Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Punjab, Punjabiat Aur Pakistaniat

Punjab, Punjabiat Aur Pakistaniat

پنجاب، پنجابیت اور پاکستانیت

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پنجاب کے چیف منسٹر سردار عثمان بزدار نے چار مئی 2019ء کو پنجاب بھر میں منتخب بلدیاتی ادارے ختم کردیے اور نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء نافذ کیا جس میں ڈپٹی کمشنر و کمشنرز، اے ڈی جی سی اور اسٹنٹ کمشنرز کو ان بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔

25 مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ پاکستان نے اس اقدام کو کالعدم قرار دیا اور بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیا۔ پی ٹی آئی نے اس کے فیصلے کے بعد نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ نافذ تو کیا لیکن انتخابات نہیں کرائے۔ پنجاب کے بلدیاتی ادارے نوکر شاہی کے ذریعے چلائے جاتے رہے۔

پھر پی ڈی ایم ون کی حکومت آئی۔ وہ سولہ ماہ رہی۔ اس کے بعد نگران حکومت آئی۔ موجودہ حکومت کو قائم ہوئے دوسرا سال جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

پنجاب کی عوام گزشتہ چھے سالوں بلدیاتی اداروں میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم ہیں۔ ان کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ذمے دار بلدیاتی اداروں کو مقامی نوکر شاہی کے ذریعے سے چلایا جا رہا ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی اداروں سے پرائمری تعلیم اور پرائمری صحت سے متعلق سہولتوں کی فراہمی اختیار چھین کر صوبائی محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کو منتقل کردیا گیا تھا۔ موجودہ پنجاب حکومت نے صوبائی نوکر شاہی کے اختیارات کو مزید طاقتور بناتے ہوئے ان اداروں کے پاس سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے نظام کو پرائیوٹائز کرتے ہوئے انھیں نجی کمپنیوں کے سپرد کردیا۔ اب میونسپل کمیٹی، کارپوریشن اور ضلع کونسلوں کے پاس اپنی حدود میں صفائی ستھرائی کا اختیار نہیں ہے۔ بہت جلد سیوریج اور واٹر سپلائی کے نظام کو بھی میونسپل کمیٹیوں کے اختیار سے باہر نکال کر واسا کے نام سے نجکاری کیا جارہا ہے۔

کئی اضلاع میں واسا ایجنسیاں قائم ہوچکی ہیں۔ جب کہ کئی بڑے شہروں صفائی کا نظام ویسٹ منیجمنٹ کمپنیوں اور واٹر سپلائی و سینی ٹیشن کو واسا ایجنسیوں کے سپرد کردیا گیا تھا۔ اب ان ایجنسیوں کو کمپنیوں میں بدل کر یہ اہم ترین ذمہ داریاں ٹھیکے دار کمپنیوں کو دی جا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں واٹر سپلائی، صفائی ستھرائی، سینی ٹیشن جیسی بنیادی سہولتیں مفت یا سستے داموں فراہم کرنے کے سرکاری طریقہ کار کو بدل کر مہنگے داموں فراہم کرنے والی پرائیویٹ ٹھیکے دار کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت اصل میں میونسپل سروسز کو پرائیویٹ کر رہی ہے اور آہستہ آہستہ یہ سب خدمات نجی کاروباری کمپنیاں فراہم کریں گی اور جو ان خدمات کے پیسے ادا کرنے کے قابل ہوں گے وہی ان سہولتوں سے فیض یاب ہونے کے حق دار ہوں گے۔

میونسپل سروسز کو نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کا یہ منصوبہ صرف پنجاب میں ہی متعارف نہیں کرایا جا رہا بلکہ چاروں صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں موجود تمام بلدیاتی اداروں میں میونسپل سروسز کو پرائیویٹ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

ریاست پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ہو یا منتخب ہئیت مقتدرہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کو میونسپل سروسز ہوں، سوشل سروسز ہوں ان دونوں طرح کی خدمات کو نجی شعبے کے سپرد کردیا جائے۔

