Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Riyasti Wahdat Ki Taqdees Aur Qaumi Sawal

Riyasti Wahdat Ki Taqdees Aur Qaumi Sawal

ریاستی وحدت کی تقدیس اور قومی سوال

مزدور کسان پارٹی پاکستان کے بانی اور نظریہ ساز میجر محمد اسحاق نے اپنے کتابچے "پنجاب کا المیہ" میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حقِ خودارادیت کی جدوجہد نسلی اور لسانی منافرت کے ذریعے کامیاب نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ اس جدوجہد کی قیادت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں سے چھین لے اور اسے پورے پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کے طفیل بارآور بنایا جائے۔ اس موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میجر اسحاق اور ان کی قیادت میں کام کرنے والی مزدور کسان پارٹی کے نزدیک قومی سوال کو سرمایہ دارانہ ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تاہم یہ نقطۂ نظر مارکس اور لینن کے قومی سوال سے متعلق بنیادی اصولوں سے واضح انحراف پر مبنی تھا۔

کارل مارکس کے نزدیک آئرلینڈ کی قومی تحریک ایک عوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکی تھی، جس میں صرف آئرش قوم کی اشرافیہ ہی نہیں بلکہ عوامی پرتیں، بشمول محنت کش طبقہ، شامل تھیں۔ اگرچہ اس تحریک کی قیادت آئرش بورژوازی، زمیندار اشرافیہ اور پیٹی بورژوازی کے ہاتھ میں تھی اور محنت کش طبقہ اس کی قیادت میں نہیں تھا، اس کے باوجود مارکس برطانوی محنت کش طبقے اور ان کی تنظیموں پر زور دے رہا تھا کہ وہ آئرش قومی تحریک کی غیر مشروط حمایت کریں۔ اسی طرح لینن بھی قومی سوال کو بنیادی طور پر ایک جمہوری سیاسی سوال قرار دیتا تھا جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اندر حل ہو سکتا ہے، اگرچہ اس حل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی ریاست ایک بورژوا ریاست ہی ہوگی اور محنت کش طبقے کی حتمی نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی، تاہم وہ پوری قوم کو، بشمول محنت کش طبقے، قومی جبر، استبداد اور غلامی سے نجات دلانے کا ذریعہ ضرور بنے گی۔

لینن نے قومی سوال پر کمیونسٹوں کی حکمتِ عملی نہایت وضاحت سے بیان کی۔ اس کے مطابق کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہر قسم کے قومی جبر، ظلم اور استبداد کی مخالفت کریں، مظلوم اقوام کے حقِ خودارادیت بشمول حقِ علیحدگی کی حمایت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ظالم قوم کے محنت کشوں اور مظلوم قوم کے محنت کشوں کے درمیان ہر قسم کی نسلی اور لسانی نفرت اور تعصب کے خلاف جدوجہد کریں۔ یہی وہ راستہ تھا جس کے ذریعے محنت کش طبقے کی بین الاقوامی یکجہتی اور انقلابی شعور کی تعمیر ممکن تھی۔

اس نظریاتی فریم ورک کی روشنی میں دیکھا جائے تو میجر اسحاق نے "پنجاب کا المیہ" اور "مشرقی پاکستان کا المیہ" میں کسی مقام پر بھی یہ بات واضح طور پر تسلیم نہیں کی کہ متحدہ پاکستان میں بنگالی قوم مغربی پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاستی فوجی و سول نوکر شاہی کی جانب سے منظم قومی جبر، استبداد اور استحصال کا شکار تھی۔ وہ بنگالی قوم کی جدوجہد کو ایک عوامی قومی تحریک کے طور پر تسلیم کرنے سے قاصر رہے، حالانکہ یہ تحریک اسی قومی جبر اور استبداد سے نجات کے لیے برپا ہوئی تھی۔

مارکس اور لینن کے افکار کی روشنی میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی بھی کمیونسٹ قوت کا اصولی فریضہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ بنگالی قومی تحریک کو مغربی پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاستی مشینری کے قومی جبر کے خلاف ایک جائز عوامی قومی تحریک تسلیم کرتی، اس کی کھل کر حمایت کرتی، مغربی پاکستان کے محنت کش طبقے کو بنگالی قوم پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی دعوت دیتی اور بنگالی قوم کے حقِ خودارادیت بشمول حقِ علیحدگی کی غیر مشروط حمایت کرتی۔ اس کے بغیر نہ تو مشرقی اور مغربی پاکستان کے محنت کشوں کے درمیان حقیقی جڑت ممکن تھی اور نہ ہی طبقاتی یکجہتی کی تعمیر ہو سکتی تھی۔

میجر اسحاق دونوں کتابچوں میں 1971ء کی جنگ کے محض سولہ دن میں خاتمے پر شدید تنقید کرتے ہیں اور اسے روسی سوشل سامراج اور امریکی سرمایہ دار بلاک کی غلامی سے تعبیر کرتے ہیں، مگر وہ کہیں بھی صاف اور واضح انداز میں بنگالی قوم کے حقِ خودارادیت اور حقِ علیحدگی کی حمایت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ 1970ء کے بعد ابھرنے والی بنگالی قومی تحریک اور 1971ء کی علیحدگی کی جدوجہد کو بنگالی عوام کی قومی جدوجہد تسلیم کرنے کے بجائے روسی سوشل سامراج، بھارت اور امریکی سرمایہ دار بلاک کی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس سازشی تعبیر کی بنیاد یہ تھی کہ اس تحریک کی قیادت عوامی لیگ کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے ہاتھ میں تھی، جس کی نمائندگی شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے، جنہیں میجر اسحاق روسی سوشل سامراج اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔

میجر اسحاق کے نزدیک حقِ خودارادیت کی وہی جدوجہد حمایت کے قابل تھی جس کی قیادت براہِ راست محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہو، حالانکہ وہ خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مشرقی بنگال میں صنعتی پرولتاریہ عددی اعتبار سے کمزور اور انقلابی شعور سے محروم تھا، کسان پرولتاریہ کی بھی صرف محدود پرت انقلابی شعور رکھتی تھی اور کمیونسٹ پارٹی (کامریڈ مظفر احمد اور مونی سنگھ کی قیادت میں) اس تحریک پر فیصلہ کن کنٹرول نہیں رکھتی تھی۔

ان کے نکتے نظر سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ متحدہ پاکستان کے بائیں بازو کو متحدہ پاکستان جو ان کی نظر میں حقیقی خودارادیت سے محروم تھا محنت کش طبقے کو انقلابی طبقاتی شعور سے مسلح کرکے انھیں متحدہ پاکستان کو حقیقی حق خودارادیت کی تحریک چلانے کے لیے تیار کرنا چاہیے تھا ناکہ مشرقی بنگال کی مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے قومی ظلم و جبر و استبداد سے نجات کی تحریک کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو پھر کارل مارکس کو آئرش قوم کی تحریک آزادی کی، سوشل ڈیموکریٹک لبیر پارٹی رشیا اور اس کے لیڈر کی فن لینڈ، پولینڈ جیسی اقوام کے حق خودارادیت بشمول حق علیحدگی کی قومی تحریکوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ ان تحریکوں کی قیادت بھی ان اقوام کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے ہاتھوں میں تھی۔ لینن کو زار شاہی روسی سلطنت میں روسی قوم کے علاوہ دیگر اقوام کی شناخت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔

اس کے باوجود وہ نہ تو نکسل باڑی تحریک کے اثرات کا کوئی سنجیدہ تجزیہ پیش کرتے ہیں اور نہ ہی پوربا بنگلار سربہارا پارٹی یا اس کے اہم نظریہ ساز سراج سکندر کے قومی سوال اور طبقاتی ساخت پر تھیسز کا ذکر کرتے ہیں۔

یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ میجر اسحاق نے مشرقی بنگال کے انقلابی حلقوں کے اس مؤقف کو نظر انداز کیا جس کے مطابق مغربی پاکستان ایک ظالم و جابر قومی ریاست تھی اور اس کے خلاف بنگالی قوم کی آزادی کی جنگ کو سوشلسٹ انقلاب تک لے جانا ناگزیر تھا۔ اسی طرح باقی ماندہ پاکستان میں بلوچ، پشتون اور سندھی قومی سوالات کو بھی انہوں نے مارکس اور لینن کے اصولوں کی روشنی میں نہیں دیکھا بلکہ پاکستان کو ایک کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی قوم کے طور پر پیش کیا، جس کے نتیجے میں مظلوم اقوام کی حقِ خودارادیت بشمول حقِ علیحدگی کی نفی کی گئی۔

مارکسی داخلی تنقید کی روشنی میں یہ مؤقف واضح تضادات سے بھرا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ یہ ایک طرف قومی جبر کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور دوسری طرف مظلوم اقوام کے حقِ خودارادیت سے انکار کرتا ہے۔ یہی وہ نظریاتی تضاد ہے جو میجر اسحاق کے قومی سوال سے متعلق پورے تجزیے کو کمزور اور غیر مارکسی بناتا ہے۔

میجر اسحاق کے قومی سوال سے متعلق موقف کے داخلی تضادات کو اگر مارکسی نظریے کے اصولی فریم میں پرکھا جائے تو سب سے پہلا اور بنیادی تضاد یہی سامنے آتا ہے کہ وہ ایک طرف قومی جبر، معاشی ناہمواری اور ریاستی استبداد کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں، مگر دوسری طرف انہی حالات سے جنم لینے والی قومی عوامی تحریکوں کو ایک خودمختار سیاسی حقیقت کے طور پر ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاں قومی سوال کو طبقاتی سوال کے تابع اس حد تک کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مخصوص طبقاتی صورت گری کے بغیر کسی بھی قومی تحریک کو محض سازش، بیرونی مداخلت یا بورژوا سیاست کا شاخسانہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ رویہ مارکس اور لینن دونوں کے ہاں موجود اس جدلیاتی فہم کے برعکس ہے جس کے مطابق قومی جبر بذاتِ خود طبقاتی استحصال کی ایک شکل ہوتا ہے اور اس کے خلاف ابھرنے والی تحریکیں اپنی قیادت کی طبقاتی ساخت سے قطع نظر ایک معروضی تاریخی حقیقت رکھتی ہیں۔

دوسرا بڑا داخلی تضاد یہ ہے کہ میجر اسحاق سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر قومی سوال کے حل کو ناممکن قرار دیتے ہیں، مگر اسی ریاستی فریم کے اندر ایک ہمہ گیر قومی جمہوری انقلاب کے ذریعے ایک متحد پاکستانی قوم کے حقِ خودارادیت کا تصور پیش کرتے ہیں۔ اگر سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر قومی سوال حل نہیں ہو سکتا تو پھر یہ سوال خود بخود اٹھتا ہے کہ بلوچ، سندھی، پشتون اور بنگالی اقوام پر مسلط قومی جبر کو ایک مجرد "کثیر اللسانی پاکستانی قوم" کے تصور کے ذریعے کیسے زائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور درحقیقت قومی جبر کے ٹھوس اور تاریخی مظاہر کو تجریدی وحدت کے پردے میں چھپا دیتا ہے اور ریاستی مرکزیت کو چیلنج کرنے کے بجائے بالواسطہ طور پر اس کی نظریاتی توثیق بن جاتا ہے۔

ایک اور نمایاں تضاد میجر اسحاق کے اس مؤقف میں ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی قیادت کے بغیر کسی قومی تحریک کو اصولی حمایت کے قابل نہیں سمجھتے، لیکن ساتھ ہی وہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مشرقی بنگال سمیت باقی پاکستان میں محنت کش طبقہ عددی اور نظریاتی اعتبار سے کمزور تھا اور انقلابی شعور ابھی ابتدائی سطح پر تھا۔ اس کے باوجود وہ اس معروضی کمزوری کو قومی تحریک کی حمایت نہ کرنے کا جواز بنا لیتے ہیں، حالانکہ لینن کے نزدیک یہی وہ حالات تھے جن میں کمیونسٹوں کا فرض مزید بڑھ جاتا تھا کہ وہ قومی تحریکوں کے اندر رہ کر محنت کش طبقے کے آزاد طبقاتی شعور اور قیادت کی تعمیر کریں، نہ کہ تحریک سے باہر کھڑے ہو کر اسے سازش قرار دیں۔

میجر اسحاق کی سوچ کا ایک گہرا تضاد یہ بھی ہے کہ وہ مغربی پاکستان کی ریاستی طاقت، فوجی و سول نوکر شاہی اور سرمایہ دار طبقے کی طبقاتی فطرت پر شدید تنقید کرتے ہیں، مگر جب یہی ریاست بنگالی قوم کے خلاف منظم فوجی آپریشن، قتلِ عام اور اجتماعی جبر کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اس جبر کو قومی سوال کے بجائے عالمی سامراجی سازش کے فریم میں فٹ کر دیتے ہیں۔ اس طرزِ فکر میں مظلوم قوم کی ایجنسی مکمل طور پر غائب ہو جاتی ہے اور بنگالی عوام کی جدوجہد ایک خودمختار تاریخی عمل کے بجائے بیرونی قوتوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف مارکسی تاریخیت سے انحراف ہے بلکہ مظلوم قوم کی سیاسی خودمختاری کی نفی بھی ہے۔

اسی طرح میجر اسحاق کا یہ اصرار کہ بنگالی قومی تحریک کی قیادت چونکہ بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے ہاتھ میں تھی اس لیے یہ تحریک مشکوک یا ناقابلِ حمایت تھی، خود ایک داخلی تضاد کو جنم دیتا ہے۔ وہ ایک طرف یہ مانتے ہیں کہ برصغیر جیسے نوآبادیاتی و نیم نوآبادیاتی معاشروں میں بورژوازی کمزور، سمجھوتہ پسند اور رجعتی کردار ادا کرتی ہے، مگر دوسری طرف وہ قومی تحریک کی قیادت کے اسی کردار کو بنیاد بنا کر پوری تحریک کی نفی کر دیتے ہیں۔ مارکس اور لینن دونوں کے نزدیک سوال قیادت کی طبقاتی خصلت کا نہیں بلکہ تحریک کے معروضی تاریخی مواد اور اس کے قومی جبر کے خلاف کردار کا ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ میجر اسحاق کی جانب سے نکسل باڑی تحریک، پوربا بنگلار سربہارا پارٹی اور سراج سکندر جیسے انقلابی مفکرین کو نظر انداز کرنا بھی ایک سنجیدہ نظریاتی خلا کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان حلقوں نے قومی آزادی اور طبقاتی جدوجہد کو ایک ہی انقلابی عمل کے طور پر جوڑنے کی کوشش کی تھی، مگر میجر اسحاق کے تجزیے میں یہ تمام امکانات سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کا موقف ایک ایسی تجریدی طبقاتی خالصیت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو زمینی جدوجہد، عوامی تحریک اور قومی سوال کی پیچیدہ حقیقتوں سے کٹ جاتی ہے۔

آخرکار سب سے بنیادی تضاد یہ ہے کہ میجر اسحاق قومی سوال کو نظریاتی طور پر حل کرنے کی کوشش میں دراصل ریاستی وحدت کو ایک مقدس مفروضہ بنا لیتے ہیں، حالانکہ مارکسی نظریہ ریاستی وحدت کو نہیں بلکہ مظلوم اقوام کی آزادی کو انقلابی سیاست کا نقطۂ آغاز مانتا ہے۔ اسی تضاد کے باعث ان کا مؤقف نہ تو قومی سوال کو حل کر پاتا ہے اور نہ ہی طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا کوئی واضح راستہ فراہم کرتا ہے، بلکہ بالآخر یہ مؤقف غیر ارادی طور پر اسی ریاستی بیانیے کے قریب جا کھڑا ہوتا ہے جسے وہ بظاہر چیلنج کر رہے ہوتے ہیں۔

Check Also

Sir Syed Ahmed Khan Ke Mazhabi Aqaid

By Fazal Tanha Gharshin