Friday, 07 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Peca Act

Peca Act

پیکا ایکٹ

29 جنوری 2025 پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور بدنما داغ رکھنے والے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ایوان صدر میں بطور صدر مملکت براجمان ایک ایسے شخص نے "انسداد الیکٹرانک جرائم ترمیمی ایکٹ" پر دستخط کیے جس نے پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے ہاتھوں بنا کسی مقدمے کے فیصلہ سنائے جانے اور اس میں سزا پانے کے بغیر 10 سال سے زائد قید کاٹی۔ اسے بخوبی پتا ہے کہ غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کیسے جعلی مقدمات بنواتی اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاتا ہے اور پھر ان سے مرضی کا بیان لینے کے لیے تشدد سمیت ر انسانیت سوز حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

ایوان صدر میں براجمان شخص بخوبی واقف ہے کہ اس کے خلاف جعلی خبروں، پروپیگنڈا اور دشنام ترازی پر مشتمل مواد ایوان کسی نجی جگہ پر تیار نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ مواد غیر منتخب ہئیت مقتدرہ سے تعلق رکھنے والے طاقتور کردار ہی تیار کرتے اور یہ اسکرپٹ کہاں سے آتے تھے وہ اچھے سے جانتے ہیں۔

ان کے خلاف پولو گھوڑوں کے مربع کھانے کا اسکینڈل ہو، فوزی علی کاظمی کے ساتھ ان کی مبینہ کرپشن کی کہانی ہو، جسٹس ریٹائرڈ نظام کیس ہو، منشیات کیس ہو، مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب ہو، سوئس اکاؤنٹس کیس ہو، کوٹیکنا کمیشن کیس ہو، سرے محل کیس ہو اور پھر میمو گیٹ کیس ہو یہ سارے کیس، کہانیاں اور ان کے اسکرپٹ کہاں تار ہوئے اور کیسے یہ اس زمانے کے پرنٹ میڈیا اور واحد سرکاری ٹیلی ویژن پر آن ائر کیے جاتے رہے اور پھر نجی ٹی وی چینلز کے سیلاب کے دوران ان کے خلاف پرائم ٹائم شوز میں کیسے فیک خبروں کا سیلاب آن آئر کیا جاتا رہا، وہ اس سب سے واقف ہیں۔

یہ ہماری غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ہے جس نے پاکستان بننے کے بعد سے جمہوریت کو رائج ہونے سے روکنے اور پہلے سول - فوجی اور پھر "فوجی - سول" افسر شاہی کی بالادستی کے لیے جمہوریت پسند سیاست دانوں، وکلاء، صحافی، مزدور اور کسان رہنماؤں کی کردار کشی کی۔ ان کے خلاف جھوٹے قصّے پھیلائے۔ رائی کا پہاڑ بناکر دکھایا۔ آج بھی منظم خودساختہ اور کردار کشی پر مبنی میڈیائی اور سوشل میڈیائی پروپیگنڈے کا سب سے طاقتور مراکز کا تعلق غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے حالیہ اور سابقہ تیار کردہ پلیٹ فارمز اور گروہ ہیں۔

پاکستان کی 76 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اب تک بنائے جانے والے تمام پریس قوانین کا مقصد اور ان کا نفاذ ہمیشہ آزادی صحافت کو پابند سلاسل کرنے کے لیے کیا گیا۔ غیر منتخب ہئیت مقتدرہ اور ان کے منتخب اور چنے گئے لاڈلے سیاسی چہرے "معتوب قرار پائے" سیاست دانوں، وکلآہ، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، مزدور رہنمآؤں، کسان لیڈروں، طالب علم رہنماؤں کے خلاف ڈیپ سی فیک نیوز نیٹ ورک چلاتے آ رہے ہیں اور ان کے خلاف سے پہلے سے موجود کسی پریس تعزیزاتی قانون کے تحت کاروآئی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سن 1947ء سے 1958ء کے دوران، پبلک سیفٹی ایکٹ اور سیکیورٹی ایکٹ کا استعمال ایڈیٹروں، ناشرین اور پرنٹرز کی گرفتاری، ان کو سزا دینے یا ان کی اشاعتوں کو بند کروانے کے لیے کیا گیا، یا پریس قوانین کے ذریعے اخبارات کا گلا گھونٹنے کے لیے ان کے ڈیکلریشن منسوخ کر دیے گئے۔ ان رجحانات کی نمایاں مثالیں درج ذیل ہیں:

مئی 1948 میں، روزنامہ امروز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور ناشر امیر حسین شاہ کو ایک کہانی شائع کرنے پر، جسے ایک ڈی ایس پی کی بدنامی قرار دیا گیا، سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح الواحد (سکھر) کو چھ ماہ کے لیے بند کر دیا گیا اور اس کے ایڈیٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔ روزنامہ سرحد (پشاور) کو سیفٹی ایکٹ کے تحت نشانہ بنایا گیا، اس کے ایڈیٹر کو گرفتار کرکے اس کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا۔

سن 1949ء میں، سول اینڈ ملٹری گزٹ کو ایک خبر شائع کرنے پر چھ ماہ کے لیے بند کر دیا گیا، جس میں کشمیر کی ممکنہ تقسیم کے بارے میں رپورٹ شامل تھی۔

1951 میں نواے وقت کیس نے یہ ظاہر کر دیا کہ ایک حکومت کسی اخبار کو تباہ کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔ پہلے اس کے پرنٹر کا ڈیکلریشن منسوخ کیا گیا، پھر پبلشر کا ڈیکلریشن بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد، اس کا نام کسی اور کو الاٹ کر دیا گیا اور جب اخبار الجہاد کے نام سے شائع کرنے کی کوشش کی گئی تو اسے بھی روک دیا گیا۔ کئی مہینوں بعد، ہائی کورٹ نے اس ذلت آمیز ڈرامے کو ختم کر دیا۔

روزنامہ انقلاب کو اشتہارات اور نیوز پرنٹ کوٹہ سے محروم کرکے بند ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ سیفٹی ایکٹ کا استعمال کرکے صفینہ (لاہور) کو ختم کر دیا گیا، جبکہ استقلال (کوئٹہ) کے ایڈیٹر مسٹر درانی کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی پاداش میں گرفتار کیے جانے والے صحافیوں میں احمد علی خان، ظہیر بابر، حمید ہاشمی، ممتاز حسین اور غیور الاسلام شامل تھے۔

ایوب خان کے دورِ حکومت (1958-69) میں مارشل لا کے فوری بعد امروز، لیل و نہار اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹرز احمد ندیم قاسمی، سبط حسن اور فیض احمد فیض کو قید کر دیا گیا۔ اپریل 1959 میں حکومت نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کر لیا، جو ان اخبارات کا ناشر تھا اور سیکیورٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے عدالتی بازپرس سے بچ گئی۔

ایوب حکومت نے پریس قوانین کو مزید سخت بنا دیا، پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس ایکٹ 1867 اور پریس (ایمرجنسی پاورز) ایکٹ کو یکجا کرکے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننسز 1960 اور 1963 کے تحت مزید سخت قوانین نافذ کیے۔

مارشل لا کے ضوابط کے تحت جن صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا، ان میں تنظیم کے محمد حسن نظامی اور کائنات کے ولی اللہ احد شامل تھے۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز (DPR) کے تحت شورش کاشمیری کو قید کیا گیا اور 1966-67 میں ان کے ہفتہ وار اخبار چٹان پر پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان ٹائمز کے سلامت علی کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔

یحییٰ خان کے دور (1969-71) میں مارشل لا ضوابط (MLRs) کے تحت پاکستان آبزرور کے نجیب اللہ اور شمس غنی اور آزاد کے عبداللہ ملک کو قید کیا گیا۔

بھٹو حکومت (1971-77) نے حسین نقی اور مظفر قادر (ہفتہ وار پنجاب پنچ)، الطاف حسین قریشی اور اعجاز حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ) اور مجیب الرحمان شامی (زندگی) کو قید کیا اور فوجی عدالت نے انہیں مستقبل میں ایڈیٹر، پبلشر یا پرنٹر بننے پر بھی پابندی لگا دی۔

ڈی پی آر (DPR) کے تحت نشانہ بننے والوں میں روزنامہ ڈان کے الطاف گوہر، روزنامہ سن (کراچی) کے صلاح الدین اور قاسم بگھیو (جسارت) شامل تھے۔ روزنامہ اعلان پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے ایڈیٹر محمد اختر کو حراست میں لے لیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق نے صحافت اور صحافیوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا۔ سو سے زائد صحافیوں اور کارکنوں کو فوجی عدالتوں نے قید کی سزائیں دیں، جبکہ چار صحافیوں - خاور نعیم ہاشمی، ناصر زیدی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان کو دس دس کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ پہلے تین صحافیوں کو فوراً کوڑے مارے گئے، جبکہ مسعود اللہ خان کو ان کی علالت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔

مساوات کے ایس جی ایم بدرالدین، ظہیر کاشمیری اور جمیل الرحمان کو MLR 33 کے تحت قید کی سزا دی گئی۔ صدقہ کے بشیر رانا، افتخار حسین اور مسلم کے ایاز امیر کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

