Qissa Rangoli Ki Takhleeq Ka
قصہ رنگولی کی تخلیق کا

میں گزشتہ ایک سال سے ایک کہانی لکھنے میں لگا ہوا ہوں۔ یہ کہانی چولستان کے ایک گاؤں کی دلت جات کی میگھوال لڑکی ہے جو اپنے گاؤں کی پہلی لڑکی ہے جو این سی اے لاہور تک پہنچتی ہے اور وہ نیوڈ اور دلت آرٹ کی روایات کو مکس آپ کرکے اپنا تھیسس اور اس پر پروجیکٹ بناتی ہے۔ پروجیکٹ کا نام ہوتا ہے "دانش کی تیسری آنکھ" اس سیریز آف پینٹنگ میں اسے چار دلت عورتوں کے بدن پینٹ کرنے ہوتے ہیں اور یہ چار کردار دلت جاتی کی فوک روایات سے اور دیومالا کے چار تاریخی افسانوی کرداروں سے جڑے ہوتے ہیں جن میں تین عورتیں اور ایک ٹرانس جینڈر ہے۔ اس کے لیے دیپا کو تین عورتیں اور ایک ٹرانس جینڈر تلاش کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں اس دوران واقعات کا ایک سلسلہ رونما ہوتا ہے۔
دیپا خود ایک بڑے ذہنی جدال سے گزرتی ہے اور وہ دھرمی سے ادھرمی ہوجاتی ہے۔ جب اس کے پروجیکٹ کی نمائش ہوتی ہے تو ایک نیا بحران کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی چاروں تصویریں پاکستان کی تہذیب، اسلامی شناخت اور عورتوں کی عفت و ناموس پر حملہ قرار پاتی ہیں۔ ان کی نمائش پر پابندی لگتی ہے۔
یہیں جب وہ سماج کے ردعمل سے تنگ آکر گوشہ نشین ہوتی ہے تو اس کی زندگی میں ایک فلم ساز نوجوان این سی اے سے پڑھا ہوا اس کی زندگی میں آتا ہے۔ جو لاہور کے ایک بالائی متوسط طبقے کے انتہائی لبرل روشن خیال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کی کیمسٹری مل جاتی ہے یہ مل کر آرٹ کو تخلیق کرنے لگتے ہیں، دیپا تصویروں میں رنگ بھرتی ہے اور آصف کوئر اور ٹرانس جینڈر پر شارٹ فلمیں بناتا ہے۔ تعلق دوستی سے بڑھ کر محبت میں بدل جاتا ہے اور پھر شادی کی بات چلتی ہے۔ یہاں آصف کے ماں باپ، بھائی بہنوں کی الٹرا ماڈرنیٹی اور انتہائی بلند سطح کی روشن خیالی پر ان کے راجپوت چوہان ٹھاکر نسل کی برتری جاگ جاتی ہے۔ وہ آصف کے اصرار پر دیپا کو صرف ایک صورت میں قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں کہ ایک تو دیپا اپنا دلت پس منظر بالکل فراموش کردے، دوسرا وہ مسلمان ہوجائے۔
آصف کو بھی یہی لگنے لگتا ہے کہ دیپا اور اس کا رشتہ تب ہی چل پائے گا جب دیپا اپنی دلت شناخت پر پردہ ڈالے اور مسلمان ہوجائے۔۔ یہاں پر دیپا اس خیال کو مسترد کر دیتی ہے۔ بریک آپ کے وقتی شدید ذہنی جھٹکے سے نکلنے میں اسے کچھ وقت لگتا ہے اور پھر وہ ایک دن اپنے گاؤں کی طرف واپس جاتی ہے۔ رنگ، برش کنویس وہ ترک کر دیتی ہے اور اپنی ماں کی طرح کھیتی باڑی اور مویشی پالنے میں لگ جاتی ہے۔ پھر وہ واپس کیسے رنگوں کی طرف لوٹتی ہے اور کہانی اپنے اختتام کو اس وقت پہنچتی ہے جب گاؤں میں اس کے قائم کردہ مصوری کے اسکول میں ایک بلوائی ہجوم گھس آتا ہے اور وہ دیپا کو گھیر کر تشدد کرکے مار ڈالتا ہے اور اس کی لاش کو آگ لگا دیتا ہے۔۔
یہاں تک پہنچنے میں کہانی ابھی کئی مرحلوں سے گزرے گی۔ اس کہانی کو تشکیل دینے کے لیے مجھے آرٹ کی بہت سی تھیوریز، دلت آرٹ اور دلت عورتوں سے جڑی مصوری کے کئی فنکاروں کے زندگی نامے، کوئی تیس سے زیادہ شارٹ اور لانگ فلمیں کئی بار روہی ڈیزرٹ کا سفر کرنا پڑا۔ تب کہیں جاکر اس کہانی کا 75 فیصد حصہ لکھا گیا ہے۔ اس کہانی کی اوریجنلٹی اور اسے کسی پہلے سے لکھی گئی کہانیوں، فکشن اور فلم اسکرپٹ کی نقالی سے بچانے کی کوشش بذات خود ایک تھکا دینے والا عمل تھا۔ اس دوران مجھے اور بہت سارے علمی اور روزمرہ کے کام بھگتانے پڑتے تھے۔
کہانی تخلیق کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مجھے اس کہانی کی تشکیل کرتے ہوئے ہوا۔ میں بار بار فکشن سے نان فکشن کی سرحد میں داخل ہوجاتا تھا۔ میرے اندر کا صحافی چپکے سے دبے پاوں اس میں داخل ہوتا اور بار بار اسکرپٹ رپورٹنگ کا سا تاثر پیدا کرنے لگتا مجھے اس تاثر کو ختم کرنے اور اندر کے صحافی کی بار بار مداخلت کو روکنے کے لیے خود سے بہت بڑی لڑائی کرنا پڑتی۔ کہیں کہیں میرے اندر کا فلسفی بھی اس میں اپنی موجودگی دکھاتا اسے بھی مداخلت کرنے سے روکنے کے لیے مجھے لڑائی لڑنا پڑتی۔
فکشن کو فلسفہ، نفسیات، تاریخ، صحافتی رپورتاژ اور اسی طرح کے دیگر نان فکش بیانیاتی تاثرات سے بچانے کا چیلنج مجھے بہت بڑا اور سب سے مشکل ٹاسک لگتا رہا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمارا سماج اور ہماری سوچ، ہمارے احساسات پر پوسٹ ماڈرنسٹ دنیا اور خیالات کا بہت گہرا اور شدید اثر ہے اور ہم چاہ کر بھی اس ترقی پسند سماجی حقیقت نگاری یا جدیدیت کے کلاسیکل طرز کا فکشن تخلیق نہیں کرسکتے لیکن اس میں کہانی پن کو برقرار رکھنا، اسے تجرید محض بننے سے بچانا اور سب سے بڑھ کر اسے طاقتوروں کے مطابق ڈھل جانے سے روکنا اور افتادگان خاک سے فکشن کو جوڑنا ساتھ ہی اسے پمفلٹ، پروپیگنڈا اور اشتہار بننے سے بچانا بھی بہت بڑا چیلنج ہے جس میں آپ کے اسٹیمنا کے ختم ہوجانے اور تخلیق کی سانسیں اکھڑ جانے کے خطرات بہت ہوتے ہیں۔
آرکی ٹائپس سے بچنا بھی ایک اور طرح کی مشکل کھڑی کرتا ہے۔ رنگولی کہانی کی تخلیق کے دوران مجھے ان ساری مشکلات سے گزرنا پڑا ہے۔ میں حیران پریشان تھا کہ ونود شکلا نے "دیوار میں کھڑکی ہوا کرتی تھی" جیسا ناول جس میں ایک کہانی کے اندر کئی کہانیاں ہیں لیکن ناول کی وحدت اتنی کثرت اور بو قلممونی کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے کیسے لکھے ہوگا؟ اس کے خلاق ذہن کو میں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ہاں ایسا ناول ابھی تک تو پڑھنے کو نہیں ملا۔ رگھوویر پرشاد جیسا لا زوال کردار تخلیق کرنا قریب قریب ناممکن لگتا ہے۔
یہ ناول مجھے اس وقت پڑھنے کو میسر ہوا جب میں "رنگولی" کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ڈرافٹ لکھ چکا تھا اور اچھا ہی ہوا میں نے یہ ناول رنگولی لکھنے کے ابتدائی دنوں میں نہیں پڑھا وگرنہ میں رنگولی شاید لکھ ہی نہ پاتا۔ فکشن کی تخلیق کے عمل سےگزرنے سے پہلے مصنف کو ایسے وصال سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کے دماغ کو حاملہ کرسکے۔ حمل ٹھہرجانے کے بعد بھی کئی طرح کی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں اور آپ کے ذہن کا ایچ پی کم ہوسکتا ہے اسے کم از کم ایک اوسط سطح کے فکشن کو بھی جنم دینے کے لیے دماغ کے ایچ پی کو کم از کم بارہ پوائنٹ تو ہونا چاہئیے۔ اگر اس دوران خدانخواستہ پلازما میں گڑبڑ ہوگئی تو پھر اسقاط حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس دوران اگر کوئی بہت صحت مند فکشن کی ڈلیوری آپ کے سامنے ہوگئی تو آپ ڈپریشن اور اینگزائٹی کی اس شدت کا شکار ہوسکتا ہیں جو آپ کو بائی پولس ڈس آڈر کے فیز بی میں داخل کرسکتا ہے اور آپ کا تخلیقی عمل دماغ کے پیٹ میں پلتے فکشن کی سانس بند کرسکتا ہے اور آپ کو ھسٹریا کا شکار کرسکتا ہے اور اس سے یا تو آپ ہمیشہ کے لیے تخلیق فکشن کی صلاحیت سے محروم ہوکر بانجھ ہوسکتے ہیں یا پھر ایک لمبے عرصے تک آپ کا دماغ Conceive کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اس سے بڑا عذاب کوئی اور کسی لکھاری کے لیے ہو نہیں سکتا۔ ابھی تک تو میرے ہاں Fictional pregnancy کا عمل کسی بڑی پیچیدگی سے بچا ہوا ہے دیکھتے ہیں باقی کے 25 فیصد کی تکمیل میں بھی یہ بچاو بنا رہے گا کہ نہیں۔

