Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Peoples Party Ke Zawal Ke Asbab

Peoples Party Ke Zawal Ke Asbab

پیپلز پارٹی کے زوال کے اسباب

پیپلز پارٹی میں سرگرمی سے گزارے کم و بیش 35 سال اور اس سے وابستگی کے 44 سالوں میں مجھے بارہا یہ تجربہ ہوا کہ اس پارٹی پڑھے لکھے درمیانے اور سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشتر کارکنوں میں جب کبھی پارٹی کے اندر اصلاح کا قدم اٹھانے کے لیے تنظیمی اسٹبلشمنٹ کے خلاف منظم ہوکر لڑائی شروع کی اور جو اس محاذ کے سرکردہ لوگ ابھر کر سامنے آئے وہ پارٹی قیادت کے قریب کسی ممتاز شخصیت کی قربت ملنے پر فوری اس لڑائی سے الگ ہوگئے اور نمک کی کان میں نمک بن گئے۔

1986ء میں پارٹی کے اندر ضیاء الحقی سیاست کے علمبردار سرمایہ داروں اور زمیندار اشرافیہ کو جنھیں عرف عام میں "پجارو گروپ" کہا جاتا تھا پارٹی میں شامل کرکے انھیں پنجاب میں آئندہ کے ٹکٹ ہولڈر بنائے جانے کے رجحان کے خلاف لڑائی شروع کی گئی اور اس تحریک کا نعرہ تھا "ضیاء بھی مارے، تم بھی مارو۔ ہائے پجارو، ہائے پجارو"۔۔ یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے اکثر شہروں اور قصبوں میں مقبول ہوگئی۔ لیکن اس تحریک کے اکثر و بیشتر لوگ دیکھتے ہی دیکھتے خود کسی نہ کسی پجارو پر سوار ہوگئے۔ کچھ نے غالب موقعہ پرست گروپوں کے چھوٹے بڑے ممتاز لیڈروں کی جانب سے ساتھ رکھنے کی پیشکش کو غنیمت سمجھا اور تنظیم میں چھوٹے موٹے عہدے قبول کرلیے اور یوں یہ تحریک دیکھتے دیکھتے دم توڑ گئی۔

اصل میں 88ء سے 1997ء تک پنجاب کی پارٹی سیاست میں سارا زور اس بات پر صرف ہوتا رہا کہ کس نے ضیاء کے خلاف تحریک میں کتنی تکلیف اٹھائی اور اسے کیا ملنا چاہئیے۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویز، اس کے بنیادی نعروں اور نصب العین کے گرد پارٹی کے اندر کوئی محاذ بنانے کی کسی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے کو نہیں ملی۔ پارٹی کو جن ونگز اور محاذوں نے نوجوان سرگرم نظریاتی قیادت فراہم کرنا تھی انھیں تباہ و برباد کردیا گیا اور ہر طرف مراعات حاصل کرنا اور چھوٹے بڑے مفادات کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی۔ پتا ہی نہیں چلا کہ کب پارٹی ضیاء الحقی سیاست کے علمبرداروں سے بھر گئی۔

پارٹی کے ورکرز کی صرف ایک ہی ڈیوٹی رہ گئی تھی کہ وہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ہیوی ویٹ تین چار طاقتور گھرانوں میں سے جو پارٹی میں شامل ہو اس کے ایجنٹ بن کر ان کی انتخابی کمپئن چلائیں اور ان کی قربت حاصل کرکے جو حاصل ہو اس پر قانع رہیں۔ جب پارٹی اقتدار سے باہر ہو اور ہیوی ویٹ پرواز کر جائیں تو پارٹی کے کارکن اس کی غداری اور بے وفائی پر اسے لعن طعن کریں اگلا الیکشن آئے اور پارٹی کے اقتدار میں آنے کا امکان ہو تو وہی محسن کش، غدار، بے وفا پھر پارٹی میں شامل ہوں اور ٹکٹ لے لیں تو یہی کارکن پھر ان کے نعرے ماریں، ان کی کوٹھی کا طواف کریں، ان کی پجارو پر سوار ہوں اور ان کے لیے ووٹ مانگیں۔