جیسے میونسپل سروسز کی نجکاری کا منصوبہ نافذ العمل کیا جا رہا ہے ویسے ہی سوشل سروسز جن میں تعلیم اور صحت سرفہرست ہیں انھیں بھی بتدریج نجی شعبے کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اسے کہیں پرائیویٹ۔ پبلک پارٹنر شپ کا نام دیا جاتا ہے جس میں سندھ حکومت گزشتہ سترہ سالوں سے سب سے زیادہ آگے ہے اور اب پنجاب بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر خزانہ یونہی پیپلزپارٹی کے سندھ میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں پرائیویٹ۔ پبلک پارٹنر شپ کے مداح نہیں ہیں۔

عوام کو پہلے ہی توانائی کی پیداوار اور اس کی تقسیم کو نجی شعبے کے حوالے کرکے بجلی، گیس اور تیل کی مد میں بھاری بھر کم بلوں کی ادائیگی پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ جب کہ اکثریت پہلے ہی نجی تعلیمی و صحت کے شعبے کے ہاتھوں لٹ رہی ہے۔ اب انھیں میونسپل سروسز کی مد میں بھی بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔

جن سروسز کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا ہے عوام ان سہولتوں کے لیے کس قدر ناجائز بھاری بھرکم ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ ذرا بجلی کی سہولت کے لیے ادا کیے جانے والے مالیاتی بوجھ سے لگائیں۔

اس سال نیپرا نے پنجاب میں قادر آباد ساہیوال کے نزدیک بنے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کو کوئلہ سپلائی کرنے والی ٹھیکے دار کمپنی کے کوئلے کی سپلائی میں ڈیفالٹ کے سبب پڑنے والے 215 ملین روپے کا بوجھ بجلی کے صارفین پر ڈالنے کی منظوری دی۔ بجلی کے صارفین جو پہلے ہی کیپسٹی چارجز، روپے کی گراوٹ، ایکسچینج ریٹ کی بدلتی صورت حال کے سبب مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں اب وہ کوئلہ سپلائی کرنے والی کمپنی کی کوتاہی اور ڈیفالٹ کا خمیازہ بھی بھگتیں گے۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کا سبب بننے والے درج بالا عوامل وہ ہیں جن میں بجلی کے صارفین کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میونسپل سروسز، سوشل سروسز اور توانائی کی نجکاری عوام کے لیے ان سروسز کی فراہمی کے وہ چارجز بھی نہیں لیکر آئی جو اس کے استعمال کی مقدار پر اصل میں عائد ہوتی تھی چہ جائیکہ کہ انھیں یہ خدمات سبسڈائزڈ داموں پر فراہم کی جاتیں۔ خدمات کی مفت فراہمی کی بات تو جانے ہی دیں۔

پاکستان کی ریاست کی فوجی اور سویلین بابو شاہی اور اس کی منتخب حکمران اشرافیہ ایک طرف تو مستقل ملازمتوں کے تحفظ، بھاری بھر کم تنخواہوں اور مراعات کو حاصل کرتی ہے۔ دوسری طرف وہ میونسپل سروسز، سوشل سروسز اور بجلی، گیس، تیل بھی مفت لیتی ہے۔ اپنی یہ شاہ خرچیاں وہ کسی کٹوتی، نجکاری، پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ جیسی پالیسیوں کی زد میں نہیں آنے دیتی۔ اپنی تنخواہوں، مراعات اور مفت خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے وہ بین الاقوامی اداروں اور مقامی کمرشل بینکوں سے بلند ترین شرح سود پر قرضے حاصل کرکے برقرار رکھتی ہے اور ان قرضوں پر ڈیٹ سروسز جو اس کے کل بجٹ کا 53 فیصد ہے اس کا بوجھ بھاری بھرکم ٹیکسز کے ذریعے عوام پر منتقل کرتی ہے۔

پاکستان دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جس کے ٹیکسز سسٹم میں 75 فیصد ٹیکسز بالواسطہ ہیں جن میں ودہولڈنگ ٹیکس بھی شامل ہے جو پوری دنیا میں براہ راست ٹیکس کیٹیگری میں شمار ہوتا ہے اور بالواسطہ ٹیکسز کے 75 فیصد ہونے کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ کل ٹیکسز کا 75 فیصد بوجھ سفید پوش اور غریب طبقات پر مسلط کردیا جاتا ہے۔

اس ریاست کی جتنی معاشی مشکلات اور ان سے پیدا ہونے والا بوجھ ہے وہ اس ملک کے سفید پوش اور غریب طبقات اٹھانے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اس ریاست کی جو باوردی، سویلین نوکر شاہی اور حکمران اشرافیہ ہے وہ ان مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنی عیاشیوں کا بوجھ بھی سفید پوش اور غریب طبقات پر ڈال رہی ہے۔

ریاست کی یہ منتخب اشرافیہ عوام کو ایک دوسرے سے لڑاتی ہے۔ اس اشرافیہ کے مختلف گروہ کے چمچے کڑچھے اس نظام کے خلاف عوام کو لڑنے سے روکنے کے لیے وہی کرتے ہیں جو عظمی بخاری، شرجیل میمن، رضی دادا، ابصار عالم، طلال چودھری جیسے چمچے کڑچھے کر رہے ہیں۔

فوجی جرنیلوں کی پاکستانیت، حب الوطنی، مریم نواز شریف کی پنجابی قوم پرستی، مراد علی شاہ کی سندھی قوم پرستی، سوائے فراڈ اور ڈھونگ کے کچھ بھی نہیں ہے۔ علی امین گنڈا پور، سرفراز بگٹی، محسن نقوی یہ تو جوکر اور کٹھ پتلیاں ہیں۔

فوجی جرنیل، سویلین بیوروکریسی، مسلم لیگ نواز، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، باپ کی مرکزی قیادت یہ بلوچ یک جہتی کمیٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی جموں و کشمیر، جوائنٹ ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے تحت چلنے والی عوامی تحریکوں کو ملک دشمن، غدار، فتنہ اور بھارت کی پراکسیز اس لیے بتلاتی ہیں کہ ان تحریکوں کو اپنی اقوام کی اکثریت کو اس ریاست کی منتخب اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی عوام دشمنی کھول کر دکھا دی ہے۔

اس ریاست کی غیر منتخب اور منتخب ہئیت مقتدرہ کی وہ پرتیں جو پنجابی قوم پرستی کا علم اٹھاکر کھڑی ہیں وہ اصل میں پنجاب کی سفید پوش اور غریب عوام سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ بھی اس ریاست کی منتخب و غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہوں اور ان کے ہاں بھی کوئی ایسی عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت کوئی عوامی تحریک عوامی حقوق کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ کھڑی نہ ہوجائے۔

اس لیے ریاست کی پوری پروپیگنڈا مشینری، بکاو مال میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے پروپیگنڈا بریگیڈ بلوچ، پشتون، کشمیری، گلگتی بلتی عوامی تحریکوں کو پنجاب دشمن تحریکیں قرار دینے کی گردان کر رہے ہیں۔ سندھ میں حال ہی میں پانی کے مسئلے پر چلنے والی تحریک میں سندھی عوام کی شرکت نے انھیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ سندھی، سرائیکی اور پنجابی بھی وہی راستا اختیار نہ کرلیں جو بلوچ، پشتون اور کشمیریوں نے اختیار کیا۔

پنجاب کی عوام کو یہ بات جلد بدیر سمجھنا ہوگی کہ انھیں اپنے حکمران طبقوں کی جعلی پنجابی قوم پرستی کے حصار سے باہر نکل کر اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑنا ہوگی۔ پنجاب کے کسان، مزدور، سفید پوش طبقات کا اس موجودہ سسٹم اور اس ریاست کی دیگر اقوام پر کی جانے والی زیادتیوں اور ان کے وسائل کی لوٹ مار میں کوئی شئیر نہیں ہے ان کے حاکم اور ان کے نام پر پاکستانیت، پنجابیت کے علمبردار جرنیل اور بیوروکریٹ ان سے پینے کے صاف پانی، سینی ٹیشن، تعلیم، صحت، روزگار، رہائش تک چھین لینا چاہتے ہیں۔

انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سی سی ڈی، سی ٹی ڈی، پنجاب پیرا فورس، پنجاب پولیس انھیں مجرموں، دہشت گردوں، قبضہ گیر مافیا سے نجات دینے کے لیے نہیں بنائے جانے رہے بلکہ پنجاب کا پورا سیکورٹی اپریٹس انھیں دبانے، خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کے لیے بنایا جارہا ہے۔ یہ ان سے تمام بچی کچھی بنیادی سہولتیں اور خدمات کی سستی فراہمی تک چھین لیں گے اور انھیں غلامی کے نئے دور میں داخل کریں گے۔ ان کی پاکستانیت، پنجابیت سے دھوکہ مت کھائیں اور ان کے خلاف اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑیں اور دیگر اقوام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam