Siasi Jamaten Aur Misogynist Rawaiye
سیاسی جماعتیں اور مساجنسٹ رویے
پی ٹی آئی ملتان کی نوجوان خاتون راحیلہ اعظم عرف ردا چودھری کی درخواست پر پی ٹی آئی جنوبی پنجاب ویمن ونگ کی صدر قربان فاطمہ، ان کے شوہر اسلم فاروق، احسان احمد پر ان کی تصاویر، حساس معلومات فحش مواد کے ساتھ شئیر کرنے کے الزام میں ایف آئی نے پیکا ایکٹ 2016ء کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ احسان احمد کو گرفتار کرلیا جس کے فون کے فرانزاک کرنے پر مدعیہ کے الزام کی تصدیق ہوئی ہے۔ مدعیہ کا کہنا کہ اسے بلیک میل کیا جاتا رہا اور ہراساں کیا جاتا رہا۔
راحیلہ اعظم پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن اور سوشل میڈیا پر سماجی رابطے کی معروف ایپس پر ردا چودھری کے نام سے پی ٹی آئی کی حمایت میں خاصی سرگرم رہی ہیں۔ وہ کئی بار احتجاجی مظاہروں میں گرفتار ہوئیں اور ان کی طرف سے ملتان پولیس پر انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات کی ویڈیو بھی وائرل ہوئیں۔
قربان فاطمہ جو کبھی مسلم لیگ نواز کے ویمن ونگ کی عہدے دار اور سرگرم رہنما شمار ہوا کرتی تھیں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور وہ چیئرپرسن یونین کونسل بھی منتخب ہوئیں۔ اس وقت وہ پی ٹی آئی جنونی پنجاب کی ویمن ونگ کی سربراہ ہیں۔ ان کے شوہر اسلم فاروق معروف کنٹریکٹر اور وہ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہیں جبکہ احسان احمد بھی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں۔
راحیلہ اعظم عرف ردا چودھری نے ایف آئی اے حکام کو بتایا کہ اس کی تصاویر اور حساس مواد پی ٹی آئی ویمن ونگ جنوبی پنجاب کی صدر قربان فاطمہ کے فون سے ان کے شوہر اسلم فاروق کے پاس ٹرانسفر ہوا اور اسلم فاروق کے فون سے وہ احسان احمد کے فون پر ٹرانسفر ہوا اور وہاں سے یہ مواد دوسری جگہوں پر ٹرانسفر ہوتا رہا جبکہ اسے قربان فاطمہ، ان کا شوہر اسلم فاروق اور احسان احمد بلیک میل کرتے رہے اور اسے ہراساں کیا جاتا رہا۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی قربان فاطمہ اور ان کے شوہر پر سرکاری ٹھیکوں، آٹا سکیم، احساس پروگرام کو لیکر بدعنوانی کے الزامات میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہے جبکہ زیر زمین ان کے بارے میں خواتین سے بلیک میلنگ کی افواہیں اور الزامات بھی گردش کرتے رہے لیکن کوئی متاثرہ ان کے خلاف کبھی منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پی ٹی آئی ملتان کی ایک معروف نوجوان خاتون کارکن سائبر بلیک میلنگ اور ہراسانی کے الزامات کے ساتھ متاثرہ مدعیہ بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے صدر پی ٹی آئی ویمن ونگ جنوبی پنجاب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
اس اسکینڈل نے پی ٹی آئی ملتان کی ساکھ کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
مقدمے کی مدعیہ راحیلہ اعظم کا کہنا ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما اور امیدوار قومی اسمبلی صاحبزادی شاہ محمود قریشی مہر بانو قریشی کو اس بلیک میلنگ اور ہراسانی بارے آگاہ کیا تھا لیکن انھوں نے بھی ان کی کوئی مدد نہ کی۔
پی ٹی آئی ملتان کی معروف نوجوان خاتون سیاسی کارکن سے سائبر بلیک میلنگ و جنسی ہراسانی کے اس واقعے نے پی ٹی آئی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پی ٹی آئی کی کسی خاتون کارکن /رہنماء سے جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے درجنوں واقعات میڈیا اور سوشل میڈیا میں سامنے آئے اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے دعوا کیا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اس نے مرکز تا صوبائی و مقامی سطح پر کیمیٹاں قائم کی ہیں جو ایسے واقعات کے سامنے آنے پر سخت ایکشن لیں گی لیکن ان کمیٹیوں کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔
سیاسی جماعتوں کے اندر خواتین سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ سائبر بلیک میلنگ و جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
لاہور اور اسلام آباد اور ملتان سے تعلق رکھنے والی پی پی پی کی نے بعض خواتین نے الزام عائد کیا تھا کہ انھیں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے عوض جسمانی تعلقات کی پیشکش کی گئی اور اس طرح کی شکایات کو بعد ازاں دبا دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے پی پی پی سنٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب اور اس کے ذیلی ونگز بشمول پی پی پی ڈیجیٹل میڈیا ونگ اور بلاول بھٹو کے پرسنل اسٹاف میں سے بھی کچھ لوگوں کے نام سامنے آئے تھے۔
ملتان میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی خاندان کے نوجوان اراکین قومی اسمبلی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے بعض افراد پر بھی سائبر بلیک میلنگ اسٹف کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کو زرعی فارمز پر منعقدہ پارٹیوں میں شریک ہونے پر مجبور کیے جانے کی خبریں عام ہوئی تھیں۔
روزنامہ قوم ملتان نے خبروں کی ایک سیریز میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی، پی پی پی کے بااثر سیاسی خاندان کے نوجوان سیاست دانوں کے کے قریب ایک شخص کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ زرعی فارمز پر ڈانس و شراب و کباب کی محافل میں شریک ہونے والے سرکاری افسران، تاجران، صعنتکاروں اور زمینداروں کا بلیک میلنگ اسٹف تیار کرتے اور پھر ان لوگوں کو بلیک میل کرنے کے دھندے میں ملوث تھے۔
جینڈر اسٹڈیز کے ماہرین اور انسانی حقوق کی ممتاز سرگرم خواتین رضاکاروں کا کہنا ہے کہ کم و بیش تمام معروف سیاسی جماعتوں میں کام کرنے اور سرگرم رہنے والی خواتین کو جنسی ہراسانی، بلیک میلنگ اور ان کی پرائیویسی کو افشا کرنے کے واقعات عام ہیں اور کسی سیاسی جماعت نے اس عمل کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے ہیں اور اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ رائٹس کے لیے کام کرنے والی معروف ایکٹوسٹ نگہت داد نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی جانب سے حریف سیاسی جماعتوں کی خواتین کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، مساجنسٹ /عورت مخالف حملے معمول بن گئے ہیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا اس الزام سے مبرا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں بھی سیاسی جماعتوں کی خواتین پر مساجنسٹ حملے معمول بن چکے ہیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی مساجنسٹ کمپئن سے خواتین صحافی، اینکرز، انسانی حقوق کی کارکن تک محفوظ نہیں ہیں۔
انھوں نے حال ہی میں چیف مسٹر پنجاب مریم نواز شریف کے صدر یو اے ای سے مصافحہ کے ویڈیو کلپ کو لیکر سوشل میڈیا پر چلنے والی مساجنسٹ اور اینٹی ویمن کمپئن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا ونگز نے اس ویڈیو پر انتہائی شرمناک فحش جملے اور سب ٹائٹل تحریر کرکے وائرل کیے اور اس جماعت کی قیادت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے حامی سوشل میڈیا ونگ نے پی ٹی آئی کی خواتین کے خلاف مساجنسٹ مہم چلا رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خود خاتون چیف منسٹر پنجاب مریم نواز کا رویہ اور بیانات بھی مساجنسٹ رجحان کو تقویت دیتا نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی و سینٹ میں سیاسی جماعتوں کے کئی مرد اراکین کا طرہ امتیاز ہی مساجنسٹ سیاست کرنا ہوگیا ہے۔ اس رویے اور رجحان نے خواتین کے ساتھ بلیک میلنگ، ہراسانی کے واقعات میں اضافہ کیا ہے اور کوئی اسے اخلاقی گراوٹ بھی خیال نہیں کرتا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مساجنسٹ اور اینٹی ویمن ہونے کا الزام دیتی ہیں لیکن خود احتسابی کے عمل سے خود کو مبرا سمجھتی ہیں۔