Taleem, Munafa, Barbadi
تعلیم، منافع، بربادی

پاکستان میں تعلیم کا حال ایسا ہو چکا ہے جیسے کوئی پرانی بوسیدہ بس ہو، جس کا انجن خراب، سیٹیں ٹوٹی ہوئی، شیشے غائب اور کنڈکٹر ہر اسٹاپ پر کسی "گاہک" کو تاڑ رہا ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں کنڈکٹر سرکاری اور نجی تعلیمی مافیا ہیں اور مسافر وہ بدقسمت عوام جو ہر بار یہ سوچ کر سوار ہوتے ہیں کہ شاید اب کی بار یہ گاڑی انہیں منزل تک لے جائے، مگر ہمیشہ کسی اندھے گڑھے میں جا گرتی ہے۔
تعلیم جو کبھی روشنی تھی، اب ایک اندھیری سرنگ میں قید ہو چکی ہے، جس کے دونوں سروں پر نجی تعلیمی مافیا کے بھوت کھڑے ہیں جو ہر گزرنے والے پر "داخلہ فیس" اور "سمسٹر چارجز" کے تیز دھار خنجر سے حملہ کر دیتے ہیں اور وہ سرکاری یونیورسٹیاں جو کبھی علم کے قلعے ہوا کرتی تھیں، اب ان میں رشوت، اقربا پروری، نااہلی اور کرپشن کے چوکے چھکے لگ رہے ہیں اور تماشائی وہ عوام ہیں جو حیرت سے یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ آخر کون سا میچ کھیلا جا رہا ہے؟
سرکاری یونیورسٹی یا بیوروکریسی کا قبرستان؟
سرکاری جامعات میں اب وائس چانسلر بننے کے لیے تعلیمی قابلیت، تجربہ یا کوئی تحقیقی کارنامہ ضروری نہیں، بلکہ "اعلیٰ حکام" کی خوشنودی، وزارتِ تعلیم میں کسی سفارشی کی پہچان، یا کسی بڑے سرمایہ دار کے ساتھ کاروباری لین دین کا ہونا لازمی ہے۔
پنجاب حکومت نے تو وائس چانسلر کی اضافی چارج پالیسی کو ایسا عام کر دیا ہے جیسے حکومت مفت میں "خیرات" بانٹ رہی ہو۔ یو ای ٹی لاہور کے وائس چانسلر کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، میر چاکر خان یونیورسٹی ڈی جی خان کا اضافی چارج دے دیا گیا، جیسے تعلیمی ادارے نہ ہوئے، دودھ کی وہ بالٹی ہوگئی جسے ایک کے بعد دوسرا شخص چمچ مار کر کھینچ رہا ہو۔
یہ "اضافی چارج" دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وائس چانسلر کو کسی یونیورسٹی کا بیڑا غرق کرنے کا موقع نہ ملے، تو حکومت اسے بونس میں دو تین مزید یونیورسٹیاں بھی تباہ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے، تاکہ اگر کسی ایک تعلیمی ادارے میں بحران نہ پیدا کر سکا تو دوسرے میں ضرور کامیاب ہو جائے۔
بی زیڈ یو: یونیورسٹی یا کرپشن پریمیئر لیگ؟
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا حال ایسا ہو چکا ہے جیسے کوئی پرانی لاری، جس میں ہر شخص مفت کی سواری کے چکر میں داخل ہو رہا ہے اور کنڈکٹر پیچھے کھڑا قہقہے لگا رہا ہے۔ یہاں کے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال نے اپنی "دانشمندی" کا ایسا مظاہرہ کیا کہ یونیورسٹی کے بجٹ سے ایک نجی لگژری گالف کلب کی ممبرشپ لینے کی کوشش کی۔ جی ہاں، آپ نے بالکل صحیح پڑھا! لگتا ہے کہ تعلیم اور تحقیق سے زیادہ انہیں گالف کھیلنے کی فکر ہے، کیونکہ یونیورسٹی میں تو طالبعلم کے لیے کرسی میسر نہیں، مگر وی سی صاحب کے لیے گالف کلب میں نرم و گداز گھاس پر چہل قدمی بہت ضروری ہے۔
ویسے بھی، اگر آپ کے پاس یونیورسٹی کا خزانہ ہو اور "تعلیم" کے نام پر مزے لوٹنے کا موقع مل رہا ہو، تو کون بیوقوف ہوگا جو صرف کتابوں اور لیبارٹریز میں پیسہ خرچ کرے گا؟ سینڈیکیٹ اجلاس میں جب یہ معاملہ سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا، جس کے بعد فوری طور پر یہ منصوبہ مؤخر کر دیا گیا، ورنہ یقین مانیں، اگلے بجٹ میں وی سی کے لیے نجی جزیرے خریدنے کی منظوری بھی شامل ہو سکتی تھی!
ہراسانی کے کیسز: "می ٹو" نہیں، "شٹ اپ"
بی زیڈ یو اور دیگر سرکاری جامعات میں جنسی ہراسانی کے کیسز کی صورتحال ایسی ہو چکی ہے جیسے کوئی چور دن دہاڑے کسی کا بٹوہ چھین کر بھاگ جائے اور تھانے میں جا کر خود شکایت درج کروا دے کہ "مجھے غلط سمجھا جا رہا ہے"۔
بی زیڈ یو میں اردو ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ رومیسا بتول نے ہراسانی کی شکایت درج کرائی، مگر معاملہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ ویسے بھی، یہاں اصول یہی ہے کہ جو شکایت کرے، اس کے کردار پر سوال اٹھاؤ اور جو مجرم ہو، اسے "باعزت بری" کرکے نئے مواقع فراہم کرو۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مالی بحران، کرپشن اور بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سابق وی سی ڈاکٹر محبوب اظہر اور دیگر بدعنوان عہدیدار مزے سے آزاد گھوم رہے ہیں، انکوائریاں محض کاغذی کارروائیوں میں دب گئی ہیں اور جو طلبہ و اساتذہ سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں چپ کروا دیا جاتا ہے۔
نجی تعلیمی مافیا: چمک، دھمک اور غریبوں کی جیب کٹ
نجی یونیورسٹیوں نے تعلیم کو ایسا "پراڈکٹ" بنا دیا ہے جیسے کوئی مہنگا برانڈ ہو، جسے صرف وہی خرید سکتا ہے جس کے پاس موٹی رقم ہو۔ بی زیڈ یو کا فاصلاتی تعلیم پروگرام 2019 میں بند کروا دیا گیا، کیونکہ یہ پروگرام چلنے کی وجہ سے کئی نجی تعلیمی ادارے بند ہونے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جیسے ہی اس پروگرام پر تالہ لگا، نجی یونیورسٹیوں نے کھربوں روپے کمائے اور غریب طلبہ کو بےیار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔
اب جو نوجوان تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں دو ہی آپشن دیے جا رہے ہیں:
یا تو والدین کی جمع پونجی، زیورات اور زمینیں بیچ کر پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ لو
یا پھر کسی غیرملکی فیکٹری میں مزدوری کرو اور خواب دیکھو کہ پاکستان میں کبھی معیاری اور سستی تعلیم ملے گی
آگے کیا ہوگا؟
اگر یہی صورتحال رہی، تو آنے والے سالوں میں سرکاری یونیورسٹیاں یا تو مکمل طور پر "اضافی چارج" کے تحت کسی بیوروکریٹ کے حوالے کر دی جائیں گی، یا پھر انہیں نجکاری کی نظر کر دیا جائے گا، تاکہ تعلیم مکمل طور پر سرمایہ داروں کے شکنجے میں آجائے۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی اس نجی مافیا کے اثرات کا شکار ہو چکا ہے، جہاں کئی نجی یونیورسٹیوں کے جعلی ڈگری کورسز کو "قانونی" کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر حیرانی نہیں ہوتی، کیونکہ جو حکومتیں پٹرول، بجلی، گیس، آٹا اور دوائی کو عوام کی پہنچ سے باہر کر چکی ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تعلیم کو "فلاحی حق" کے طور پر تسلیم کریں گی، بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی جلاد سے امید لگائی جائے کہ وہ قیدی کو گلے لگا کر آزاد کر دے گا۔
کیا کریں؟
اب دو ہی راستے ہیں: یا تو عوام اس سرکاری تعلیمی ڈھانچے کی تباہی کے خلاف کھڑے ہوں، یا پھر خاموشی اختیار کریں اور دیکھیں کہ کیسے چند سرمایہ دار اور سیاستدان ان کے بچوں کے مستقبل کو بیچ کھاتے ہیں۔
کیا تعلیم اب صرف وہی حاصل کرے گا جس کی جیب میں بھاری فیس ہو؟ کیا سرکاری یونیورسٹیاں یونہی برباد ہوتی رہیں گی؟ یا پھر عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ تعلیم کسی کی جاگیر نہیں، بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے؟ اگر آج آواز نہ اٹھائی گئی، تو کل تعلیم صرف ان کے لیے ہوگی جن کے بینک اکاؤنٹس بھرے ہوئے ہوں گے اور باقی سب بس خواب دیکھتے رہ جائیں گے۔