Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Pakistan Ki Muashi Namu Ki Barbadi Ka Haqiqi Villain Kon?

Pakistan Ki Muashi Namu Ki Barbadi Ka Haqiqi Villain Kon?

پاکستان کی معاشی نمو کی بربادی کا حقیقی ولن کون؟

پاکستان کا پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پچھلی نصف صدی سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتا رہا ہے جس میں پاکستان کی معاشی تباہی کا مرکزی ولن کبھی بھٹو کو قرار دیا جاتا ہے، کبھی بے نظیر بھٹو کو اور کبھی آصف علی زرداری کو۔ یہ بیانیہ پاکستان میں پروپیگنڈے کی اس طویل روایت کا حصہ ہے جس نے رائے عامہ کے ذہنوں میں یہ تاثر گہرا کر دیا کہ پیپلزپارٹی کا ہر دور بدانتظامی، کرپشن اور معاشی بربادی کی علامت تھا، جبکہ مسلم لیگ نواز کے ادوار کو گڈ گورننس، معاشی استحکام اور ترقی کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ لیکن جب ہم دعوؤں کے بجائے ڈیٹا کو دیکھتے ہیں، محکمہ شماریات پاکستان، سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار اوریوایس جی ڈی پی کی دہائیوں پر مشتمل ٹائم لائن، تو تصویر یکسر مختلف اور بالکل برعکس نظر آتی ہے۔

حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بھٹو کا دور وہ واحد دور تھا جب پاکستان کی یو ایس جی ڈی پی میں 38 فیصد تک کی غیر معمولی ریکارڈ گروتھ سامنے آئی، جو نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی اور نہ آج تک دوبارہ دہرائی جا سکی۔ اس حقیقت کو پاکستان میں ہمیشہ چھپایا گیا کیونکہ یہ اس پروپیگنڈے کو توڑتی تھی کہ بھٹو نے معیشت تباہ کی تھی۔

اسی طرح بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار کو میڈیا نے "بیڈ گورننس" کا لیبل دیا، لیکن چارٹ اور ڈیٹا ثابت کرتے ہیں کہ ان ادوار میں نہ کوئی تباہ کن معاشی انہدام ہوا اور نہ یو ایس جی ڈی پی میں کوئی ایسی گراوٹ آئی جو بحران کی علامت ہوتی۔ دوسری طرف اسی دہائی میں نواز شریف کے دوسرے دور میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پیدا ہونے والا شدید مالی بحران، جس میں یو ایس جی ڈی پی – 9.5 فیصد تک گری، میڈیا نے یا تو نظر انداز کر دیا یا اسے "قومی فخر" کے پردے میں چھپا دیا۔

2008–2013 کے پیپلزپارٹی دور کو میڈیا نے شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا، مگر ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے باوجود معیشت کسی بڑے انہدام کے بغیر آگے بڑھتی رہی۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نواز کے 2013–2017 کے دور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے روپے کو 100 روپے فی ڈالر پر مصنوعی طور پر منجمد رکھنے کی پالیسی نے پاکستان کی معیشت کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دیں، یہ پالیسی برآمدات تباہ کر گئی، درآمدات کو غیر حقیقی طور پر سستا کر گئی، کرنسی کو مصنوعی طاقتور بنا لیا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔ اس کا نتیجہ 2018–2019 میں سامنے آیا جب روپے کو آخرکار حقیقت کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑا اور یو ایس جی ڈی پی –11.6% اور –5.3% کی تاریخی گراوٹ کے ساتھ زمین بوس ہوگئی۔ یہی بحران 2021–2024 تک پوری شدت سے جاری رہا، جب پی ڈی ایم حکومت روپے کی تاریخی گراوٹ، آئی ایم ایف کے تعطل، سپر فلڈ، توانائی بحران اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آئی۔

