PPP Aur Jamhuri Siasat Ka Zawal (1)
پی پی پی اور جمہوری سیاست کا زوال (1)

پی پی پی کی سیاست میں نمایاں اور بڑی پالیسی شفٹ 1984ء کے بعد آنا شروع ہوئی۔ پارٹی کی سب سے مقبول عوامی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو جب جلاوطن ہوکر لندن پہنچیں تو انھوں نے یورپ اور امریکہ میں عوام کی روایتی جمہوری سیاسی جماعتوں میں سوشل ڈیموکریسی سے لبرل ڈیموکریسی کی طرف تبدیلی کا رجحان دیکھا۔ ان سیاسی جماعتوں میں بائیں بازو کی قیادت پس منظر میں گئی اور دائیں بازو کی قیادت غلبہ حاصل کرتی گئی۔ برطانیہ میں تھیچر ازم اور امریکہ میں ریگن ازم کا غلبہ تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں سنٹر آف دا لیفٹ پارٹی کے امیج کو تبدیل کرنے کے لیے پی پی پی کا لبرل ڈیموکریٹک پارٹی ہونے کا تصور عام کرنا شروع کیا۔
انھیں اس پالیسی شفٹ میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔ انھیں آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے کے دوران چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے پارٹی رہنماء کے طور پر ابھرنے والے ان تمام نوجوان قیادت کا اعتماد حاصل تھا جو پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر نمایاں تھے۔
سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا انھیں پاکستان پیپلزپارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ان ساتھیوں کی جانب سے کرنا پڑا جو پی پی پی میں لیفٹ سیاست کا چہرہ سمجھے جاتے تھے اور پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں ان کی تعداد بمشکل چھے یا سات کی ہوگی اور پنجاب میں سب سے نمایاں شیخ رشید احمد تھے۔ 1984ء میں شیخ رشید احمد اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان پارٹی کے سیاسی تشخص کے سوال پر اختلاف کا تذکرہ پریس میں بھی ہوا اور جیسا کہ بے نظیر بھٹو نے لکھا ہے کہ انہوں نے آسانی سے اس معاملے پر کامیابی حاصل کرلی اور پارٹی میں پی پی پی کو سنٹر آف دا لیفٹ سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی بنانے کی پالیسی شفٹ کے آڑے آنے والے رہنماء سائیڈ لائن کر دیے گئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ یقین تھا کہ وہ امریکی قیادت میں مغربی سرمایہ داری بلاک میں لبرل ڈیموکریٹک مقتدر طاقتوں کی مدد سے پیپلزپارٹی کا اقتدار میں آنے کے راستے میں رکاوٹ بننے والی اسٹبلشمنٹ میں موجود اینٹی پی پی پی ضیاء الحقی باقیات کو روک پائیں گی اور پاکستان میں سویلین بالادستی کے ہدف کو حاصل کرلیں گی کیونکہ پی پی پی کو بلاشبہ ملک بھر میں سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل تھی اور یہ عوامی حمایت انھیں لگتا تھا کہ امریکی سرمایہ دارانہ بلاک میں موجود لبرل جمہوری مقتدر طاقتوں کی حمایت کی مدد سے انھیں جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے نجات اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے زریعے اقتدار حاصل کرنے میں مدد کریں گی۔