یہ پیرا شوٹرز تھے جو اپوزیشن کے دنوں میں بھاگ جاتے اور اقتدار کے دنوں میں پھر آجاتے۔ مرکزی قیادت بھی انھی کی کوٹھیوں میں جاکر مہمان بنتی اور یہ جسے چاہتے ملنے دیتے جسے چاہتے اسے بھگا دیتے۔ جب یہ سمندر جیسی پارٹی ندی بنی اور پھر سکڑ کر نالی بن گئی تو جو جاگیردار اور سرمایہ دار اپنے مقامی سیاست لی مجبوریوں کے سبب اس پارٹی میں رہے کیونکہ دوسری جانب ان کے حریف قابض تھے تو وہ پارٹی کو یہ جتاتے کہ اگر وہ نہ ہوں تو اس پارٹی کے پلے کیا ہے؟ جیسے آج کل گیلانی، مخدوم کہتے پھرتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے درمیانے طبقے کے کارکنوں کی موقعہ پرستی نے اس پارٹی کا بیڑا غرق کیا اور اس کی ذمہ دار خود پارٹی کی مرکزی قیادت ہے جس نے قومی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اتنے کمپرومائز کیے کہ پارٹی کی جو سوشل ڈیموکریٹک روح تھی وہ فنا ہوکر رہ گئی۔ پنجاب میں آج ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جو کبھی پیپلزپارٹی کا نہ ختم ہونے والا ووٹ بینک کہلاتے تھے اور اس گھرانے کے سربراہ کی شناخت پیپلزپارٹی تھی آج ان گھرانوں کے 18 سے 25 سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں پاکستان تحریک انصاف کا اسٹف ہیں اور یہ پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف ضیاء الحقی پروپیگنڈا فیکٹری میں تیار کیے گئے جھوٹ کو "حتمی سچ " اس لیے مانتے ہیں کہ اس پارٹی کی تنظیمی اور پارلیمانی اسٹبلشمنٹ ان سب جرائم کی مرتکب ہے جس کو کرنے کا الزام ناحق پیپلزپارٹی کی پرانی قیادت پر عائد کیا جاتا رہا۔

پیپلزپارٹی کی تنظیمی اور پارلیمانی اسٹبلشمنٹ نے جس روز سے پنجاب میں نواز شریف کی سیاست کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی اور اس پہ عمل پیرا ہوئی اسی روز سے اس پارٹی کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ جس روز پنجاب کے مزدور، کسان اور نوجوان طالب علموں کو پی پی پی اور نواز لیگ میں کوئی فرق محسوس نہ ہونا شروع ہوا اسی روز سے ان تینوں طبقات کی غالب اکثریت غیر سیاسی ہونا شروع ہوئی اور اس نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینا بند کردیا۔

پیپلزپارٹی نہ تو میڈیا ٹرائل سے تباہ ہوئی، نہ انتقامی کاروائیوں سے کمزور ہوئی نہ اسے فوجی اسٹبلشمنٹ کی انجنئیرنگ تباہ کرسکی۔ وہ اس روز تباہ ہوئی جب اس نے پنجاب کے شہری اور دیہی غریبوں کا مقدمہ لڑنا بند کردیا اور اس نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ مفاہمت کرلی۔ پیپلزپارٹی کی آج کی تنظیمی اور پارلیمانی اسٹبلشمنٹ ضیاء الحق کا کچرہ اور کوڑا کرکٹ ہے اسے شرافت رانا جیسے رضاکاروں کا یوٹوپیائی گھڑا ہوا جعلی بیانیہ جسے پر اس پارٹی کی تنظیمی اور پارلیمانی اسٹبلشمنٹ خود یقین نہیں رکھتی عوام میں مقبولیت نہیں دلا سکتا نہ ہی دلا پائے گا۔ اگر اس پارٹی کی تنظیمی اور پارلیمانی اسٹبلشمنٹ شرافت رانا جیسے بلامشروط اطاعت و غلامی کے پیکر سے ڈر لگا رہتا ہے تو تنقیدی اور سخت احتساب کرنے والے حریت فکرکے علمبرداروں سے یہ کتنا ڈرتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

یہ مسلسل زوال پذیر جماعت ہے جو سندھ میں بھی تیزی سے سندھی شہری اور دیہی غریب نوجوانوں میں غیرمقبول ہورہی ہے۔ سندھ میں کوئی ایماندار درمیانے طبقے کا دانشور، ادیب، شاعر اور سیاسی کارکن اس کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہے۔ وہاں تیزی سے نوجوانوں میں ریڈیکل سندھی قوم پرستانہ رجحان مقبول ہورہا ہے جبکہ بلوچستان میں تو اس پارٹی کے پاس سوائے اسٹبلشمنٹ کے خچروں اور گدھوں کے کچھ نہیں ہے جسے بلوچ نوجوانوں کی اکثریت اپنی نسل کشی میں پاکستان کے نوآبادیاتی حکمرانوں کے ساتھ شریک سمجھتے ہیں۔ کے پی کے میں اس کا حشر اے این پی جیسا ہی ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali