Roshan Khayali Aur Hamare Bache
روشن خیالی اور ہمارے بچے

میرے گھر میں کل ملا کر 8 بچے ہیں۔ یہ سب اسکول جاتے ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹا احمد رضا میرے بھائی محمد شاہد کا بیٹا ہے جو اب سات سال کا ہے اور لیول ون میں ہے۔ پھر اس سے بڑا میرا بیٹا ہے محمد حاذق جو آج دس سال کا ہوگیا ہے اور وہ لیول تھری میں ہے۔ پھر شاہد کا دوسرا بیٹا محمد حنظلہ ہے جو 9 سال کا ہے یہ لیول فور میں ہے۔ چوتھے نمبر پر میرے بھائی محمد طاہر کا بیٹا محمد مدنی ہے جس کی عمر دس سال ہے اور یہ لیول 5 میں ہے۔ اس کے بعد طاہر کا 11 سالہ بیٹا محمد زین العابدین ہے جو لیول 6 میں ہے۔ پھر شاہد کا بیٹا محمد علی ہے جو 12 سال کا ہے اور یہ لیول 7 میں ہے۔ اس کے بعد میرا دوسرا بیٹا عاشور حسین ہے جو اس وقت 14 سال کا ہے اور یہ لیول 8 میں ہے اور پھر میرا سب سے بڑا بیٹا شاویز تقی ہے جو اس وقت 15 سال کا ہے اور یہ لیول 10 میں ہے۔
میرے تینوں بیٹے ایک درمیانے درجے کے پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول سسٹم جو بریٹن اسکول سسٹم کہلاتا ہے کی ایک برانچ میں پڑھتے ہیں۔ جبکہ میرے دونوں بھائیوں کے بیٹے ایک اور انگلش میڈیم اسکول سسٹم کی برانچ میں پڑھ رہے ہیں۔
میرے تین بیٹے اور 5 بھتیجے اکثر و بیشتر اپنی سوشل اسٹڈیز، اسلامیات، انگلش اور پاکستان اسٹدیز کی نصابی کتب پڑھنے میرے پاس آجاتے ہیں اور ان سے میرا انٹریکشن رہتا ہے۔ میں جب ان سے ان کے کلاس فیلوز کے بارے میں بات کرتا ہوں تو ایک بات مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔ یہ اتنی سی عمر میں اپنے کلاس فیلوز اور اپنے دوستوں کی دو شناختوں پر بات کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے رویے بہت منفی تو نہیں ہیں لیکن انھیں میں مکمل مثبت رویے بھی نہیں کہہ سکتا۔
میرے سب سے چھوٹے بیٹے سے لیکر دیگر دو بیٹوں اور باقی کے 5 بھتیجوں تک ان سے جب بھی میری ان کے کلاس فیلوز اور دوستوں کے بارے میں بات ہوئی تو انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فلاں سنی ہے، بریلوی ہے، دیوبندی ہے یا اہلحدیث ہے لیکن یہ اپنے کچھ دوستوں کے بارے میں یہ کہہ کر بات کرتے ہیں کہ وہ شیعہ ہے، وہ کرسچن ہے۔ میرا بڑا بیٹا جو بچوں میں سب سے بڑا ہے اور اب وہ اپنی نفسیاتی اور عقلی بلوغت کے اہم ترین مرحلے میں ہے وہ ایک سے زیادہ بار مجھ سے یہ سوال کرچکا ہے کہ کیا شیعہ مسلمان نہیں ہوتے؟ میں اس کی جانب سے یہ سوال سن کر چونک گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ ایسا سوال کس بنیاد پر کر رہا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا دوست ش جو اس کا کلاس فیلو ہے یہ بات کر رہا تھا؟
ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا کہ شیعہ کیا صحابہ کرام کو نہیں مانتے؟ میں نے اسے کریدا تو پتا چلا کہ اس سے یہ بات اس سے سینئر کلاس کے ایک طالب علم نے کی اس وقت جب وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم میں کھیل رہے تھے اور میرے بیٹے کا ایک کلاس فیلو بھی اس ٹیم میں ہے جس کے والد میرے بہت اچھے دوست ہیں اور وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ میرا بیٹا ایک دن اپنے اس دوست کے گھر گیا۔ اتفاق سے وہ رجب کے مہینے میں کونڈوں کا دن تھا اور وہاں اس نے ان کے گھر نیاز کھائی اور اور اس کی اپنے کلاس فیلو کے والد سے ملاقات ہوئی۔ جب والد کو میرا پتا چلا تو وہ اس کے ساتھ اور زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ مجھے سلام کہلا بھیجا۔ میرے حق میں تعریفی جملے بھی کہے۔ میرے بیٹے نے اگلے روز اس سنئیر لڑکے کو یہ بات بتائی تو وہ سینئر لڑکا میرے بیٹے کو کہنے لگا کہ شیعہ ہے، کیا تمہیں اسکے نام سے پتا نہیں چلا؟ اور شیعہ مسلمان نہیں ہوتے ان کے گھر کھانا پینا جائز نہیں ہے۔ میرے بیٹے نے یہ بات مجھے بتائی اور میں اس کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔
میرا چھوٹا بیٹا جب لیول 5 میں تھا تو ایک دن وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ شیعہ کون ہوتے ہیں؟ اور کیا ہم شیعہ ہیں؟ میں حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ وہ یہ سوال کیوں کر رہا ہے؟ اس نے بتایا کہ ان کی انگریزی کی مس اس کا نام سن کر اس سے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ شیعہ ہیں؟
میں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اول تو ناموں سے کسی کی مذھبی شناخت کا تعین فضول ہے۔ دوسرا اس مس کا تمہاری عمر کے بچے سے یہ سوال کرنا بھی انتہائی بری بات ہے۔
میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہم سب انسان ہیں اور بطور انسان ہم سب کا ایک دوسرے کا احترام لازم ہے۔ جنس، رنگ، نسل، ذات پات، برادری، زبان اور مذھب۔ جیسی شناختوں کو لیکر کی کسی کے لئے اچھائی اور برائی کا تعین کرنا انتہائی غلط بات ہے اور یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بیماریاں ہیں۔ تمہارے پاس ابھی بہت وقت ہے تم خود جب اس طرح کے سوالوں کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کے قابل ہوں گے تو خود فیصلہ کرلیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے ملک کے جو بانی تھے وہ شیعہ تھے اور پہلے وزیر اعظم سنی تھے۔ وزیر قانون ایک دلت تھے جنھیں ہندوں کی تین بڑی جاتی کے متعصب لوگ ناپاک اور اور انتہائی کمتر سمجھتے تھے۔
میں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو پاکستان اسٹڈیز پڑھاتے ہوئے ایک جگہ جہاں یہ لکھا ہوا تھا کہ پاکستان اس لیے بناکہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہوتی اور اس اکثریت کے ہوتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو شدید خطرات لاحق تھے بتایا کہ یہ جواب امتحانی پرچے میں لکھنا تو مجبوری ہے لیکن یہ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہندوستان میں آج بھی مسلمان پاکستان سے زیادہ ہیں اور وہاں مساجد اور دینی مدارس اور مزارات بھی پاکستان سے زیادہ ہیں۔ اگر اس بات میں کوئی صداقت ہوتی تو ہندوستان میں یہاں سے زیادہ مسلمان کیوں ہوتے؟
میرے بیٹے اور بھتیجے جب بھی جمعہ کی نماز پڑھنے قریب کی جامع مسجد میں جاتے تو وہاں خطیب کی تقریر سن کر کچھ سوالات مجھ سے کرتے؟ انھوں نے مسجد میں پہلی بار یہ سنا کہ دیوبندی اور وہابی "گستاخ رسول" اور شیعہ "گستاخ صحابہ" ہوتے ہیں۔ انہوں نے گھر آکر مجھ سے پوچھا کہ گستاخ کون ہوتا ہے؟
میں ان کے یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ ایک طرف اسکول میں یہ ابھی سے اپنے ہم عمر کلاس فیلوز کو ان کی مذھبی اور نسلی شناخت کے ساتھ پروفائلنگ کے راستے پر چل رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری کے خطیب انھیں اس نفرت انگیز پروفائلنگ کے ساتھ شناختوں کا درس دے رہے ہیں۔
گھر میں اور خاندان و کنبے کے دیگر گھروں میں انھیں سننے کو ملتا ہے کہ محرم میں کالے رنگ کے کپڑے نہیں پہننے چاہیں۔ اس محرم میں، میں نے اپنی بھابی کو ڈانٹا جو میرے ایکشن بھتیجے کو کالے رنگ کی شلوار قمیض پہننے سے منع کر رہی تھی۔ میرے اس بھتیجے کو کالے رنگ کا لباس بہت پسند ہے۔ اسے کہا گیا کہ محرم میں یہ لباس شیعہ پہنتے ہیں۔
ہمارے بچوں کو جو سوشل اسٹڈیز کے نام پر نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ انھیں روشن خیال، عقلیت پسند بنانے کی بجائے منفی مذھبی شناخت اور منفی سماجیت پڑھاتا اور سکھاتا ہے
وہ سائنس کے نام پر فزکس، کیمسٹری، ریاضی، بائیولوجی اور کمپیوٹر سائنس کے مضامین پڑھتے تو ہیں لیکن یہ مضامین ان میں عقلیت پسندی اور روشن خیالی کو پروان نہیں چڑھاتے۔ بلکہ ان کو بتایا جاتا ہے کہ جدید سائنسی علوم مسلمانوں کی دین ہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ خود عرب مسلمانوں میں سائنس اور فلسفہ یونانی علوم کی دین تھا اور اس طرح سے سائنسی علوم ہوں یا سماجی علوم یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں۔
میں چاہتا تھا کہ جو لوگ اور نصاب ان بچوں میں فرقہ واریت کا زہر گھول رہے ہیں میرے بچے ان سے یہ پوچھیں کہ وہ مذھب کا جو تنگ نظر اور انتہائی نفرت انگیز چہرہ اصلی اسلام بناکر ان کے سامنے پیش کرتے ہیں ان سے وہ یہ سوال کریں کہ کیا مسلم فلسفیوں، سماجی علوم کے ماہرین، سائنس دانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا تھا جو ان کے پیش کردہ قدامت پرست اور تنگ نظر مذھبی عقائد کا حامل ہو؟
میں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو ایک ہفتے مسلسل ہر روز ایک سے دو گھنٹے بیٹھ کر بڑی تفصیل سے یہ بتایا کہ قرون وسطی کے مسلم فلسفیوں اور سائنس دانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے ہم تنگ نظر اور قدامت پرست معنوں میں سنی قرار دے سکیں۔ علم کیمیا کا بانی جابر بن حیان ہو، یا علم الابصار کا بانی ابن الہثیم ہو یا دوران خون کو دریافت کرنے والا ابن نفیس ہو یا مسلم دنیا میں علم الفلکیات کی بنیاد رکھنے والا اور مسلم سلطنت میں پہلی رصدگاہ بنانے والا نصیر الدین طوسی ہو یہ سب کے سب عرف عام میں اثنا عشری کہلانے والے فرقہ شیعہ سے تعلق رکھتے تھے۔
مسلم سلطنت میں فلسفے کی بنیاد رکھنے والوں میں ابن سینا ہو یا ابن رشد ہو یا مسلم سماج میں علم شہریت اور عمرانیات کی بنیادیں رکھنے والا فارابی ہو یا ابن خلدون ہو یہ نہ سنی تھے نہ شیعہ تھے۔ ایسے ہی علم کیمیا اور علم حیاتیات اور نباتات میں جدید سائنس کی تعمیر کا راستا کھولنے والا اور نظریہ ارتقاء پہ پہلے بنیادی اسباق لکھنے والا ابوبکر الرازی ہو وہ تو عقائد کے باب میں ایسے خیالات کا مالک تھا کہ اس کے زمانے کے بڑے بڑے علماء کیا شیعہ، کیا سنی کوئی اسے مسلمان ہی نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن مسلم سائنس دانوں میں اس کا نام بڑے فخر سے لیا جاتا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ مسلمانوں میں واحد نوبل انعام جس پاکستانی سائنسدان کو ملا وہ اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جسے پاکستانی ریاست نے آئینی طور پر غیرمسلم قرار دے رکھا ہے۔
وہ یہ ساری تفصیل سن کر بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اگر عقیدے کی بنیاد پر ہم مسلم فلسفی، ماہرین سماجی علوم، طبعیات دان، کیمیا دان، ریاضی دان، ماہر تاریخ نام کا کوئی شخص قرون وسطی میں تلاش کرنے جائیں گے تو جسے ہم مسلم فلسفہ، مسلم سائنس کہتے ہیں اس نام کی کوئی چیز نہیں ملے گی۔ کیونکہ ایک فلسفی اور سائنس دان بھی ایسا ہمیں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا جسے ہم آج کے مولوی ہی نہیں بلکہ دوسری اور تیسری صدی ھجری کے ان تمام بڑے مفسرین، محدثین، ماہرین علم کلام اور فقہاء چاہے وہ سنی اسلام سے ہوں یا شیعہ اسلام سے ہوں کے مطابق مسلمان قرار دے سکیں۔ سارے فلسفی اور سائنس دان اس تعریف کے مطابق تو دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے۔
میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ قرون وسطی کے مسلم فلسفیوں اور سائنس دانوں کو تو جانے ہی دو۔ ایک زمانہ تھا جب سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور خود قائد اعظم محمد علی جناح پر سب مولویوں نے کفر کے فتوے دیے تھے۔ آج بھی قدامت پرست مولوی سرسید کے مذھبی نظریات کو کفر قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے شعر پڑھنے والے مولوی کے سامنے ان کے خطبات Reconstruction of religious thoughts in Islam کا کوئی ایک خطبہ رکھ دو وہ اسے فوری کفر قرار دے ڈالے گا۔ علامہ اقبال نے جب نظم شکوہ لکھی تو ہندوستان بھر کے مولویوں نے ان پر کفر کا فتوی جڑ دیا تھا۔
میں نے اسے علامہ اقبال کی شاعری سے جبریل اور ابلیس کا باہمی مکالمہ پڑھ کر سنایا اور ان اشعار کے مطالب پڑھائے تو وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہ گیا۔
مجھے اندازہ ہے کہ میرے بیٹے کو میری اس ساری تقریر کا کما حقہ علم نہیں ہوسکا ہوگا لیکن اسے یہ بات ضرور سمجھ میں آگئی ہوگی کہ فلسفہ و سائنس کا کوئی تعلق عقیدے سے نہیں ہے۔ یہ تنگ نظر فرقہ واریت اور مسلکی گروہ بندی سے بہت آگے کے علوم ہیں۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ ان کے نصاب میں فلسفہ بطور لازمی مضمون کے کیوں شامل نہیں ہے؟ جب میں نے اسے بتایا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فلسفہ ہائی کلاسز سے لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اسے "صوفی کی دنیا" کے کچھ صفحات پڑھ کر سنائے جو اس کے سر کے اوپر سے گزر گئے۔ جو ایک استاد نے لیول 7 سے 10 کے طلباء کو فلسفہ کہانی اور ناول کے راستے سے سمجھانے کے لیے لکھی تھی۔ ہمارے پی ایچ ڈی اسکالرز تک کو وہ کتاب بہت مشکل لگتی ہے۔
لیول 5 تا 10 کے بچوں کو دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی کہانیوں کی ایسی کتاب نہیں ہے جو انھیں فلسفے، سائنس اور تہذیب کے ارتقاء کی کہانی کے ابتدائی اسباق اور دنیا بھر کے روشن دماغوں کی کہانی بتاسکے۔ جبکہ ان کے ذہنوں میں نفرت انگیزی اور انسانوں کو مختلف شناختوں میں تقسیم کرکے نفرت کے اسباق پڑھانے کا مواد بہت میسر ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ میری نسل کے لوگوں کو بھی اسکول، مسجد، گھر، اخبار اور نصابی کتب فرقہ وارانہ نفرت اور منفی شناخت کا شعور دیتی تھیں لیکن کالج اور یونیورسٹی تک جاتے جاتے ہمیں غیر روایتی طریقے سے ایسا لٹریچر میسر آتا اور ایسے اساتذہ مل جاتے تھے جو نفرت کی ان دیواروں کو گرانے کا ہمیں موقعہ فراہم کردیتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ روشن خیالی کی طرف قدم بڑھاتے تھے۔ لیکن آج کی نسل کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ ہماری تعلیمی درسگاہوں اور نصاب کمیٹیوں پر فرقہ پرستوں کا قبضہ ہے۔
ہمارے کمپوزٹ کلچر سے جنم لینے والے مشترکہ تیوہار فرقہ پرستوں کی ملکیت بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو روشن خیالی کے منبع اور سرچشمہ کی طرف خود رہنمائی کرنا ہوگی۔ اپنے بچوں کو فلسفہ، سائنس اور جدید سماجی علوم کی الف بے پڑھانی ہوگی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے صرف فرقہ پرستوں کے لیے امکانات کی دنیا پیدا نہیں کی ہے یہ روشن خیالی کے علمبرداروں کے لیے بھی امکانات سے بھرپور میدان ہے اور ہمیں آئی ٹی کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ قرون وسطی کی تاریخ صرف فرقہ پرستی کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس میں عقلیت پسندی اور روشن خیالی کی بھی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں ان پر بات کرنا ہوگی۔