جنرل ضیاء کی حکومت جینیوا معاہدے کی مخالفت، ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے کے سبب اور افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد سے امریکی سرمایہ دار بلاک کی نظر میں کشش کھو چکی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے مسلسل چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز رہنے کے سبب خود فوج کی ہیرارکی میں بھی ضیاء کی مخالفت پیدا ہوچکی تھی۔ دن بدن اقتدار پر جنرل ضیاء کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ اگر جنرل ضیاء زندہ رہتے تو انھیں جلد بہ دیر فوجی وردی اتارنا پڑتی اور نیا چیف آف آرمی اسٹاف لانا پڑتا۔ اس کے بعد وہ زیادہ دیر صدر مملکت کے عہدے پر برقرار نہ رہ پاتے۔ کوئی بعید نہیں تھا کہ غیر جماعتی اسمبلی ہی انھیں صدر مملکت کے عہدے سے الگ کر دیتی۔ اسی وجہ سے جنرل ضیاء نے اپنے منتخب کردہ وزیراعظم کو برطرف کیا اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی ہی قائم کردہ غیر جماعتی قومی اسمبلی ختم کردی تھی۔
اس صورت حال میں بے نظیر بھٹو عوام میں اپنی مقبولیت اور اپنے لبرل جمہوری خیالات کے سبب امریکی مغربی سرمایہ دار بلاک کی نظر میں پاکستان کی سربراہی کرنے کے لیے موزوں ترین شخصیت قرار پاتیں۔
جنرل ضیاء الحق اور فوج کی ٹاپ براس کے طیارے حادثے میں مارے جانے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز ہونے والے جنرل مرزا اسلم بیگ فوج کی نئی قیادت کی جانب سے اس بارے فکر مند تھے کہ اگر بغیر کسی سیفٹی والو کے پی پی پی کو بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار دیا گیا تو وہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔ یہ فکر مندی فوج میں موجود ضیاء الحق کی کٹرپنتھی باقیات کو ہی لاحق نہ تھی بلکہ فوجی اسٹبلشمنٹ کی بیساکھی سے قومی اور صوبائی سیاست میں طاقتور ہوجانے والے سیاسی دھڑوں کو بھی لاحق تھی۔ اس لیے اس وقت ایوان صدر، جی ایچ کیو، آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھے عہدے داروں نے باہم مل کر ایک طرف تو پی پی پی کی مخالف تمام سیاسی قوتوں کو ایک نئے سیاسی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد میں تبدیل کیا اور اپنی ساری قوت اس نے خاص طور پر پنجاب پر مرکوز کردی۔ ایوان صدر، جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی نے 1988ء میں انتخابات کو انجنئیرڈ کرنے کے لیے سارے وسائل جھونک دیے۔
فوجی اسٹبلشمنٹ کو سندھ میں یہ ایج حاصل تھا کہ وہ 11 سالوں میں ایسے حالات پیدا کرچکی تھی کہ وہاں کراچی، حیدر آباد سمیت سندھ کے اردو اسپیکنگ اکثریتی علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ سب سے مقبول سیاسی جماعت بن کر سامنے آگئی تھی۔ صوبہ شمال مغربی سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی اور صوبہ بلوچستان میں بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھٹو دور میں ہونے والے سیاسی جبر سے پیدا ہونے والی تلخی کو بھٹو دشمنی میں تبدیل کر چکی تھیں اور انہوں نے محض بغض میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بننا قبول کرلیا تھا۔
پی پی پی نے جب ایم آر ڈی کو انتخابی اتحاد میں بدلنے سے انکار کرتے ہوئے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے نے پنجاب میں جہاں نوابزادہ نصر اللہ خان کو پی پی پی کا مخالف بنایا وہیں جمعیت اہل حدیث بھی مخالف ہوئی۔ سندھ میں غلام مصطفٰی خان جتوئی جیسے اس کے مخالف ہوئے۔ اگرچہ سندھ میں اس مخالفت نے سندھی اکثریت کے علاقوں میں کوئی خاص فرق نہ ڈالا لیکن ایم آر ڈی میں شامل کئی بڑے قد کاٹھ کے سیاست دان ضرور اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بن گئے۔
اس فضاء میں پاکستان میں قومی اسمبلی کے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اگرچہ ان انتخابات میں قومی اسمبلی کے نتائج پاکستان میں ایوان صدر، جی ایچ کیو، آئی ایس آئی کی منشاء کے مطابق برآمد نہ ہوئے لیکن پنجاب میں میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کی نشستیں اور سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ کی نشستوں نے پی پی پی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت لینے میں ناکام کر ڈالا۔
فوج، ایوان صدر اور آئی ایس آئی جس کے پاس پنجاب کی تمام انتظامیہ کا کنٹرول تھا اور بلدیاتی طاقت تھی اس نے دو روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کرکے پی پی پی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی میں اکثریت سے محروم کردیا۔
پیپلزپارٹی کے پاس اب صرف دو راستے تھے۔ وہ یا تو اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرکے اقتدار حاصل کرے یا اپوزیشن میں بیٹھ جائے۔
اقتدار اسے صرف اس صورت میں مل سکتا تھا جب اسٹبلشمنٹ ایم کیو ایم اور فاٹا اراکین و آزاد اراکین قومی اسمبلی کو پی پی پی کے ساتھ اتحاد اور شامل ہونے کا اشارہ کرتی۔ اسٹبلشمنٹ نے پہلے کوشش کی کہ وہ پی پی پی کے اراکین توڑکر، فاٹا اور دیگر حلقوں سے آزاد اراکین اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملاکر اسلامی جمہوری اتحاد کی وفاق میں حکومت کی راہ ہموار کرے۔ ایوان صدر اور آئی ایس آئی یہ راستا اختیار کرنے کے حق میں تھی لیکن جی ایچ کیو میں بیٹھے جرنیلوں کی اکثریت اور چیف آف آرمی اسٹاف پر پڑنے والا امریکی دباؤ اس کے آڑے آگیا۔ ایوان صدر نے مجبور ہوکر پی پی پی سے مذاکرات شروع کیے۔ امریکی قیادت اور عالمی مالیاتی ادارے چاہتے تھے کہ پی پی پی ان کی پسند کا وزیر خزانہ جبکہ جی ایچ کیو چاہتا تھا کہ وزرات خارجہ، وزرات دفاع ان کے کنٹرول میں رہیں اور ایوان صدر میں ان کا پسندیدہ تجربہ کار آدمی اسحاق خان ہی براجمان رہے۔
یہ شرائط ایسی تھیں کہ ان کے ہوتے ہوئے پی پی پی کو مالیاتی و معاشی میدان میں اپنے سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈے کو بروئے کار لانا ممکن نہ ہوتا۔ نہ ہی وہ افغان و کشمیر پالیسی اور بھارت سے تعلقات بارے اپنے وژن پر عمل درآمد کراسکتی تھی۔ پی پی پی ایک ایسی حکومت قائم کرنے جا رہی تھی جو اپنے اتحادیوں کی مرہون منت ہوتی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن نے اپنے پارلیمانی ممبران کی بھاری اکثریت سوائے دو اراکین قومی اسمبلی کو چھوڑ کر کی منظوری سے اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے فوج اور امریکہ سے سمجھوتہ کرکے اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیپلزپارٹی کے اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کے امیج پر پڑنے والا پہلا ڈینٹ تھا۔
پیپلزپارٹی کا اقتدار ایک طرف تو مسلسل جی ایچ کیو کی طرف سے بداعتمادی کا شکار رہا۔ دوسری طرف اسے پنجاب سے زبردست محاذ آرائی کا سامنا رہا۔ تیسری طرف ایوان صدر اور آئی ایس آئی اس حکومت کو گرانے کی سازش کرتی رہی۔
اندرونی طور پر پیپلزپارٹی کو جس بدترین بحران کا سامنا ہوا وہ تھا اس کے وزیر، مشیر، پارٹی عہدے دار کرپشن کرنے میں مصروف ہوگئے۔ پارٹی کے اندر نظریاتی کارکنوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی مرکز موجود نہ تھا۔ اس کرپشن کو ایک طاقتور تخریبی ہتھیار کے طور پر اسٹبلشمنٹ نے استعمال کیا اور پاکستان کا اردو پریس جو گیارہ سالہ دور آمریت میں دائیں بازو کے قبضے میں تھا اس نے ایوان صدر، آئی ایس آئی کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور پنجاب میں بیٹھے میاں نواز شریف کی بے پناہ فیض طبعیت سے خوب سیر ہو رہا تھا نے پی پی پی کا بدترین میڈیا ٹرائل شروع کردیا۔
فوج اور آئی ایس آئی بے نظیر بھٹو کی افغانستان، کشمیر، بھارت، جہاد بارے سوچ اور خیالات سے بری طرح خائف تھی۔ اگرچہ وہ ہی پاکستان کی خارجہ، سیکورٹی اور ایٹمی پروگرام کی پالیسیوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہی تھی لیکن وہ بے نظیر بھٹو کی بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے خوفزدہ تھی۔ ہندوستان میں بابری مسجد کے گرائے جانے اور راجیو گاندھی کے خود کش حملے میں مارے جانے جیسے واقعات اور ہندتوا کے ابھار نے جہاں پاکستان میں دائیں بازو کے خیالات کو مقبول بنایا وہیں فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اسلامی بنیاد پرستی کی سرپرستی نے بے نظیر بھٹو کے خارجہ اور سیکورٹی معاملات پر روشن خیالی اور بھارت کے ساتھ مل کر آزاد جنوبی ایشیا ٹریڈ بلاک کے قیام جیسے ترقی پسند خواب کو غیر مقبول بنا دیا۔
پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ اس کی تنظیمی صلاحیت دن بدن غیر فعال، موقعہ پرست اور کرپشن میں ملوث ہوتی چلی گئی۔
فوج، آئی ایس آئی اور سول نوکر شاہی میں ضیاء الحق کی باقیات نے نواز شریف کو پروموٹ کرنا شروع کیا اور وہ ان کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اس زمانے کا سارا پریس نواز شریف کی امیج بلڈنگ کر رہا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کے صنعتکار اور بڑے و درمیانے سرمایہ دار اور دکاندار تاجر طبقوں کے مفادات بھی نواز شریف کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہو رہے تھے۔ اسٹبلشمنٹ نے پہلے عدم اعتماد کے زریعے سے پی پی پی کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش کی جب اس میں ناکامی ہوئی تو اس نے سندھ میں لسانی فسادات اور ہنگامے کروائے اور یوں سندھی اور مہاجر آمنے سامنے کھڑے کر دیے گئے اور پھر صدر مملکت نے آخر کار پی پی پی کی پہلی حکومت برطرف کردی۔
پی پی پی نے سمجھوتہ اور مصلحت کو جمہوری لڑائی براہ راست لڑنے پر جو فوقیت دی تھی اور جو لنگڑا لولا اقتدار لیا تھا اس نے ڈھائی سال میں ایک طرف تو پی پی پی کو اپنے نظریاتی کارکنوں اور لڑائی لڑنے کی سپرٹ سے محروم کردیا۔ دوسری طرف اس کی قیادت کے امیج کو بری طرح سے متاثر کیا۔ پنجاب میں اب اس کے پاس درمیانے اور محنت کش طبقات کے نمائندہ نظریاتی مقامی سیاسی لیڈر اور کارکن کم تھے اور کیریرسٹ، کاروائی ڈال اور فوٹو سیشن مافیا زیادہ رہ گئے تھے۔ اس کی سپورٹ بیس پنجاب کے اربن ایریاز کی تشکیل کرنے والے اضلاع سے گھٹتی ہوئی پنجاب کے دیہی علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی جہاں جیت کا دارومدار طاقتور زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے پاس تھا جن میں سے اکثریت کی سیاسی وفاداری تبدیل کرانا اسٹبلشمنٹ کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد پی پی پی کی مرکزی قیادت، اس کے وزیر، مشیر کرپشن اور فوجداری مقدمات کی ختم نہ ہونے والی ایک لمبی فہرست کا نشانہ بنے۔
پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت عوامی حمایت پر اعتماد کھو چکی تھی۔ اس کے پاس کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں تھا کہ وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کی عوامی حمایت اور اپنے ووٹ بینک کو زوال پذیر ہونے سے روک پاتی۔ اس دوران پی پی پی میں آصف علی زرداری ڈاکٹرائن نے غلبہ پانا شروع کیا۔ پی پی پی انتخابات میں وننگ ہارسز کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگی اور وہ نواز شریف کی طرح چمک کا پیچھا کرنے لگی۔ یوں رفتہ رفتہ عوام کی پارٹی پنجاب میں خواص کی پارٹی بنتی چلی گئی اور اس کی قائد اسٹبلشمنٹ کے اندر پھوٹ اور اختلافات میں موقعہ کی تلاش میں سرگرداں رہیں جو انھیں اسحاق خان۔ نواز لڑائی میں میسر آیا۔ پی پی پی نے 93ء میں نواز مخالف فوجی اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیا اور نواز شریف لڑائی میں جاتے جاتے اسحاق خان کا سر لے گئے۔ ترانوے میں پی پی پی پہلے سے کہیں زیادہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اتفاق کے ہمراہ اقتدار میں آئی۔ اس نے اسٹبلشمنٹ کو افغانستان اور کشمیر کے معاملے میں فری ہینڈ دیا۔ لیکن اسٹبلشمنٹ بے نظیر بھٹو کو اپنی راہ کا روڑا ہی سمجھتی رہی۔ اس نے بے نظیر بھٹو کے مدمقابل ان کے بھائی کو لا کھڑا کیا۔ کراچی کو ایم کیو ایم کے زریعے لاقانونیت اور بدامنی کی نذر کردیا اور پھر بے نظیر بھٹو کو میر مرتضٰی کا قاتل بناکر پیش کیا اور ستم بالائے ستم اس کے اپنے بنائے صدر کو بروٹس بنا ڈالا۔
پی پی پی کے تنظیمی عہدے دار اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، ٹکٹ ہولڈر آس دوران پہلے سے کہیں زیادہ نوکریاں بیچتے، ٹھیکے حاصل کرتے اور ککس بیکس و کمیشن لیتے پائے گئے۔ ڈیڑھ لاکھ نوکریوں میں بمشکل دو ہزار نوکریاں ہی ایسی ہوں گی جنھیں بیچا نہ گیا ہو۔ یہی وجہ ہے جب حکومت گئی تو پی پی پی کی قیادت غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو رہی تھی۔ اس کی برطرفی کے اگلے دن جب بے نظیر بھٹو اسلام آباد پریس کانفرنس کرنے پہنچیں تو وہاں سو کارکن بھی موجود نہیں تھے۔ بے نظیر بھٹو نے دوران پریس کانفرنس عوامی حکومت کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ نوکریاں دیے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے برطرفی پر عوام کی طرف سے کوئی بڑا ردعمل نہ آنے پر اظہار شکوہ کیا تو کچھ صحافی بولے کہ اپنے وزیر مشیر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے پوچھیں کہ نوکریاں دی تھیں کہ بیچی تھیں۔ اگلے تین سال سخت انتقام اور بدلے کے تھے جو بالآخر ان کی خودساختہ جلاوطنی کی شکل میں نکلے۔ ان کی کارکن تک رسائی بالکل ختم ہوگئی۔ ملک میں مارشل لاء لگا اور نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکہ کی دلچسپی پاکستان میں پیدا ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے اس دور میں ایک بار پھر امریکی مقتدر حلقوں کی جانب دیکھا اور ایک بار پھر انھیں امید ہوئی کہ اب امریکی انھیں ملک میں ملک میں اقتدار حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور نواز شریف ماضی سے سیکھ کر ان کے ساتھ مل کر سویلین بالادستی کا راستا آسان کرے گا۔ لیکن یہ راستا انھیں زندگی سے محروم کر گیا۔
پیپلزپارٹی کی جمہوری جدوجہد میں عوام سے مل کر لڑنے کی روایت سے دستبردار ہونے کا عمل اور سمجھوتے سے اقتدار میں شریک ہونے کا عمل اسے روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح ایک پاور پالیٹکس کرنے والی جماعت میں تبدیل کر گیا۔

