PPP Aur Jamhuri Siasat Ka Zawal (2)
پی پی پی اور جمہوری سیاست کا زوال (2)

فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مسئلہ یہ بنا ہوا تھا کہ اس نے پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے کیے جس سیاسی انجنئیرنگ کا کھیل شروع کیا تھا اور اس کے لیے اس نے جس شخصیت پر سب سے زیادہ محنت اور وسائل خرچ کیے تھے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس موافق فضا کو اپنی متوازی پاور ایمپائر کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ فوجی اسٹبلشمنٹ کے دست شفقت نے پاکستان کی ریاست کے اہم ترین اداروں کی نوکر شاہی میں اپنے وفادار سول بابو افسران کی ایک فوج ظفر موج فراہم کی۔ پنجاب میں تمام صوبائی اور بلدیاتی ادارے اس کے کنٹرول میں تھے۔ وہ پٹواری سے لیکر ڈپٹی کمشنر تک اور ایس ایچ او سے لیکر ایس پی تک اور اوپر سے سیکرٹری تک کی سول افسر شاہی کی ہیرارکی میں اپنی ایک ہیرارکی پیدا کرنے میں قائم رہا۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے اسے پریس، سول سوسائٹی، بار، مسجد، مدرسہ سے جڑی مذھبی سیاست کو کنٹرول کرنے کے گر سکھائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پی این اے میں شامل جماعتوں کے بہترین سیاسی کارکن اور رہنماء اپنے گرد جمع کر لیے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی باقیات نے پی این اے کی ہر اس جماعت کو دانتوں سے محروم کیا جو پنجاب میں نواز شریف کے آڑے آنے کی کوشش کرتی رہی۔ جے یو پی اور جے یو آئی میں توڑ پھوڑ ہو، سپاہ صحابہ کی تشکیل ہو۔ جمعیت اہل حدیث میں تقسیم ہو ان سب کے پیچھے ہمیں نواز شریف کی سرپرستی کرنے والے نظر آتے ہیں۔
نواز شریف پنجاب کے بڑے و درمیانے اور چھوٹے سرمایہ داروں اور تاجروں کے مفادات کا خیال رکھنے والے سیاست دان کے طور پر نمایاں ہوئے اور انھوں نے پاکستان کی سول بابو شاہی کو کمائی کے وہ راستے دکھائے جو اس سے پہلے کوئی نہیں دکھا سکا تھا۔ وہ پنجاب کی نئی اربن مڈل کلاس کا جنم داتا تھا۔ یہ نئی اربن مڈل کلاس سیاسی، سماجی و مذھبی خیالات کے اعتبار سے اس انتہائی قدامت پرست اور فار ریڈیکل رائٹ ونگ مذھبی سوچ کی فضا میں پلی بڑھی تھی جسے پہلے 11 سال جنرل ضیاء پروان چڑھاتے رہے اور پھر نواز شریف نے اسے مسلسل پروان چڑھایا۔ جہاد افغانستان، جہاد کشمیر، ملک میں نفاذ شریعت پروجیکٹ اور اینٹی لیفٹ شدید ترین پروپیگنڈے نے پنجاب کی ابھرتی ہوئی نئی پیٹی بورژوازی/ ارب مڈل کلاس کے شعور کی تعمیر کی۔ اس دوران طلباء یونینز پر پابندی، پنجاب کے اہم ترین تعلیمی اداروں پر اسلامی جمعیت طلباء، ایم ایس ایف اور اے ٹی آئی کے قبضے اور ساتھ ساتھ پنجابی ذات برادریوں پر مشتمل قابض کونسلوں اور لیفٹ، لبرل ترقی پسند طلباء تنظیموں اور اساتذہ کا گھیرا تنگ کیے جانے، پریس پر دائیں بازو کے قبضے اور دائیں بازو کے بطور پراکسی مسجد اور مدرسوں کے استعمال اور ساتھ ہی مزدور ٹریڈ یونین سیاست کے خاتمے نے پنجاب میں بالخصوص اور پورے پاکستان میں بالعموم لیفٹ اور لبرل ترقی پسند حریف کو سماج کے مرکزی دھارے سے نکال باہر کیا۔ پنجاب کی مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کے نوجوان کے سامنے یا تو پاکستان کا دائیں بازو کے غلبے سے بھرا پریس تھا یا اسلامی بنیاد پرستوں کا ترتیب دیا ہوا تعلیمی نصاب تھا اور عملی سیاست میں موقعہ پرستی کا چلن تھا۔ بلدیاتی سیاست ہو کہ صوبائی یا وفاقی سیاست یہ سب مال بنانے اور راتوں رات امیر بن جانے اور قوت و اختیار کو ذاتی مفادات کے حق میں استعمال کرنے کے لیے رہ گئی تھی۔ ترقی پسندی، روشن خیالی، عقلیت پسندی کے جتنے بیانیے تھے سب الحاد، بے دینی اور مغرب پرستی قرار پا گئے تھے۔
پی پی پی کے بانی بھٹو اور ان کی بیگم نصرت بھٹو کی کردار کشی اسقدر زیادہ تھی کہ نئی نسل کی اکثریت ان پر ایمان رکھتی تھی۔ اس میں بے نظیر بھٹو، ان کے شوہر آصف علی زرداری، ان کے سسر حاکم علی زرداری اور پی پی پی کے جملہ وزیر و مشیر سب سند یافتہ بدعنوان اور ملک دشمن قرار دیے جانے چکے تھے۔ پی پی پی کے لوگوں کی چار آنے کی کرپشن بھی سو کروڑ کی بنا کر دکھائی جا رہی تھی۔
آصف علی زرداری نواز شریف کی قائم کردہ اسٹبلشمنٹ کے متوازی اسٹبلشمنٹ ہو یا فوجی اسٹبلشمنٹ ہو ان سب کا ہدف تھے۔ یہ پروپیگنڈا اتنا شدید اور موثر تھا کہ خود پنجاب میں پیپلزپارٹی کے حامی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے اس سے متاثر نظر آئے اور انھوں نے آصف علی زرداری کا دفاع کرنا تک ترک کر دیا تھا۔
پیپلزپارٹی کی اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتے بازی کی سیاست نے پی پی پی کے پنجاب میں حامی درمیانے طبقے کی ایک بڑی پرت کی نئی نسل میں ایک منفی شعور کو جنم دیا۔ اس نئی نسل نے پی پی پی کو بھی مسلم لیگ نواز کے خانے میں رکھا اور روایتی سیاست سے بے زاری کا اظہار شروع کر دیا۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نواز شریف کی اپنے ذات کے گرد جمع ہونے والی طاقت سے پریشان تھی۔ نواز شریف پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص سرمایہ داری اور کاروباری پرتوں کا ترجمان بن کر ابھرا تھا جو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کرنا چاہتی تھی اور اس میں اپنے لیے بے پناہ امکانات دیکھ رہی تھی۔ یہ معاملہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے لیے پریشان کن تھا۔ اس نے معاہدہ لاہور کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارگل کا ایڈونچر کھیلا اور نواز شریف جب اس کے پیچھے مقاصد سے آگاہ ہوئے تھے تو انہوں نے فوج کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی۔ جعلی اور دھاندلی زدہ دو تہائی اکثریت کے حامل میں نواز شریف نے جب فوج اور عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی تو فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا۔
نواز شریف کا تختہ فوج نے اس لیے نہیں الٹا تھا کہ وہ کوئی سویلین بالادستی کے سیاسی پروگرام پر گامزن تھے بلکہ اس دوران وہ اپوزیشن کو بالکل کنارے لگا چکے اور قومی احتساب بیورو ہو یا 14 ویں ترمیم میں اپنے آپ کو امیر المومنین بنانے کی کوشش ہو یا پھر عدلیہ سے محاذ آرائی ہو وہ یہ سب اپنی ذات کو طاقتور بنانے کے لیے کر رہے تھے۔ تین سالوں میں انھوں نے پی پی پی کے ہر ایک قابل ذکر سیاست دان کا گھیراؤ کیا۔ پولیس، نیب کو خوب استعمال کیا۔ گلی محلے تک میں پی پی پی کے کسی کارکن کو معاف نہیں کیا۔ لاہور کے تمام نامی گرامی بدمعاش اور جرائم پیشہ گروہ ان کی سرپرستی میں پی پی پی کی سیاسی طاقت کے خاتمے اور اس کے سیاسی اثاثے کی معاشی و کاروباری تباہی میں مصروف تھے۔ پی پی پی پر یہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے بھی برا دور تھا۔
اس شدید ترین دور ابتلاء میں بے نظیر بھٹو کی شدید ترین کردار کشی کی گئی اور ان پر سب سے شدید حملہ وہ تھا جب آصف علی زرداری کو قید کے دوران بے نظیر بھٹو کو طلاق دینے کے پہلے لالچ اور پھر تشدد کیا گیا جس میں ان کی زبان تک کاٹ دی گئی۔ اس قدر سنگین واقعے کو بھی پریس میں آصف علی زرداری کے ڈرامے کے طور پر مشہور کیا گیا۔
بے نظیر بھٹو اس ساری صورت حال سے کس قدر دباؤ اور پریشان تھیں اس کا اندازہ ان کی اے پی کے نمائندہ سے کی گئی بات چیت کی اس ویڈیو بیان کو دیکھ کر لگایا جاتا سکتا ہے جو انھوں نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کے خلاف مشرف کے کودتا بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں دیا۔ اس بیان کو بعد ازاں آمریت کی گود میں پلنے والے سیاست دانوں کے حامی بے نظیر بھٹو کی جانب سے مشرف آمریت کی حمایت کا ثبوت بناکر پیش کرتے رہے۔
بے نظیر بھٹو مشرف آمریت کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد میں شاید پہلی بار دو انتہائی سخت چیلنجز سے نبرد آزما تھیں۔
ایک طرف تو مشرف کے خلاف جو دائیں سمت سے آنے والی مخالف سیاست تھی جس کے علمبردار جہاد افغانستان، جہاد کشمیر، پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے اسٹیک ہولڈر تھے جو جنرل مشرف کی امریکہ کی افغان طالبان کے خلاف جنگ کی حمایت کو ریاست کا یو ٹرن قرار دے رہے تھے اور دوسری طرف پاکستان کی اربن پڑھی لکھی لبرل مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تھے جو مشرف کو واقعی ایک لبرل و ترقی پسند فوجی جرنیل سمجھ رہے احمد فراز، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان سمیت کئی نامور ترقی پسند شاعر و ادیب اور سیاست بھی تھے۔ اجمل خٹک بھی ان کے دام فریب میں آئے۔ اس میں این جی اوز بھی شامل تھی۔ مغرب میں بھی جنرل مشرف کو ایک لبرل آمر خیال کیا جا رہا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف سے بحالی جمہوریت کی خاطر اتحاد کیا۔ ان کی یہ سوچ تھی کہ پنجاب میں دائیں بازو کی سب سے طاقتور سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی جدوجہد کے کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات ہوسکتے ہیں۔ یوں بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کو اپنا دشمن بنا لیا۔ وہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان نہ آ سکیں اور نہ ہی وہ عام انتخابات میں حصہ لے پائیں۔
ابتداء میں امریکی عہدے دار بے نظیر بھٹو سے ملاقات تک نہیں کر رہے تھے۔ دوہزار چھے تک امریکی انتظامیہ کو یہ احساس ہوگیا پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ ان سے ڈبل گیم کر رہی ہے۔ تب کہیں جاکر بے نظیر بھٹو کو امریکی مقتدر لابی نے سننا شروع کیا۔ بے نظیر بھٹو امریکی انتظامیہ کو قائل کرنے میں کامیاب نظر آ رہی تھیں کہ اگر وہ افغانستان سمیت خطے میں پاکستان کی ریاست کا ایک لبرل روشن خیال کردار دیکھنے کا خواہاں ہے تو اسے مشرف کو فوجی وردی اتارنے اور ملک میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن بناکر ایک خودمختار سویلین منتخب جمہوری حکومت کا قیام کرنے میں مدد فراہم کرنا ہوگی۔
بے نظیر بھٹو کے امریکی اور چند اور اہم مغربی ممالک کے طاقتور نمائندوں کے توسط سے مشرف کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے فائنل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ مشرف کا وردی اتارنے سے انکار بن رہا تھا۔
اس دوران جنرل مشرف نے اپنے ترقی پسند اور لبرل ہونے کے امیج کو ابھارنے کے لیے مسئلہ کشمیر پر بھارت میں برسراقتدار ترقی پسند جماعتوں کے اتحاد یو پی اے کی حکومت سے کسی تیسرے اور متبادل حل کی تلاش میں مذاکرات شروع کر دیے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ محمود علی قصوری کے بقول دونوں ممالک کشمیر کو بفر زون بنانے پر راضی ہوگئے تھے اور وہ اس پر معاہدے کے قریب تھے۔
فوج اس معاملے پر مشرف کی ہمنوا نہیں تھی اور فوجی جرنیلوں میں یہ تاثر بھی طاقت پکڑ رہا تھا کہ جنرل مشرف کا لبرل امیج فوج کو قدامت پرست حلقوں میں غیر مقبول بنا رہا ہے۔ فوج کے اس گروہ کی قیادت جنرل کیانی کر رہے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عدلیہ بحالی کی تحریک سامنے آگئی۔ اس تحریک کے بارے میں پہلے دن سے بے نظیر بھٹو شکوک میں مبتلا تھیں۔ وہ اس تحریک میں پی پی پی کی سرگرم شرکت نہیں چاہتی تھیں۔ لیکن پی پی پی میں چوہدری اعتزاز احسن سمیت کئی ایک لیڈروں کا خیال تھا کہ یہ تحریک مشرف کی رخصتی میں مددگار ثابت ہوگی۔ جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ یہ تحریک پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے تابع ججز برقرار رکھنے اور جو بھی منتخب حکومت آئے اسے کنٹرول کرنے میں کام آئے۔
بے نظیر بھٹو کے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے پراسیس میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے خود نواز شریف سرگرم ہوگئے۔ انھوں نے اے آر ڈی کو توڑ دیا۔ اس کی جگہ اے پی ڈیم بنوائی۔ وہ معاہدے کی عملی شکل میں آنے سے پہلے اسے "مشرف۔ نواز" کے طور پر پریس میں بدنام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے معاہدے سے پہلے وطن لوٹنے کی کوشش کی اور ائرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیے گئے۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلام پسند مذھبی سیاسی جماعتیں انتہائی خطرناک پروپیگنڈا کر رہی تھیں۔ انھیں امریکی ایجنٹ کہا جا رہا تھا۔
بے نظیر بھٹو کو طالبان، القاعدہ سمیت عالمی جہادی کیمپ اپنا دشمن نمبر ایک سمجھ رہا تھا۔
بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے پنجاب میں طاقتور سیاست دانوں کی ایک معتدبہ تعداد کو اقتدار کی لالچ نے واپسی پر آمادہ کیا اور پنجاب میں ان جیسے امیدواروں کی آمد نے یہ امید پیدا کردی تھی کہ پی پی پی پنجاب میں اپنی کھوئی پارلیمانی قوت کو کسی حد تک حاصل کرلے گی۔ لیکن بے نظیر بھٹو ایک ایسے حالات میں وطن واپس لوٹی تھیں کہ پنجاب میں پی پی پی کی تنظیمی حالت بہت خراب تھی۔ ان کا ایک عرصے سے مقامی کارکنوں سے رابطہ ٹوٹا ہوا تھا۔ پنجاب میں نوجوان ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جس کا پی پی پی سے کوئی انٹریکشنن نہیں تھا۔ یہ منفی سوچ کے حامل نوجوان تھے جو اس وقت تک سیاسی طور پر متحرک نہیں ہوئے تھے۔
بے نظیر بھٹو کی پنجاب میں انتخابی مہم کوئی بہت زیادہ عوامی حاضری کا سبب نہیں بن رہی تھی۔ لیکن آثار بتا رہے تھے کہ انتخابی نتائج میں پی پی پی، مسلم لیگ نواز اور آزاد اراکین پنجاب میں نئی حکومت کی تشکیل ممکن بنائیں گے۔
اس ساری صورت حال میں 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوگئی۔
پی پی پی نے سو دن کا سوگ کا اعلان کیا اور اس تاخیر نے پنجاب میں پی پی پی کے کسی سوئپ کے امکان کو ختم کیا۔ پنجاب میں 19 قومی اسمبلی نشستیں ایسی تھیں جو 2002ء میں پی پی پی نے جیتی تھیں وہ نشستیں بھی پنجاب سے چھن گئی اور ان میں سے اکثر پر نواز لیگ اور آزاد امیدوار منتخب ہوگئے۔ پنجاب میں پی پی پی کی بجائے سو دن کی اضافی انتخابی کمپئن کا فائدہ نواز لیگ کو ہوا۔ جبکہ تحریک انصاف بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہی۔
پی پی پی کی مرکز میں حکومت کو پہلے دن سے نہ صرف مالیاتی و معاشی پالیسی کے میدان میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اسے وار آن ٹیرر، پاک۔ بھارت تعلقات اور امریکہ سے سویلین امور کے تعلقات میں فوج کی بد اعتمادی کا سامنا رہا۔
پی پی پی کمزور تنظیمی ڈھانچے اور آصف علی زرداری کے خلاف بدترین میڈیا پروپیگنڈے کے سبب خود پنجاب میں پی پی پی میں شامل ہونے والے نئے اور اعتزاز احسن جیسے پرانے پارلیمنٹرین میں پھیلنے والے شکوک اور بد دلی کا شکار ہوئی۔ اسے طالبان کی طرف سے تباہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف فوجی چیف کیانی، چیف جسٹس افتخار چودھری اور نواز شریف نے اپنے اپنے مفادات اور تحفظ کے لیے پی پی پی کے خلاف ایک ٹرائیکا قائم کرلی۔ اس ٹرائیکا نے 2013ء کے انتخابات کو نواز شریف کے لیے مینیج کیا اور یوں آر اوز کے تحت ہونے والے یہ انتخابات ایک بار پھر نواز شریف کو برسر اقتدار لے آئے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پہلے سال ہی تاج ہوٹل پر لشکر طیبہ کے حملے اور پھر انڈین پارلیمنٹ پر حملے نے پیپلزپارٹی کو ویسے ہی بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا اور اس زمانے میں کراچی اور بلوچستان میں شیعہ و ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی روکنے میں سیکورٹی ایجنسیز کی ناکامی کی بجائے الزام پیپلزپارٹی پر آیا اور پی پی پی ناراض بلوچوں کو راضی کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھانا چاہتی تھی انھیں بھی فوجی اسٹبلشمنٹ نے بندوق کے حل پر اصرار کرکے معاملہ بگاڑ دیا تھا۔ پنجاب میں اسے سیاست سے روکنے کے لیے بلاسفیمی کارڈ استعمال ہوا اور گورنر سلمان تاثیر، شہباز بھٹی کے قتل اور پھر حامد سعید کاظمی پر قاتلانہ حملے نے پی پی پی کو لبرل اصلاحات متعارف کرانے سے روک دیا۔ ایک بار پھر پی پی پی نہ تو لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھا پائی اور نہ ہی وہ معاشی میدان میں عام آدمی کو اتنا بھی ڈلیور نہ کر ہائی جتنا اس نے 88ء اور 93ء میں ڈلیور کیا تھا۔
نواز شریف اپنی پرانی روش پر گامزن ہوئے اور انھوں نے 1999ء میں کھوئی ہوئی اپنی شان و شوکت پھر بحال کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھارت سے تعلقات کی بحالی میں مصروف ہوئے۔ لیکن اپنی ہوس اقتدار میں وہ فوج اور عدلیہ کے ساتھ مل کر سویلین بالادستی کے سفر کو اگے بڑھانے کی بجائے پیچھے دھکیلنے کے مرتکب ہوئے۔
فوج کی اس وقت کی قیادت نواز شریف اور پی پی پی دونوں کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لئے عمران خان پروجیکٹ لے آئی۔ اس دوران پنجاب ایک طرح سے پی پی پی کے لیے نو گو ایریا بنا رہا۔
آصف علی زرداری کے پاس 2008.2018ء تک سوائے مسلم لیگ نواز سے سیاسی مفاہمت کے اور کوئی راستا نہیں تھا۔ وہ کرشمہ سے محروم سیاست دان تھے جس کے بس میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ پنجاب میں سخت جارحانہ عوامی جمہوری سیاست کا راستا اختیار کرتے۔ وہ بیک نواز شریف اور دوسری طرف عمران خان پروجیکٹ لیکر چلنے والی فوجی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نہیں لڑ سکتے تھے۔ لیکن اس مفاہمت نے انھیں پنجاب میں نواز شریف مخالف اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی بہت بڑی تعداد کی حمایت سے محروم کیا۔ آصف علی زرداری کے پاس اس کے بعد ایک ہی راستا رہ گیا تھا کہ وہ پنجاب میں اپنی بچی کچھی پوزیشن کو برقرار رکھیں۔
اس دوران سیاست میں پنجاب اور کے پی کے اندر سے 19 سے 25 سال کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا کے زریعے سے عمران خان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئی۔ یہ نوجوان نسل ایک رائٹ ونگ پاپولسٹ بیانیہ کے گرد جمع ہوئی جسے فوجی اسٹبلشمنٹ نے اپنی پوری طاقت سے مدد فراہم کی۔
یہ بات ماننے والی ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے پاس کوئی ایسی حکمت عملی موجود ہی نہیں تھی جسے یہ اختیار کرکے اپنے آپ کو نوجوانوں کے سامنے نواز لیگ اور تحریک انصاف کے مقابلے میں متبادل کے طور پر پیش کر پاتی۔
نواز لیگ سے مفاہمت پنجاب میں پی پی پی کے پاؤں کی زنجیر بن گئی۔ آصف علی زرداری نے اس دوران پاور پالیٹکس کے کھیل میں تو اپنے پتے اچھے سے کھیلے لیکن پنجاب کی عوامی سیاست میں وہ کوئی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس کی مرکزی قیادت اپنی پرانی روایت لڑائی کرنے والی سمت سفر پر اعتماد کھو بیٹھی ہے۔ یہ اقتدار کی لڑائی میں بچ بچا کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اسے دائیں بازو کی دو جماعتوں کے ایجنڈوں کا سامنا ہے۔ نہ یہ مسلم لیگ بن سکتی ہے نہ پی ٹی آئی۔

