت ملی۔ صوبہ سرحد میں پیر آف زکوڑی شریف کے مریدین اور عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد اس جماعت میں شامل ہوئی۔ اسے عرف عام میں بریلوی فرقے کی سیاست کی نمائندہ جماعت قرار دیا گیا۔ اس جماعت میں غیردیوبندی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کراچی، حیدر آباد اور پنجاب کے شہروں اور قصبوں کے تاجروں اور دکانداروں کی حمایت حاصل تھی۔ ستر کی دہائی میں یہ کافی مضبوط مذھبی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور ستر کے انتخابات میں اس نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں بھی حاصل کیں۔ مولانا احمد شاہ نورانی قومی سطح پر مذھبی سیاست میں ایک اہم اور مضبوط با اثر غیر دیوبندی صوفی سنی عالم سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
جاری ہے

