Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Peoples Party Ki Qayadat Ka Almiya

Peoples Party Ki Qayadat Ka Almiya

پیپلز پارٹی کی قیادت کا المیہ

کہتے ہیں، "عذر گناہ بدتر از گناہ "۔ پی پی پی پی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منیزے جہانگیر کو ایک انٹرویو کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ کسی بھی سیاسی کارکن یا شہری کا احتجاج کرنا بنیادی حق ہے لیکن روڈ بلاک کرنے یا قانون ہاتھ میں لینے پر مجبوری بن جاتی ہے حکومت کی کہ وہ ایسے سیاسی کارکن کو گرفتار کرے چاہے وہ خاتون ہی کیوں نہ ہو۔

بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان نے ان کی ایک سرمایہ دارانہ سوشل ڈیموکریٹک سیاست دان کے امیج کو اور زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وہ دن بہ دن مزاحمتی، اینٹی سٹیٹس کو، لیفٹسٹ، سوشلسٹ پاپولسٹ، عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے والے بورژوازی سیاست دان کا امیج تو بتدریج کھو رہے ہیں۔ ان کے اس بیان نے انھیں خود پیٹی بورژوازی طبقے کے اندر مزاحمتی سوچ رکھنے والے نوجوانوں میں مزید غیر مقبول بنادیا ہے۔

اس بیان نے ایک اور "عذر" کا جواز بھی کھو دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں پولیس اور رینجرز کی عوامی احتجاج پر پرتشدد اور سخت گیر کاروائیوں پر عام تاثر یہ دیا کہ پولیس اور رینجرز ان دونوں کے حکام بالا ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور وہ ایسی کاروائیاں مرکزی حکومت یا اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر کرتے ہیں۔

اب بلاول بھٹو صرف سندھ میں انتظامیہ کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سماجی گروہوں کے عوامی احتجاج پر پولیس تشدد کا جواز ہی فراہم نہیں کر رہے بلکہ وہ بلوچستان انتظامیہ کے جبر اور تشدد کا بھی جواز لنگڑے لولے عذر سے تلاش کر رہے ہیں جہاں پر سب کو پتا ہے کہ صوبائی حکومت ہو یا صوبائی ایڈمنسٹریشن اور اس کی ماتحت ضلعی ایڈمنسٹریشن ہوں وہ سب کی سب فوجی جرنیل شاہی کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں ریاستی اداروں کی لاقانونیت، جبر، آئین اور قوانین کی پامالی ہی "قانون" بن چکی ہے۔

بلوچستان کے عوام بلاول بھٹو سے پوچھ سکتے ہیں کہ جس صوبے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق گزشتہ سال 14 ہزار بلوچ جبری لاپتا ہوئے ہوں، 400 سے زائد افراد ماورائے عدالت قتل کردیے گئے ہوں، جہاں پر آزادی تقریر و تحریر و قانونی اجتماع کے حقوق بری طرح سے پامال ہورہے ہوں، جیل میں سیاسی اسیر خواتین پر بہیمانہ تشدد روا رکھا گیا ہو۔ درجنوں سیاسی کارکن، طالب علم، خواتین، شاعر، ادیب اور دانشور تھری ایم پی او کے تحت نظر بند کردیے گئے ہوں۔ درجنوں انسانی حقوق کی رضاکار خواتین ہر انسداد دہشت گردی ایکٹ، بغاوت جیسے جھوٹے الزامات کے تحت درجنوں مقدمات درج ہوں وہاں پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنا یا کسی سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ جانا ایسا جرم ہے جس پر تھری ایم پی لگائی جائے، تشدد کیا جائے اور پھر جو وکلاء ان اسیر خواتین و مرد کے مقدمات کی پیروی کریں ان پر بھی دہشت گردی، بغاوت اور غداری کے مقدمات کا اندراج کیا جائے۔ ان کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مارے جائیں۔ نامعلوم افراد انھیں تشدد کا نشانہ بنائیں؟