ویو پوائنٹ کے مظہر علی خان اور حسین نقی اور معیار کے محمود شام کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر 1979 میں، جنرل ضیاء نے آدھا درجن اخبارات بند کر دیے اور تمام باقی اخبارات پر پیشگی سنسر شپ عائد کر دی، جو بعض کیسز میں 1983 تک جاری رہی۔ 1981 میں ویو پوائنٹ اور الفتح کے تقریباً تمام عملے کو گرفتار کر لیا گیا۔

سال 1988ء میں ضیاء حکومت کے خاتمے کے بعد، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور سندھ میں جام صادق علی کی حکومتوں نے بھی پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس (PPO) اور مینٹیننس آف پبلک آرڈر (MPO) آرڈیننس کے تحت اخبارات پر کنٹرول جاری رکھا۔

دہشت گردی کے خلاف قانون نواز شریف کے 1997ء کے دور میں (Anti-Terrorism Act) کے تحت دی نیوز کی ملیحہ لودھی، شکیل الرحمان اور سعید احمد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ کراچی کے پانچ ایوننگ اخباروں کے ایڈیٹرز پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 (ہتک عزت) کے تحت مقدمات درج کیے گئے اور جنوبی وزیرستان میں سیلاب محسود کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے تحت 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جنرل مشرف کی آمریت کے زمانے سے صحافت کو پابند سلاسل کیے جانے کے لیے ایک نیا کام صحافیوں کی جبری گمشدگی اور ان کا ماورائے عدالت قتل کیا جانا تھا۔ پھر نواز شریف کے 2013ء کے دور حکومت میں پہلی بار پیکا ایکٹ متعارف کرایا گیا اور یہ ایکٹ جب سے نافذ ہوا تب سے لیکر اب تک اس ایکٹ کو صحافت اور آزادی اظہار کو پابند سلاسل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور درجنوں صحافی جنہیں حکومتیں ناپسندیدہ قرار دیتی ہیں یا مقامی طاقتور مقتدرہ عناصر ناپسندیدہ بتاتے ہیں ان کے خلاف اس ایکٹ کا استعمال ہوتپا رہا ہے۔

نیا ترمیمی انسداد سائبر جرائم ایکٹ 2025ء زیادہ بڑے پیمانے پر صحافت کو پابند سلاسل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جس طرح سے صحافتی برادری سمیت سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر اور قومی اسمبلی و سینٹ میں مکمل بحث و مباخثے اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو دور کیے بغیر منظور کرایا گیا وہ بذات خود اس معاملے میں "بد نیتی" کے کار فرما ہونے کے شک کو یقین میں بدلتا ہے۔ پی پی پی سمیت حکومت میں شامل جمہوریت کی دعوے دار جماعتموں نے جیسے اس بل کو مںطور کرانے میں اپنے ممبران سے ووٹ دلوآغے وہ بھی بذات خود شرمناک عمل ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں پیکا ایکٹ میں تبدیلی کا مسودہ سامنے آیا تھا اور پی ڈی ایم -2 دور میں یہ قانون بن گیا۔

لکھنے اور بولنے کی آزادی کے حصول کی جدوجہد پاکستان جیسی نوآبادیاتی نوکر شاہی ڈھانچہ رکھنے والے ممالک میں کبھی بھی "پھولوں کی سیج" نہیں رہی۔ یہاں ریاستی و غیر ریاستی تشدد، قید و بند، ناجائز و غیرقانون کی نظر بندیاں، کوڑے، لاٹھی چارج، واٹر کینن حملے، کردار کشی کی گھٹیا مہم سب ہتھکنڈے لکھنے اور بولنے کی آزادی کی مانگ کرنے والوں کا مقدر بنے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں، شاعروں، ادیبوں، طالب علموں، مزدروں اور کسانوں کی باشعور سیاسی پرتوں نے طویل جدوجہد کرکے جتنی بھی لکھنے اور بولنے کی آزادی حاصل کی تھی اسے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں بیٹھے طاقتور گروہ جو اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب تھے یا ہیں مسلسل سلب کر رہے ہیں۔ یہ ہمیں واپس ہیں پی پی او، ایم پی او بلکہ ڈی پی آر و ایم ایل آر کے زمانوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

اس صورت حال کے خلاف صحافتی برادری میں سب سے زیادہ باشعور ترقی پسند جمہوری کیڈر اور افراد کو تحریک منظم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہوگا۔ دھرئے بندیوں سے اوپر اٹھ کر "آل پاکستان صحافی محاذ / آل پاکستان جرنلسٹس فرنٹ فار پریس فریڈم" کی تشکیل دینی ہوگی اور اس بینر کے نیچے ملک گیر تحریک چلانا ہوگی۔

Check Also

Aap Social Media Platforms Ke Zariye Kaise Kama Sakte Hain?

By Asma Imran