Taqseem Punjab Ke Tanavo Aur Teoharon Ko Kha Gayi
تقسیم پنجاب کے تنوع اور تیوہاروں کو کھاگئی

ہمارے گھر میں بچپن سے لڑکپن تک میری دادی اماں، میرے دادا کی بہن جنھیں سب بوا رحمت کہتے تھے، میرے دادا کے بھائی کی بیٹی پھوپھی انوری جنھیں سب انو کہتے تھے۔ یہ تین ایسی عورتیں تھیں جن سے ہم نے بھوانی شہر کی زندگی کے بڑے سے قصے اور کہانیاں سنیں۔
مردوں میں میرے دادا تھے جن سے ہم ان کے بھوانی شہر میں گزرے کم و بیش 30 سال کی کہانی سنا کرتے تھے۔
وہ جس محلے میں رہا کرتے تھے وہ ہندو جاٹ گھرانوں کی اکثریت کا محلہ تھا۔ ساتھ ان کے تیلیوں کا محلہ تھا جس میں ہندو تیلی زیادہ اور مسلمان تیلی چند ایک ہی تھے۔
بھوانی شہر میں مسلمان کل آبادی کا مشکل سے 15 فیصد تھے جبکہ اکثریت کا تعلق ہندو جاٹ گھرانوں سے تھا۔ یہاں بہت کم تعداد میں سکھ آباد تھے۔ ایک محلہ مسیحی برادری کا تھا۔ جبکہ چوہڑوں، چماروں کی ایک الگ بستی شہر سے ہٹ کر تھی۔
میری دادی، بوا رحمت، پھوپھی انو اور میرے دادا بھوانی شہر میں مندروں کی کثرت کا ذکر کیا کرتے تھے۔ بعد ازاں میں نے جب بھوانی شہر کی تاریخ بارے پڑھا تو مجھے پتا چلا کہ اس شہر میں ہزاروں سال پرانے مندر موجود تھے اور اس شہر کی تاریخ کوئی پانچ ہزار سال پرانی تھی۔ یہ شہر مندروں کی کثرت کے سبب چھوٹا کاشی کہلاتا تھا اور آج بھی اس شہر کو چھوٹا کاشی کہا جاتا ہے۔
ان سب نے بارہا ہمیں اس شہر میں سال کے مختلف مہینوں آنے والے کئی تیوہاروں کے بارے میں بتایا۔ اپنی جنم بھومی میں وہ سب سے زیادہ دیوالی، ہولی، بیساکھی کے تیوہاروں کا ذکر کیا کرتے تھے۔
دیوالی کے تیوہار کے موقعہ پر صرف ہندوں کے گھروں کی دیواروں پر ہی چراغاں نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مسلمانوں کے گھروں کی دیواروں پر بھی چراغ روشن کیے جاتے تھے۔
میری دادی کا بچپن اور لڑکپن تحصیل بھوانی کے نزدیک ایک قصبے دادری میں گزرا اور 16 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی تو وہ بھوانی شہر آن بسیں۔ ان کے ایک ماموں جن کا نام عبدالرزاق تھا وہ ریلوے میں گارڈ تھے اور وہ دلی میں رہا کرتے تھے۔ دلی سے جو ٹرینیں لاہور تک جاتی اور لاہور سے دلی آیا کرتیں ان کے ماموں ان میں بطور ریلوے گارڈ سفر کرتے اور میری دادی نے شادی سے پہلے ان کے ساتھ ٹرین میں بھوانی جنکشن سے دلی ریلوے اسٹیشن تک کا سفر کئی بار کیا تھا اور دلی شہر کی یاترا کی تھی۔ اس دوران کم و بیش چار مرتبہ انھوں نے دلی میں دیوالی کا تیوہار دیکھا تھا۔ بچپن سے لیکر جوانی تک تقسیم کے خوفناک اور ہولناک تجربے سے دوچار ہونے سے پہلے دیوالی کے تیوہار پر وہ اپنی مسلم اور ہندو سہیلیوں کے ساتھ سجے سجائے بازاروں میں چوڑیوں اور جیولری کے اسٹال سے خریداری، نت نئی مٹھائیوں کے ذائقے، گول گپے اور ثنا چاٹ کھانے کا ذکر کیا کرتی تھیں۔ اس تیوہار کی رات کو بھوانی شہر کے ایک بڑے میدان میں رام لیلا کا کھیل کھیلا جاتا جس میں مرد، عورتیں اور بچے شریک ہوا کرتے تھے۔ سب وہ کھیل بڑے شوق سے دیکھتے جو رات گئے جاری رہا کرتا تھا۔
تقسیم کے وقت ہمارے ددھیالی خاندانوں کا ایک بڑا حصہ بھوانی سے ہجرت کرکے خانیوال شہر میں آباد ہوا۔ یہ شہر 1920ء میں ولیم رابرٹ نے برطانیہ کے ویلز شہر کے نقشے کے مطابق تعمیر کیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے ریلوے لائن کے اس پار پرانا قدیم ترین ایک چھوٹا سا شہر آباد تھا جس کا نام پرانا خانیوال پڑ گیا جہاں اکثر آبادی مسلمانوں کی تھی۔ نئے خانیوال شہر میں تقسیم سے پہلے تک 14 بلاک میں سے 12 بلاک آباد ہوچکے تھے جبکہ بلاک 13 اور 14 میں مکانات کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا تھا لیکن ان میں آبادکاری کا عمل بہت سست تھا۔ نئے شہر میں ہندوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ دوسری بڑی آبادی سکھوں کی تھی جبکہ تیسری بڑی آبادی مسلمانوں کی تھی۔ چھوٹی سی اقلیت اینگلو انڈین کرسچن کی تھی جبکہ ایک بستی چوہڑوں کی تھی جن کی اکثریت مسیحی ہوگئی تھی۔
ابتداء میں شہر میں پہلا مندر بلاک پانچ میں تھا جس کے ساتھ ایک آشرم تھا۔ 1930ء کے آس پاس دوسرا مندر بلاک نمبر دو میں تعمیر ہوا تھا۔ اس شہر میں آباد ہندوں کی بھاری اکثریت سناتن دھرم سے تعلق رکھتی تھی اور شہر کے دونوں مندر سناتن دھرم کے زیر انتظام تھے۔ شہر میں ایک مرکزی بڑا گرودوارا تھا جو بلاک نمبر چار میں قائم تھا۔ اس سے ملحقہ بازار کا نام بھی گرودوارا بازار تھا جو پھر اکبر بازار کے نام سے مشہور ہوا۔ سکھ پنتھک کمیٹی نے دوسرا گرودورا 1942ء کے آس پاس اپنی ایک نئی آبادی جو شہر سے ملحقہ تھی اور کوٹ الہ سنگھ کہلاتی تھی وہاں بنایا اور شہر کے کئی سکھ گھرانے اس نئی کالونی میں جاکر رہنے لگے تھے ان میں اکثریت کا تعلق سبزی منڈی، گڑ منڈی، غلہ منڈی اور دوسرے تجارتی پیشوں سے منسلک درمیانے درجے کے سکھ تاجروں سے تھا۔
خانیوال میں دو ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جن کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ ایک حکیم لوکناتھ نامی شخص کا گرودوارہ چوک جسے بعد ازاں چوک سنگلہ والہ کہا جانے لگا میں تھا۔ جبکہ اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف، بلدیہ ملازمین، وکیل، صحافی ان کی زیادہ تر تعداد ہندو برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ شہر کی واحد غلہ منڈی، سبزی منڈی، گڑ منڈی اور تین بڑے بازاروں میں بھی اکثریت تاجر برادری کا تعلق بھی ہندو برادری سے تھا۔ دیکھا جائے تو نیا شہر بہت بھاری تعداد میں ہندو برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ جبکہ مشکل سے درجن بھر گھر مسلم برادری کے تھے اور ان سب کی جڑیں آس پاس کے چکوک یا پرانے گاوں میں تھی اور یہ بنیادی طور پر زمیندار گھرانے تھے جن کا کوئی ایک یا دو فرد پڑھ لکھ کر یا تو سرکاری ملازم ہوگئے تھے یا پھر وکیل بن گئے تھے۔ اس لیے نئے شہر کی مذھبی معاشرت پر ہندو برادری کے بڑے گہرے اثرات تھے۔
خانیوال بنیادی طور پر پنجاب کے ان جدید اور نئے آباد ہونے والے شہروں میں سے ایک تھا جو برطانوی سامراج کی برطانیہ میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکسٹائل اور فوڈ و بیوریج کی صنعتوں کے لیے سستے خام مال کی تیز رفتار ترسیل کے لیے بطور منڈیوں کے قائم کیے گئے تھے۔ خانیوال پنجاب میں کاٹن بیلٹ کی ایک اہم منڈی کے طور پر تعمیر ہوا تھا۔ اس شہر میں تقسیم سے پہلے تک کاٹن جننگ کے دو کارخانے تھے۔ ایک کارخانہ رابرٹ ولیم جو نہ صرف اس شہر کا بانی تھا بلکہ وہ ملتان ڈویژن، فیصل آباد ڈویژن اور ریاست بہاولپور کے اضلاع تک پھیلی کاٹن بیلٹ کی تعمیر کا بھی خالق تھا۔ اسی نے خانیوال، کبیروالہ، میاں چنوں، وہاڑی، بورے والہ ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، کہروڈ پکا، میلسی، اوکاڑہ سٹی جیسے نئے شہر ڈیزائن کیے تھے اور یہ بنیادی طور پر منڈی کہلاتے تھے۔
خانیوال سمیت ان سب شہروں کی شہری آبادی کی اکثریت ہندو برادری پر مشتمل تھی۔ جبکہ ان شہروں کے ساتھ جو نئے چکوک اور مواضع تعمیر ہوئے ان میں سب سے زیادہ تعداد سکھ آبادکاروں کی تھی۔ وہاں پر زمیندار اشرافیہ اور متوسط طبقے کے کسانوں کی اکثریت کا تعلق بھی سکھ برادری سے تھا۔ شاید یہی ایک وجہ تھی کہ ان نئے شہروں میں درمیانے طبقے یعنی پیٹی بورژوازی تاجروں اور پروفیشنلز، سرکاری ملازمین کی اکثریت آل انڈیا نیشنل کانگریس سے جڑی ہوئی تھی اور مذھبی اعتبار سے ہندوں کی اصلاح پسند تحریک آریہ سماج سے تعلق رکھتی تھی۔
سکھوں کی دیہی پیٹی بورژوازی کسانوں میں پڑھے لکھے کسان گھرانوں کا تعلق ریڈیکل کسان تحریکوں سے تھا اور ان میں کمیونسٹ پارٹی کا قائم کردہ کسان فرنٹ کیرتی پارٹی کے طور پر کام کر رہا تھا درمیانے اور چھوٹے درجے کے سکھ کسانوں میں اس کا اثر بہت زیادہ تھا۔ جبکہ شہروں میں بھی خاص طور پر نئے آباد ہونے والے شہروں میں کمیونسٹ پارٹی، سوشلسٹ ری پبلکن انڈیا، سوشلسٹ پارٹی کے پاس بھی جو کیڈر تھا وہ زیادہ تر ہندوں پر مشتمل تھا۔ آل انڈیا پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بھی زیادہ تر ہندو اور سکھ ہی وابستہ تھے۔
خانیوال بار کے پہلے صدر، سول کلب خانیوال کے پہلے صدر، آل انڈیا نیشنل کانگریس کے پہلے صدر بھی اس شہر کے معروف وکیل لالہ پنڈی داس تھے۔ وہ سول لائن میں تحصیل کہچری کے بالمقابل ایک بڑی کوٹھی میں رہائش پذیر تھے جو بعد ازاں چودھری غلام نبی ایڈوکیٹ نے خرید لی تھی۔ جو پاکستان بننے سے پہلے مشرقی پنجاب سے آکر خانیوال کی تشکیل سے بھی پہلے یہاں لوئر باری دوآب سے سیراب ہونے والے رقبے کو آباد کرنے والے ایک کمبوہ پنجابی آبادکار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے خاندان میں ہی نہیں بلکہ خانیوال کے مسلمان گھرانوں میں پہلے وکیل تھے اور دیوانی کے نامور وکیل تھے۔ یہ بھی سول کلب خانیوال کے ممبر تھے۔
لالہ پنڈی داس ایڈوکیٹ آل انڈیا نیشنل کانگریس تحصیل خانیوال کے صدر تھے۔ اس شہر کے ہندو اور سکھ بھی پاکستان بننے کے باوجود خانیوال سے جانے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد خانیوال شہر میں جسے آج چوک میلاد مصطفٰی کہا جاتا ہے جسے عام لوگ آج بھی گپی والہ چوک کہتے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد 60ء کی دہائی میں مرکزی جامع مسجد غوثیہ کے سامنے پیپل کے ایک گھنے درخت کے نیچے برف کا پھٹا لگانے والے عبدالغفار کے نام پر غفی چوک کہلایا اور پھر بگڑ کر گپی آلہ چوک کے نام سے مشہور ہوا، اس چوک میں ایک بڑے اجتماع سے لالہ پنڈی داس نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ان کی جماعت تقسیم کے خلاف تھی لیکن اب پاکستان بن گیا ہے تو وہ اس نئے ملک کے شہری ہیں اور وہ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔
47ء کے آخر اور 48ء کے اوائل میں شہر میں مشرقی پنجاب سے مہاجر بن کر آنے والے خاندان جب دو بڑے کیمپوں میں بہت بڑی تعداد میں آکر جمع ہوئے تو انھوں نے شہر کی ہندو اور سکھ برادری پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔ اس وقت خانیوال سے دستور ساز اسمبلی کے منتخب رکن پیر بڈھن شاہ کگھہ کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ وہ مہاجرین کے بہت بڑے سپورٹر اور حامی تھے۔ دوسری طرف ہیبت خان ڈاہا کا تعلق یونینسٹ پارٹی سے تھا اور وہ شہر کی ہندو اور سکھ برادریوں کا تحفظ کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ انھیں شہر سے نہ نکلنا پڑے۔ لیکن حکمران مسلم لیگ کے ساتھ مقامی پولیس اور فوج تھی جس نے ہندو اور سکھ برادریوں پر ہونے والے حملوں اور بلوے کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
لالہ پنڈی داس پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کا خاندان انھیں شدید زخمی حالت میں لیکر ٹرین کے ذریعے خانیوال سے چلا گیا اور دلی میں آباد ہوا۔ لالہ پنڈی داس اس حملے میں بچ گئے اور بعد ازاں وہ دلی میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوئے۔ ان کی بیٹی بملاداس وزیراعظم اندرا گاندھی کی پولیٹیکل سیکرٹری بنیں اور 80ء کی دہائی میں وہ اپنی جنم بھومی کو دیکھنے خانیوال آئیں۔ خانیوال بار سے انہوں نے خطاب بھی کیا۔ ان کی آنکھیں خطاب کے دوران کئی بار نم ہوئیں اور ایک فقرہ انہوں نے بار بار دہرایا کہ ان کے والد کو خانیوال کبھی نہیں بھولا۔ وہ اس کو دوبارہ دیکھنے کی تمنا دل میں لیے سورگباش ہوگئے۔
خانیوال ریلوے کی عمارت، ریلوے ہسپتال خانیوال کی عمارت سمیت ریلوے کی تعمیرات کے نگران انجنئیر رائے جسونت سنگھ جن کے نام پر جسونت نگر آباد ہوا اور سول لائن میں رقبے کے لحاظ سے رابرٹ ولیم کی کوٹھی کے بعد سب سے بڑی کوٹھی جسے خانیوال کے لوگ جنگلے والی کوٹھی کہتے ہیں میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ وہ باقی کی ساری زندگی خانیوال میں ہی گزارنا چاہتے تھے انھیں بھی تقسیم کے وقت خانیوال چھوڑنا پڑا۔ وہ امرتسر جاکر رہنے لگے تھے اور ہندوستان ریلوے سے بطور چیف انجنئیر ریٹائر ہوئے۔ نوے کی دہائی میں ان کا خاندان خانیوال آیا اور وہ بھی اشکبار تھا جو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے انھیں بھی خانیوال سے انس تھا اور وہ کہتے تھے کہ ان کے والد /دادا آخری سانس تک خانیوال کو یاد کرتے رہے۔ انھیں قلق تھا کہ خانیوال میں ان کی چتا کو آگ نہ لگائی جاسکی جہاں ان کے پرکھوں کی استھیاں دریائے راوی میں بہائی گئی تھیں۔ ان کے لیے دریائے راوی گنگا و جمنا تھا۔
میرے دادا اور دادی کو مرتے دم تک یہی قلق تھا کہ انھیں بھوانی شہر چھوڑنا پڑا جہاں ان کے بزرگوں کی قبریں تھیں۔ وہ کم و بیش خانیوال میں 50 سال گزار کر بھی مہاجرت کی کیفیت میں رہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جنھوں نے خانیوال شہر میں صرف مشکل سے 27 سال گزارے تھے کیونکہ خانیوال شہر کی تقسیم کے وقت عمر ہی اتنی تھی وہ بھی اس شہر سے ہجرت کے کرب میں مبتلا رہے۔ لالہ پنڈی داس جیسے ہزاروں لوگ 40 سے 50 سال کے درمیان تھیں اور ان کے خاندان اکثر و بیشتر مشرقی پنجاب سے آکر آباد ہوئے تھے اور لامحالہ ان کا جنم مشرقی پنجاب کے کسی دیہات میں ہوا تھا وہ بھی اس نئے شہر کے عشق میں گرفتار تھے۔ واپس مشرقی پنجاب یا دلی میں جاکر بھی وہ اس شہر کی یاد میں کلیجہ کباب کرتے رہے۔ یہی حال مشرقی پنجاب اور دلی سے آکر خانیوال میں آباد ہونے والوں کا تھا۔
پٹیالہ یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر ہرکیرت سنگھ جو 79 پندرہ ایل سکھوں والہ میں پیدا ہوئے اور وہ خالصہ ہائی اسکول /اسلامیہ ہائی اسکول خانیوال کے دسویں کے طالب علم تھے جب ان کے خاندان کو واپس مشرقی پنجاب ہجرت کرنا پڑی اور خانیوال میں ایک فلور مل، برف کے کارخانے، کاٹن جننگ مل، اینٹوں کے بھٹے کے مالک شادی لال کو بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خانیوال سے جانا پڑا اور یہ 1948ء میں مارچ میں خانیوال شہر سے بچے کچھے ہندو گھرانوں میں آخری ہجرت کرنے والے تھے۔ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح خانیوال ہی میں رہ جائیں لیکن انھیں نکلنا پڑا اور یہ بھوانی شہر میں آباد ہوئے۔ ان کے گھر والے بھی خانیوال دیکھنے آئے اور میرے دادا کے مہمان بنے۔ میرے دادا شادی لال کے بیٹے سے پوچھ رہے تھے کہ وہاں دیوالی کا تیوہار کیسے ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ خوب دھوم دھام سے ہوتا ہے اور رام لیلا اسی میدان میں کھیلی جاتی ہے۔ وہ پھر یہ بھی بتانے لگے کہ خانیوال میں دیوالی کا تیوہار ان کے بچپن اور لڑکپن میں کم و بیش پندرہ مرتبہ آیا۔
آخری بار خانیوال میں یہ تیوہار 12 نومبر 1947ء کو آیا تھا اور اس وقت شادی لال کے بیٹے کے مطابق ہندوؤں کے درجن بھر بچے کچھے گھرانے لوکو شیڈ ریلوے کے قریب بنے گھروں میں انتہائی خوف کی حالت میں ہیبت خان ڈاہا کی پناہ اور حفاظت میں تھے۔ ہیبت خان ڈاہا ان کے کھانے پینے کا انتظام کر رہے تھے۔ ہر دم بلوائیوں کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ وہیں چند چراغ جلائے گئے اور پراتھنا کی گئی۔ باقی سارا شہر بے چراغ تھا۔ جبکہ گزشتہ سال نومبر 46ء میں پورے خانیوال میں چراغاں تھا۔ بازار سجے ہوئے تھے۔ رام لیلا رچائی گئی تھی۔ پورا شہر شاداں و فرحاں نظر آتا تھا۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں ہوئے فسادات کا اثر خانیوال پر نہیں پڑا تھا۔ شادی لال کا بیٹا چاہ کر بھی میرے دادا سے یہ نہ پوچھ سکا کہ اب دیوالی کے موقعہ پر خانیوال میں کسی کو یاد بھی ہے کہ کبھی اس شہر میں یہ تیوہار پوری آن شان اور آب و تاب سے منایا جاتا تھا۔
شادی لال میرے دادا کو بتا رہا تھا کہ بھوانی شہر میں پھر سے مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعداد آباد ہوچکی ہے۔ عید، شب برات، عید میلاد النبی اور محرم کے تیوہار وہاں منائے جاتے ہیں۔ شہر میں مساجد اور مدارس بھی بن چکے ہیں۔ لیکن خانیوال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے مذھبی تنوع سے محروم ہوچکا۔ اب تو 90ء کی دہائی سے یہاں بیساکھی بھی نہیں منائی جاتی ہے اور ستم بالائے ستم یہاں محرم محض شیعہ کا اور عید میلاد بریلوی تیوہار بن چکے ہیں۔ ان تیوہاروں میں مشترکہ عوامی شرکت خواب بن کر رہ گئی ہے۔ محرم شیعہ سخت پہرے اور مکمل ناکہ بندی اور حصار میں مناتے ہیں۔ خانیوال میں بھی پورے پنجاب کی طرح اب روایتی میلے ٹھیلے، عرس پبلک مقامات پر نہیں منائے جاتے۔
تقسیم خاص طور پر پنجاب کے مذھبی تنوع اور کمپوزٹ کلچر کو کھا گئی اور ساتھ ہی یہاں کے تیوہاروں کو بھی۔