بلاول بھٹو زرداری نے "عوامی ایجی ٹیشن" کی سیاست کو "قانون کو ہاتھ میں لینے اور سڑک بند کرنے کو "جرم" بتاکر اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کی ماورائے آئین و قانون اقدامات، ظلم، جبر، استبداد، نوآبادکارانہ طرز حکمرانی اور سب سے بڑھ کر بلوچ قوم کی نسل کشی تک پہنچنے والے جرائم کا دفاع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ انھوں نے خود پاکستان پیپلز پارٹی کی مزاحتمی سیاست کی تاریخ پر بھی پانی پھیر دینے کی کوشش کی ہے جس کا شاید انھیں احساس تک نہ ہو۔

اس پارٹی کے پہلے اور بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف چلنے والی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحتمی عوامی ایجی ٹیشن کی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس تحریک کے دوران سڑکوں کو احتجاج کے دوران ٹائر جلاکر، رکاوٹیں کھڑی کرکے بلاک کرنا، پولیس، فوجی اور نیم فوجی دستوں پر پتھراو کرنا یہ تو بہت معمولی اقدامات تھے۔ ان دنوں ریلوے ٹریک بلاک کردیے جاتے تھے، سرکاری اداروں میں نہ صرف ہڑتال ہوتی بلکہ ریلوے اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز اور دیگر عملہ ہڑتال پر جلا جاتا تھا۔ ایوان صدر اور جی ایچ کیو کی بجلی اور ٹیلی فون لایئنز کاٹ دی گئیں۔ سگنل سسٹم جام کردیا گیا۔ تاریخ گھروں دے پیغام رسانی بند کردی گئی۔ جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، کارخانوں کا کنٹرول مزدوروں نے سنبھال لیا۔

جب کاروبار حکومت اور معشیت کا پہیہ بالکل جام ہوگیا تو ایوب خان نے مجبور ہوکر ایک گول میز کل جماعتی کانفرنس بلائی۔ اس دعوت مذاکرات کو کمبائنڈ ڈیموکریٹک اپوزیشن۔ سی او ڈی نے قبول کرلیا۔ دو جماعتیں ایسی تھیں جنھوں نے جاری ایجی ٹیشن ختم کرنے سے انکار کردیا۔ ایک بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی اور دوسری ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی۔ کیونکہ ملک بھر میں مزدور، کسان، طالب علم، شہری درمیانے طبقے کے ریڈیکل دانشور پرت صحافی، وکلاء، پروفیشنلز ایجی ٹیشن جاری رکھنے کے حق میں تھے اوربھٹو و بھاشانی اس بات کو اچھے سے جانتے تھے کہ اگر وہ بھی ایجی ٹیشن سے دستبردار ہوئے تب بھی عوامی تحریک جاری رہے گی۔ یہ عوام کی امنگوں کو پہچاننے اور عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے کی صلاحیت کا اظہار تھا۔

شیخ مجیب الرحمان جنھیں سی او ڈی کے مطالبے پر اگر تلہ ساذش کیس سے بری کیا گیا اور رہائی دی گئی وہ مشکل سے چار ماہ ہی مذاکرات کی حامی سی او ڈی کے ساتھ گزار سکے اور جب وہ واپس مشرقی بنگال گئے اور وہاں انھوں نے عوام کا مزاج اور احتجاجی مزاحمتی رنگ دیکھا تو وہ سی او ڈی سے الگ ہوگئے اور عوامی لیگ بھی ایجی ٹیشن چھوڑنے سے انکاری ہوگئی۔

مغربی پاکستان میں بائیں بازو اور قوم پرستوں کے بہترین، جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاسی کارکنوں کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی۔ نیپ جس کی قیادت ولی خان کر رہے تھے اور اس پارٹی کے زیر اثر ملک بھر میں موجود مزدور ٹریڈ یونینز۔ سی بی ایز، کسان کمیٹیوں کے تنظیمی عہدے دار تھے اس نے جب ایجی ٹیشن سے الگ راہ اختیار کی تو حال یہ ہوا کہ ریلوے، واپڈا، پی ٹی سی ایل، ٹیلی گراف، سرکاری و غیر سرکاری صعنتی اداروں میں اس کی منتخب ٹریڈ یونین قیادت کی جانب سے ہڑتال کی مخالفت کو عام محنت کشوں نے نہ مانا اور پاکستان کی کامیاب ترین مزدور ہڑتالیں سامنے آئیں اور یہ جماعت خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں اپنی حمایت مزدوروں اور کسانوں میں ہی نہیں بلکہ طلباء اور درمیانے طبقے کے ترقی پسندوں میں بھی کھو بیٹھی۔ جبکہ اس جماعت کے اندر شامل صوبہ سرحد کے خوانین اور بڑے قبائلی سرداروں کی جانب سے بے زمین کسانوں کی تحریک کو دبانے کی کوشش نے اسے بے زمین کسانوں اور مزارعوں میں بھی غیر مقبول کیا۔

صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پی پی پی کو جو حمایت میسر آئی وہ انہی بے زمین کسانوں کی تحریکوں کے مرکز والے اضلاع تھے۔ پھر نوجوان طالب علموں کی ایک معتدبہ تعداد بھی بھٹو سے جاملی۔ بلوچستان میں بلوچ طلباء کی سب سے طاقتور اور منظم و مقبول تنظیم میں تقسیم ہوئی اور بی ایس او۔ اینٹی سردار گروپ سامنے آیا جس کی قیادت رحیم بلوچ کر رہے تھے اور اس نے بھٹو کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ صوبہ سرحد میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف تقسیم ہوئی پشاور شہر سے پختون نوجوان طلباء میں مقبول اپنے وقت کے کئی نامی گرامی طالب علم رہنماء پی پی پی کے حامی ہوگئے جو ایوب خان کے خلاف صوبہ سرحد میں طلباء کی ایجی ٹیشن کی قیادت کر رہے تھے ان میں قمر عباس، مسعود کوثر، لیاقت شباب اور درجنوں ایسے طالب علم رہنما تھے جو بعد میں صوبہ سرحد میں پی پی پی کے ممتاز رہنما قرار پائے۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے حق نواز گنڈا پور کی قیادت میں سیاسی ورکرز کی بہت بڑی تعداد جو نیپ-ولی سے وابستہ تھی پی پی پی میں شامل ہوگئی۔ ایوب خان کے خلاف کراچی سے طلباء تحریک اور ایجی ٹیشن کو منظم کرنے والے این ایس ایف کے سرکردہ رہنماء جن میں معراج محمد خان سب سے زیادہ مقبول تھے ان کی قیادت میں سندھ اور پنجاب کے شہروں سے نوجوان طالب علموں نے بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھٹو کا این ایس ایف، ڈی ایس ایف، این ایس او کی جانب سے جاری طلباء ایجی ٹیشن کی حمایت تھی۔

حکومت کی نظر میں ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے والے طلباء، مزدور، کسان یہ سب کے سب قانون شکن، ملک دشمن، سوویت یونین اور بھارتی ایجنٹ تھے۔ دائیں بازو کی سیاسی مذھبی جماعتوں کی نظر میں یہ لادین، اسلام دشمن تھے۔ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں انھیں تخریب کار اور دہشت گرد، کے جی بی کے ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا۔ سڑک بلاک کرنا اور دھرنا دینا، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنا تو بہت معمولی سے جرم تھے۔ ایوب خان رجیم نے درجنوں طالب علم رہنماوں، ٹریڈ یونین لیڈروں اور کسان رہنماوں کو نہ صرف نظر بند کیا بلکہ انھیں سزائیں بھی دلوائیں۔ پیپلزپارٹی کے درجن بھر سرکردہ رہنماوں نے 1971ء کا انتخاب بھی جیلوں سے لڑا اور وہ کامیاب ہوئے۔