یوں ڈیٹا کی روشنی میں سب سے بڑا اور حقیقی معاشی ولن پیپلزپارٹی یا بھٹو نہیں، بلکہ مسلم لیگ نواز کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ثابت ہوتے ہیں، جن کی مصنوعی شرح مبادلہ پالیسی، کرنسی کو غیر حقیقی طریقے سے روکنے اور معیشت کو کاغذی استحکام دینے کی کوششوں نے بعد کے پورے معاشی ڈھانچے کو دھماکے سے اڑا دیا۔ میڈیا نے دہائیوں تک بھٹو اور پیپلز پارٹی کو ولن بنا کر پیش کیا، مگر پاکستان کی معیشت کی 78 سالہ ٹائم لائن صاف بتاتی ہے کہ سب سے خطرناک، دیرپا اور تباہ کن فیصلے وہ تھے جنہوں نے معیشت کی بنیادی ساخت کو تباہ کیا اور یہ فیصلے اسحاق ڈار کے دور میں کیے گئے۔

مجموعی جائزہ (1959-2024)

پاکستان کی نامیاتی مجموعی قومی پیداوار (GDP) ڈالر کے اعتبار سے 1959 سے اب تک انتہائی غیر مستقل اور شدید اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ اس میں آنے والی بڑی اور تیز تبدیلیاں زیادہ تر اُن مواقع پر نمودار ہوتی ہیں جب ملک کسی جنگ سے گزرتا ہے، سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی کی جاتی ہے، عالمی معاشی بحرانوں کا دباؤ بڑھتا ہے، یا جب حکومتیں زرِ مبادلہ کی شرحِ تبادلہ کو مصنوعی طور پر قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ نتیجتاً یہ مجموعی معاشی نقشہ ایک ایسے رجحان کی عکاسی کرتا ہے جہاں بیرونی اور اندرونی سیاسی و معاشی جھٹکے مسلسل پاکستان کی اقتصادی سمت کو متاثر کرتے رہے ہیں۔

***

1960 کی دہائی، ابتدائی معاشی ترقی اور پہلے جھٹکے

1960 کی دہائی پاکستان کی معیشت کے لیے عمومی طور پر مثبت رجحانات کی حامل تھی اور بیشتر برسوں میں ڈالر کے اعتبار سے جی ڈی پی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا۔ صنعتی پھیلاؤ، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ریاستی سطح پر ترقیاتی منصوبہ بندی نے اس دور کو نسبتاً مضبوط معاشی بنیاد فراہم کی۔ تاہم 1965 کی جنگ نے پہلی بار معیشت پر نمایاں دباؤ ڈالا اور ترقی کی رفتار میں ایک واضح کمی آئی، مگر اس کے باوجود مجموعی شرحِ نمو مثبت رہی اور معیشت منفی زون میں داخل نہ ہوئی۔

دہائی کے آخری برسوں میں ایک حد تک اعتدال اور استحکام موجود تھا، لیکن یہ تو سن 1971 کے بڑے بحران کے آثار پہلے ہی نمایاں ہونے لگے تھے۔ سیاسی کشیدگی، داخلی انتشار اور معاشی سمت کے حوالے سے ابہام بڑھ رہا تھا، جس کے نتیجے میں مثبت ترقی کا یہ سلسلہ بتدریج سست پڑتا گیا اور پاکستان ایک بڑے معاشی اور سیاسی دھچکے کی طرف بڑھنے لگا، جو اگلی دہائی کے آغاز میں شدید تباہ کن صورت اختیار کر گیا۔

***

ابتدائی 1970 کی دہائی، 1971 کی جنگ کے بعد معاشی سقوط

1971 کی جنگ پاکستان کی معاشی تاریخ کے بدترین زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے فوراً بعد 1972 اور 1973 میں ڈالر کے اعتبار سے مجموعی قومی پیداوار بالترتیب –11.6 فیصد اور پھر –32 فیصد تک گر گئی، جو پورے ڈیٹا سیٹ کی سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ اس شدید سقوط کی بنیادی وجوہات میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے برآمدی بنیاد کا ٹوٹ جانا، کرنسی کی فوری ازسرِنو قیمت کا تعین، سیاسی بے یقینی اور ریاستی ڈھانچے کی کمزوری شامل تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی معیشت نہ صرف جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی بلکہ داخلی معاشی سمت بھی شدید طور پر بگڑ گئی۔

وسط تا اواخر 1970 کی دہائی، ریکوری اور بحالی کا مرحلہ

1973–74 کے شدید بحران کے بعد درمیانی سے اواخر 1970 کی دہائی میں ایک واضح معاشی بحالی دکھائی دیتی ہے۔ اس عرصے میں جی ڈی پی کی نمو بعض برسوں میں 38.7 فیصد تک پہنچ گئی، جو ایک غیر معمولی اچھال تھا۔ یہ بہتری عالمی کموڈٹی سائیکل میں تبدیلی، داخلی تعمیرِ نو کے عمل اور بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں اضافے کے نتیجے میں سامنے آئی۔ اس زمانے میں معیشت نے وقتی طور پر سانس ضرور لیا، لیکن یہ بہتری زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوئی کیونکہ بنیادی معاشی ڈھانچہ اب بھی کمزور تھا۔

***

1980 کی دہائی، محدود استحکام اور وقفے وقفے سے جھٹکے

1980 کی دہائی میں معیشت مجموعی طور پر مثبت نمو کی طرف مائل رہی۔ تاہم اس دہائی میں استحکام مکمل نہ تھا اور 1984 میں روپے کی 11.2 فیصد قدر میں کمی کے باعثیوایس جی ڈی پی میں –6.4 فیصد کی گراوٹ سامنے آئی۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی معیشت ڈالر کے مقابلے میں زرِ مبادلہ کی تبدیلیوں کے لیے کس قدر حساس رہی ہے۔ اگرچہ مجموعی ماحول نسبتاً بہتر تھا، مگر کرنسی اور بیرونی انحصار کی کمزوریاں مستقل طور پر سایہ فگن رہیں۔

***

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار کا تقابلی جائزہ، (چارٹ کے مطابق مربوط تجزیہ)

چارٹ کے مطابق بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار (1988–1990 اور 1993–1996) ایسے رہے جن میں ڈالر کے اعتبار سے مجموعی قومی پیداوار میں اعتدال پسند مگر غیر مستحکم ترقی دیکھنے میں آئی۔ ان برسوں میں شرحِ نمو کبھی سنگل ڈیجٹ اور کبھی درمیانی سطح تک پہنچتی رہی، مگر اس میں پائیداری کا فقدان نمایاں تھا۔ معیشت کسی بڑے انہدام یا شدید منفی جھٹکے سے دوچار نہ ہوئی، لیکن اس میں ایسی مضبوطی بھی پیدا نہ ہو سکی جو طویل مدتی ترقی کی بنیاد بن سکے۔ نوّے کی دہائی کے وسط میں بے نظیر اور نواز شریف دونوں نے برآمدات بڑھانے کے لیے کرنسی کی قدر میں کمی کی پالیسی اپنائی، جس نے وقتی برآمدی ترغیبات تو پیدا کیں لیکن اس سے ڈالر میں جی ڈی پی کی اتھل پتھل بھی بڑھی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی واقع ہوئی۔ 1994–95 کے دوران مثبت نمو ضرور سامنے آئی، مگر چارٹ بتاتا ہے کہ اس میں استحکام نہیں تھا اور نہ ہی یہ بہتری زیادہ دیر قائم رہی۔ یوں بے نظیر کے ادوار میں معیشت غیر مستحکم رہی لیکن کسی تباہ کن بحران سے محفوظ رہی۔

اس کے برعکس نواز شریف کے تینوں ادوار میں چارٹ زیادہ شدید اتار چڑھاؤ اور بڑی منفی شرحوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے پہلے دور (1990–1993) میں ترقی تو مثبت رہی مگر کمزور اور غیر مستحکم، بالکل اسی طرح جیسے بے نظیر کے ابتدائی برسوں میں تھا۔

اصل بحران نواز شریف کے دوسرے دور (1997–1999) میں سامنے آیا جب ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیوں، سرمایہ کے فرار اور کرنسی کے بوجھ نے معیشت کو شدید دھچکے دیے۔ چارٹ میں اس کے نتیجے میں –1.2 فیصد، –2.4 فیصد اور پھر –9.5 فیصد تک کی گراوٹ دکھائی دیتی ہے، جو 1990 کی دہائی کے بدترین معاشی زوال میں شمار ہوتی ہے۔ یہ گراوٹ نہ صرف معیشت کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ بیرونی انحصار کی شدت کو بھی واضح کرتی ہے۔

نواز شریف کے تیسرے دور (2013–2017) میں بظاہر یوایس جی ڈی پی میں استحکام اور مضبوط نمو دکھائی دیتی ہے، لیکن چارٹ اس استحکام کو مصنوعی قرار دیتا ہے، کیونکہ روپے کو 100 روپے فی ڈالر پر زبردستی روک کر ایک غیر حقیقی کرنسی قدر قائم رکھی گئی۔ اس کا بوجھ بعد میں معیشت کو اٹھانا پڑا اور 2018–19 میں جب روپے کو آزاد چھوڑا گیا تو چارٹ کے مطابق جی ڈی پی میں –11.6 فیصد اور –5.3 فیصد کی شدید گراوٹ سامنے آئی، جو ڈار کی زرِ مبادلہ پالیسیوں کے تاخیری اثرات تھے۔ اس طرح نواز کے تیسرے دور نے وقتی استحکام تو دکھایا مگر طویل مدتی ساختی نقصان پیدا کیا۔

مجموعی تقابل بتاتا ہے کہ بے نظیر کے ادوار میں اگرچہ غیر یقینی اور کمزور نمو موجود رہی، لیکن کوئی بڑا معاشی انہدام سامنے نہیں آیا۔

دوسری جانب نواز شریف کے ادوار میں نہ صرف بڑے منفی دھچکے آئے بلکہ ان کے فیصلوں نے معیشت پر دیرپا منفی اثرات بھی چھوڑے، خاص طور پر 1998–99 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کے بحران اور 2013–17 کی مصنوعی کرنسی پالیسیوں کے نتیجے میں۔ چارٹ کے مطابق نواز شریف کے ادوار میں نظامی اور ساختی نوعیت کی کمزوریاں کہیں زیادہ شدید تھیں، جبکہ بے نظیر کے دور میں عدم استحکام تو تھا مگر تباہی نہیں۔

آخرکار چارٹ یہ واضح کرتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے ادوار نسبتاً کم نقصان دہ اور غیر تباہ کن تھے، جبکہ نواز شریف کے ادوار، خاص طور پر 1998–99 کا دور اور 2013–17 کے فیصلوں کے بعد پیدا ہونے والا بحران، پاکستان کی معاشی تاریخ کے نمایاں ترین منفی موڑ ثابت ہوئے۔

***

پیپلز پارٹی کے 2008–2012 کے دور میں عالمی مالیاتی بحران کا دباؤ فوراً محسوس ہوا اور 2008 میں معیشت کو ایک منفی دھچکا برداشت کرنا پڑا، لیکن اس کے بعد کے برسوں میں نمو واپس مثبت رہی، اگرچہ سست اور کمزور۔ اس دور کی مرکزی خصوصیت توانائی بحران، مالیاتی خساروں اور سیکیورٹی صورتحال کا دباؤ تھی، مگر چارٹ کے مطابق یہاں کسی ایسی ہمہ گیر تباہی کا منظر نظر نہیں آتا جو معیشت کو مکمل طور پر منفی سلسلے میں دھکیل دیتی۔

عمران خان کے 2018–2021 کے دور میں چارٹ سب سے نمایاں اور مسلسل منفی رجحانات دکھاتا ہے۔ پہلے دو برسوں میں –11.6 فیصد اور –5.3 فیصد کی شدید گراوٹ سامنے آئی، جو اسحاق ڈار کی سابقہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ پالیسی کے درست ہونے کا براہِ راست نتیجہ تھا، جیسا کہ چارٹ خود بھی نوٹ کرتا ہے۔ اس کے فوراً بعد کووِڈ–19 کا عالمی بحران آیا، جس نے ایک اور منفی جھٹکا دیا اور یوں تین مسلسل سال معیشت ڈالر کے اعتبار سے واضح سکڑاؤ کی طرف گرتی گئی۔

یوں مکمل چارٹ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا دور اگرچہ کمزور، غیر مستحکم اور مسائل سے بھرپور تھا، لیکن بڑے پیمانے کی معاشی تباہی کا باعث نہیں بنا۔

نواز شریف کے ادوار میں پالیسی غلطیوں، بیرونی دباؤ اور مصنوعی زرِ مبادلہ کنٹرول نے شدید جھٹکے پیدا کیے، جنہوں نے نہ صرف فوری اثرات چھوڑے بلکہ بعد کے برسوں میں بھی اپنی قیمت وصول کی۔ عمران خان کا دور ان شدید جھٹکوں کے تصحیحی نتائج اور عالمی وبا کے دوہرے دباؤ کے باعث چارٹ میں سب سے زیادہ منفی رجحانات کے طور پر سامنے آتا ہے۔ نتیجتاً ڈالر کے لحاظ سے معیشت کا مجموعی تاریخی نقشہ بار بار یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی جڑیں کرنسی پالیسی، بیرونی انحصار، سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے اندرونی تضادات میں پیوست ہیں، جن کے اثرات مختلف حکومتوں میں مختلف شدت سے ابھرتے رہے ہیں۔

***

2021–2024 کا ماسٹر سمری، شدید معاشی زوال، بنیادی وجوہات اور ذمہ داری

2021 میں عمران خان کے دور کے آخری سال معیشت کسی حد تک سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر ڈالر کے اعتبار سے جی ڈی پی اب بھی کمزور تھا اور سابقہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ 2022 میں پی ڈی ایم حکومت ایک ایسے مرحلے میں اقتدار میں آئی جہاں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ چکا تھا، زرمبادلہ ذخائر کم تھے، مہنگائی تیز ہو چکی تھی اور معیشت پہلے ہی ایک غیر مستحکم بنیاد پر کھڑی تھی۔ مگر 2022–2024 کے دوران یہ بحران نہ صرف برقرار رہا بلکہ اپنی شدت میں کئی گنا بڑھ گیا۔ اس دوران روپے کی تاریخی گراوٹ دیکھنے میں آئی، جو 180–190 روپے فی ڈالر سے بڑھ کر 260، پھر 300 سے بھی اوپر چلی گئی۔ روپے کی اس بے محابا گراوٹ نےیوایس جی ڈی پی کو شدید سکڑاؤ سے دوچار کیا، کیونکہ امریکی ڈالر کے لحاظ سے معیشت کا حجم براہِ راست کرنسی کی قدر پر منحصر ہوتا ہے۔

اسی عرصے میں آئی ایم ایف کے ساتھ غیر معمولی تعطل پیدا ہوا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ حکومت نے ایک ہی پروگرام میں تین مرتبہ سٹاف لیول ایگریمنٹ تو کیا، مگر پروگرام بحال نہیں ہو پایا۔ اس تعطل نے مارکیٹ اعتماد کو مکمل طور پر مجروح کیا، سرمایہ کاروں کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا اور ڈالر جی ڈی پی کو مزید دباؤ میں رکھا۔ پھر 2022 کا سپر فلڈ پاکستان کی تاریخ کا بدترین ماحولیاتی بحران ثابت ہوا، جس نے زرعی پیداوار، برآمدات اور مجموعی معاشی سرگرمی کو متاثر کرکے جی ڈی پی میں حقیقی سکڑاؤ پیدا کیا۔ اس کے علاوہ 48 سال کی بلند ترین مہنگائی، 35 فیصد سے زائد سی پی آئی، خوراک کی 45–52 فیصد مہنگائی نے گھرانوں کی قوتِ خرید ختم کر دی اور صنعت و تجارت دونوں کو لاغر بنا دیا۔

بیرونی مالیاتی بحران نے صورتحال کو مزید بگاڑا۔ ذخائر 2–3 ارب ڈالر تک گر گئے، درآمدی پابندیوں نے صنعتوں کو بند ہونے پر مجبور کر دیا، مشینری، خام مال اور ادویات کی ترسیل رک گئی اور روزگار کے نئے بحران پیدا ہوئے۔ یوں 2022–23 کے قریب آنے والی گراوٹ چارٹ میں واضح طور پر نظر آتی ہے، کیونکہ تمام معاشی اشاریے بیک وقت منفی سمت میں بڑھ رہے تھے۔

تاہم اس شدید معاشی تباہی کی اصل جڑیں صرف پی ڈی ایم کے برسوں میں نہیں بنتیں۔ چارٹ اور معاشی حقائق واضح کرتے ہیں کہ سب سے بنیادی اور گہرا نقصان نواز شریف دور (2013–2017) میں اسحاق ڈار کی مصنوعی ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کے نتیجے میں ہوا تھا۔

روپے کو 100 روپے فی ڈالر پر زبردستی منجمد رکھ کر معیشت کے اندرونی تضادات کو دبایا گیا۔ برآمدات غیر مسابقتی ہوگئیں، درآمدات سستی ہونے کے باعث معیشت غیر فطری طور پر پھولنے لگی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطحوں تک پہنچا۔ چارٹ یہ دکھاتا ہے کہ جیسے ہی 2018 میں روپے کو اصل قدریں اپنانے پر مجبور کیا گیا، ڈالر جی ڈی پی میں –11.6% اور پھر –5.3% کی شدید گراوٹ آئی۔ یعنی اصل تباہی وہیں سے شروع ہوئی تھی اور 2021–2024 کے بحران انہی غلط پالیسیوں کا تسلسل تھے۔

پی ڈی ایم حکومت نے ایک پہلے سے بگڑی ہوئی معیشت سنبھالی، مگر انتظامی کمزوری، آئی ایم ایف سے تاخیر، سیلاب اور سیاسی بحرانوں نے اس زوال کو مزید گہرا کر دیا۔ نتیجتاً 2021–2024 کا دور مسلسل منفی دباؤ، تاریخی گراوٹ، اعتماد کے فقدان اور معاشی کمزوریوں کے مکمل ظہور کا زمانہ بن گیا۔ اگر عمران خان کا دور بڑے جھٹکوں کی ابتدا تھا تو پی ڈی ایم کا دور ان جھٹکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ساختی تھکن، اعتماد کے بحران اور مسلسل زوال کا مکمل اظہار تھا۔

لیکن چارٹ کے مطابق شدید گراوٹ کی اصل بنیاد، یعنی ڈالر جی ڈی پی کے ڈھانچے میں پیدا ہونے والا بڑافاٹ، مسلم لیگ نواز کے اسحاق ڈار کی غلط اور مصنوعی زرِ مبادلہ پالیسیوں نے رکھا تھا، جس کا درست ہونا بعد کے تمام ادوار میں بڑے پیمانے پر معاشی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔

***

پاکستان کی معشیت کی بربادی کی فلم کا ولن اسحاق ڈار

نوّے کی دہائی سے 2024 تک کے معاشی رجحانات کا یہ طویل جائزہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کے پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا میں برسوں سے پھیلایا جانے والا یہ بیانیہ، کہ پاکستان کی معیشت میں بدانتظامی اور تباہی کا اصل ولن آصف علی زرداری تھا، درحقیقت ایک گھڑا ہوا، غیر سائنسی اور سیاسی مفروضہ تھا جس کا معاشی اعداد و شمار سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

چار دہائیوں پر محیط ڈیٹا بتاتا ہے کہ پاکستان کی یوایس جی ڈی پی میں شدید گراوٹیں، بڑے مالیاتی بحران، کرنسی کے انہدام اور ساختی بگاڑ زیادہ تر اُن پالیسی فیصلوں کے نتیجے میں سامنے آئے جو مسلم لیگ نواز کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اختیار کیے۔ روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی ان کی حکمت عملی، برآمدات کو غیر مسابقتی بنانے، درآمدات کو غیر فطری طور پر سستا رکھنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھانے اور معیشت کو مصنوعی نمو پر چلانے نے وہ دھماکہ خیز بنیاد رکھی جس کے نتائج 2018 سے 2024 تک مسلسل شدید معاشی زلزلوں کی صورت میں سامنے آئے۔

یوں اصل ذمہ داری اور معاشی تباہی کا حقیقی محرک آصف زرداری نہیں بلکہ اسحاق ڈار تھے، جن کی غلط زرِ مبادلہ پالیسیوں نے پاکستان کی معاشی بنیادوں کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دیں اور ملک کو ایک نہ ختم ہونے والے مالیاتی بحران کی طرف دھکیل دیا۔

Check Also

China, America Aur Pakistan Ke Maadni Zakhair

By Altaf Kumail