پیپلزپارٹی نے ایجی ٹیشن کی سیاست جنرل ضیاء الحق کے 11 سالہ دور حکومت میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں کی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران درجنوں بار ریلوے ٹریک کو بلاک کیا گیا۔ سڑکیں بلاک کی گئیں۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی تو قریب قریب روز ہی ہوا کرتی تھی۔ پی پی پی کی قیادت نے ایک دن بھی سڑکیں اور ریلوے ٹریک بلاک کرکے احتجاج کرنے کو کبھی "لاقانونیت" قرار نہیں دیا۔

یہاں تک کہ پی پی پی کی قیادت نے میر مرتضٰی بھٹو کی بنائی الذوالفقار کی مسلح جدوجہد کو بھی کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا اگرچہ اس حکمت عملی سے برملا اختلاف کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1990ء سے 1993ء کے دوران کئی بار احتجاج کی کال دی۔ آس دوران سڑکوں پر ٹائر جلاکر سڑکیں بلاک کی گئیں اور 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ نے شاہراہ دستور کو پارلیمنٹ کے سامنے بلاک کردیا جسے کھلوانے کے نام پر نواز شریف کی حکومت نے دھرنے کے شرکاء پر بدترین تشدد کیا۔

سن 1998ء میں جب پاکستان عوامی اتحاد کی تشکیل ہوئی اور جو بعد میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنا تو بے نظیر بھٹو نے پنجاب۔ سندھ کی سرحد پر قومی شاہراہ پہ ایک بڑے احتجاجی دھرنے میں شرکت کی جس نے کئی روز بین الصوبائی آمد و رفت کو معطل کردیا۔ ریلوے ٹریک بلاک ہوا۔ نوے کی دہائی میں اینٹی کالا باغ لانگ مارچ میں شہید بی بی شریک ہوئیں اور پنجاب۔ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ اور ریلوے ٹرینوں کی آمد و رفت روک دی گئی۔ اسی کی دہائی میں ہی جنرل ضیاء الحق نے جب کالاباغ ڈیم بنانے کا منصوبہ پیش کیا تو اس کے خلاف زبردست ایجی ٹیشن ہوئی۔

فوج کو گوٹھ اور قصبوں میں داخلے سے روکنے کے لیے روڈ بلاک کیے گئے۔ احتجاجی دھرنے دیے گئے۔ اس دوران جو گرفتاریاں ہوئیں پی پی پی کی قیادت ان کی شدید مذمت کرتی رہی۔ جنرل ضیاء کی حکومت ان دنوں سندھ کے ایم آر ڈی کے کارکنوں کو ڈاکو، دہشت گرد، تخریب کار کہہ کر یا تو جعلی مقابلوں میں مارتی رہی یا ان پر ڈکیتی، دہشت گردی کے مقدمات قائم کرکے نظر بند کرتی رہی اور سزائیں سناتی رہی۔ ان الزامات کو جنرل ضیاء الحق کی حامی جماعتیں اور سیاست دان سچ مانتے تھے لیکن پی پی پی کی قیادت نے انھیں کبھی تسلیم نہیں کیا۔

کمیونسٹ پارٹی پاکستان اور سندھ ڈیموکریٹک اسٹودنٹس فیڈریشن کے رہنماوں بشمول جام ساقی، نثار پنھور اور دیگر پر مارشل لاء حکومت نے دہشت گردی، بغاوت، ملک دشمنی، راء کی ایجنٹی جیسے بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمہ چلایا تو بے نظیر بھٹو ان کی صفائی میں بیان دینے کے لیے ملٹری کورٹ میں پیش ہوئیں۔

جنرل مشرف کے 8 سالہ دور میں اے آر ڈی کے کارکنوں نے سینکڑوں بار روڈ بلاک کیے۔ ٹرینوں کا راستا روکا لیکن شہید بی بی نے کبھی سیاسی کارکنوں کو قانون شکن قرار نہیں دیا۔

بلاول بھٹو نے جو کچھ بلوچ خواتین رہنماوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے جواز میں کہا وہ پیپلزپارٹی کی اپنی اس جمہوری جدوجہد کی نفی ہے جس پر وہ بھی جلسوں میں تقریروں کے دوران فخر کرتے رہے۔

بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان کا عام سیاسی کارکن جو طبقہ اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا یہ بھی یاد کراتا ہے کہ وہ کراچی میں مریم نواز شریف کے کمرے میں پولیس کے داخلے اور انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کو قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر عمران حکومت کی "بے غیرتی" قرار دیتے پائے گئے تھے لیکن انھوں نے بلوچ خواتین سے سندھ اور بلوچستان پولیس کی بدسلوکی اور ان پر تشدد کا جواز تلاش کیا انھیں قانون شکنی کا مرتکب قرار دیا۔ وہ پی ٹی آئی کی خواتین کارکنوں کے ساتھ ہوئی بدسلوکی پر خاموش رہے اور ان کے اندھے مقلد یہ کہہ کر اس خاموشی کا جواز تلاش کرتے رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماء بھی تو فریال تالپور اور دیگر پی پی پی کی خواتین سے ریاستی بدسلوکی پر خاموش رہے تھے۔ برسبیل الزام ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ بلوچ خواتین ایکٹوسٹ پر ہوئے ظلم کا وہ کیا ایسا کوئی جواز اپنی خاموشی کا لاسکتے ہیں؟ اب تو وہ محض خاموش ہی نہیں رہے بلکہ اس بدسلوکی کا جواز تک پیش کر رہے ہیں۔

پی پی پی نے عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسٹبلشمنٹ کی آمریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جبر، ظلم، آئین شکنی اور لاقانونیت پر جس طرح سے پہلے خاموشی اختیار کی اور پھر 2024ء کے انتخابات میں بلوچستان میں ایک غیر منتخب اور غیر جمہوری حکومت کو اپنا نام دیا اور اب اس کے مظالم کا دفاع کر رہی ہے اس نے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی رائٹ ونگ پاپولسٹ سیاست کو مقبول بنایا، بلوچستان میں اور کے پی کے میں بلوچ یک جہتی کمیٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت میں مقبول عوامی تحریکوں سے اس کی علیحدگی اور ان تحریکوں پر جبر روا رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملانے نے اسے ان دونوں صوبوں کی سیاست سے باہر کردیا۔

پنجاب اور وفاق میں نجکاری، کسانوں کا بھرکس نکالنے والی اور سیاسی و شہری آزادیوں کو سلب کرنے والی، صحافیوں اور وکلاء پر کالے قوانین کے ذریعے مقدمات بنانے والی عوام دشمن مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد بنانے اور اس کے خلاف لیفٹ ونگ پاپولسٹ سیاست ترک کرنے کے عمل نے اسے انتخابی سیاست میں رنر آپ کے درجے سے نکال کر ایک غیر مقبول سیاسی جماعت میں بدل دیا ہے۔ وہ پنجاب کے نوجوانوں کی اکثریت کے نزدیک ایک قابل نفرت جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

سندھ میں اس نے جس طرح سے کینالز ایشو پر عوامی بے چینی کو نظر انداز کیے رکھا اور اس نے جیسے خود کو اس ایشو پر ابھرنے والی عوامی تحریک سے الگ کیا اور جب یہ احتجاج پھیل گیا تب اس نے اپنی پارلیمانی قوت کو استعمال کیا اس نے بھی سندھ میں ایک بہت بڑے حلقے کو مایوس کیا ہے۔ سندھ میں رجعت پرست سیاسی طاقتیں، قوم پرست سیاسی جماعتیں اس کی بے نیازی اور موقعہ پرستانہ روش کے سبب عوام میں خود کو دوبارہ زندہ کرنے کے قابل ہوئی ہیں۔

پیپلزپارٹی پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کے سرمایہ دارانہ اور بزنس وینچرز کے ساتھ مطابقت پذیری کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے اس نے پاکستان بھر کے مزدوروں، کسانوں، شہری و دیہی غریبوں اور نوجوانوں کی اکثریت کو اس سے بے گانہ کردیا ہے۔ سب سے زیادہ وہ بلاول بھٹو زرداری کی ہائبرڈ رجیم سے مطابقت میں ڈھلے ہوئے سیاسی بیانات سے مایوس ہوئے ہیں۔

پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت پاکستان میں دائیں بازو اور قوم پرستانہ پاپولسٹ سیاست کے رجحان کی مقبولیت کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔ اس کی مصلحت کوشی اور بدترین موقعہ پرستانہ سیاست نے دائیں بازو اور قوم پرستانہ پاپولسٹ سیاست کو موجودہ بورژوازی ہائبرڈ رجیم کے ظلم، جبر، ستم اور غیر جمہوری اور غیر اعلانیہ مارشل لاء کا متبادل بننے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے عام کارکن کی نظر میں بھی احترام کھو چکی ہے۔ اس نے بروکرز، ٹھیکے دار مافیا، رئیل اسٹیٹ مافیا، کمیشن خور مینجرز کو پارٹی کی تنظیموں پر مسلط کیا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو عوام کی طاقت کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے ذریعے سے ملک کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔

سندھ میں دائیں بازو اور قوم پرست پاپولسٹ سیاست ان کی مفاد پرستی اور مصلحت کوشی کے سبب میر مرتضٰی بھٹو کے بیٹے ذوالفقار جونیئر کو بھٹو کی سیاست کا حقیقی وارث بناکر پیش کر رہی ہے اور ماضی کے برعکس سندھ کی پیٹی بورژوازی پرتوں میں ہی نہیں بلکہ عام سندھی میں بھی اسے بطور متبادل کے دیکھا جارہا ہے۔ حالیہ اینٹی کینال تحریک میں شامل قوم پرستوں اور پی ٹی آئی اور جے یو آئی جیسی مذھبی جماعتوں نے اسی پہلو پر زیادہ زور دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اس نازک ترین مرحلے پر خود احتسابی کی صلاحیت سے عاری نظر آرہی ہے۔ وہ اپنی پارٹی میں نو جاگیرداری، سرمایہ داری، نوابیت، اشرافیہ کے غالب رجحانات کے خلاف کوئی بھی اصلاح پسندانہ اقدام اٹھانے سے قاصر ہے۔ آنے والے دنوں میں اسے لیاری، ملیر، لاڑکانہ سے دائیں سمت اور قوم پرستانہ پاپلوسٹ رجحان سے سخت سیاسی چیلنج درپیش ہوں گے اور وہ سندھ کی ابھرتی ہوئی پیٹی بورژوازی نوجوان پرتوں، کسانوں اور ہاریوں کے ایک اچھے خاصے سیکشن کی حمایت سے محروم ہوتی نظر آرہی ہے۔

سندھ کی یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ اور نوجوان وکلاء کی بہت بڑی تعداد قوم پرستانہ ریڈیکل سیاست کی طرف جھکاو کرتی نظر آرہی ہے یہ پیپلزپارٹی کی اشراف پرستانہ سیاست کا ایک ردعمل ہے۔ پیپلزپارٹی اسٹبلشمنٹ اور نواز لیگ کے ساتھ اشتراک اور تعاون کا بہت بڑا نقصان اٹھاچکی ہے کیونکہ وہ صرف اپنی پارٹی کے اشرافیہ اور دلال بروکرز کے مفادات کے مطابق اپنی سیاسی پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے۔ اسے عوامی مفادات کے مقابلے میں مجید انور جیسے سرمایہ داروں کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed