Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Pagal Kon Hain?

Pagal Kon Hain?

پاگل کون ہیں؟

منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ پر لکھے گئے اس مضمون کا آخری حصہ بہت دلچسپ اور میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میرے دادا نے آج کے ہریانہ کے ضلع بھوانی جو اس وقت حصار کی تحصیل تھا سے ہجرت کی اور وہ آج کے ضلعی صدر مقام خانیوال جو اس وقت ملتان کی تحصیل تھا میں آن بسے۔ خانیوال میں ہجرت کرکے بسنے والے دو لسانی گروہ تھے۔ ایک پنجابی تھے اور دوسرے وہ تھے جن کی زبان کو مقامی آبادی نے اپنے طور پر ہندوستانی کہا۔ مقامی لوگوں کو پنجابی مہاجر ہوں یا تقسیم سے پہلے کے پنجابی آبادکار ہوں جانگلی کہا کرتے تھے اور ان کی زبان کو بھی جانگلی کہا جاتا تھا۔

آج کے مشرقی انڈین پنجاب سے آنے والے پنجابی آباد کار یا مہاجر اپنی لسانی شناخت پنجابی سے ہی منسوب ہوئے۔ لیکن جو غیر پنجابی تھے انھیں ہندوستانی کہا گیا۔ مغربی پنجاب کی شہری، دیہی، مضافاتی اور قصباتی آبادی غیر پنجابی شمالی ہندوستان کے باشندوں کی زبان کو ہندوستانی کہا کرتے تھے۔

یہ جو ہندوستانی کہلاتے تھے ان میں ہندوستانی شناخت کی بجائے ان کے ہاں جو شہروں، قصبوں کی جو شناخت تھی وہ زیادہ طاقتور بائنڈنگ فورس تھی۔ یعنی ہمارے شہر میں روہتک، بھوانی، حصار، گڑ گاؤں، ریواڑی، میوات، پانی پت، سونی پت، پونڈری، سرسہ، میرٹھ جیسی قصباتی اور شہری شناختیں زیادہ اہم تھیں۔ یہ انھیں عرف عام میں کسی نسلیاتی۔ ثقافتی /ایتھنک شناخت سے کہیں زیادہ جغرافیائی شناخت سے زیادہ جوڑا کرتی تھیں۔ اب بھی یہی جغرافیائی اور مقامی شناخت زیادہ طاقتور سماجی بانڈ ہے۔ ان کے ہاں پاکستان ایک تجریدی اور روحانی تصور کے طور پر پروان چڑھا جس میں جغرافیائی ثقافتی شناخت شامل نہیں تھی۔

میں نے اپنے بزرگوں میں تقسیم کے المیے کو کبھی پنجاب کے بٹوارے اور پنجابیت کی تقسیم کے احساس کو نہیں پایا۔ اس کے برعکس جو پنجابی مہاجر اور آباد کار تھے ان میں، میں نے اس تقسیم کو پنجاب کے بٹوارے اور پنجابیوں کی تقسیم کے المیے کے طور پر لیکر دکھ اور برہمی میں مبتلا دیکھا۔ جب کہ جو مقامی تھے یعنی جنھیں جانگلی کہا جاتا تھا وہ آبادکاری اور ہجرت کو اپنی شناخت پر حملے اور وسائل پر "دوسرے" یعنی ہندوستانیوں اور پنجابی مہاجر و آباد کار کے قبضے سے تعبیر کرتے تھے۔ انھیں یہ دکھ تھا کہ ان کی زبان اور شناخت کو اردو اور مشرقی علاقوں کی پنجابی کے زریعے مرکزی دھارے سے خارج کر دیا گیا۔

زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو پنجابی، ہندوستانی اور مقامی جانگلی تینوں کے عام باشندوں کے لیے پاکستان کی جو تجریدی اور روحانی تعبیر تھی وہ یکسر نا قابل فہم تھی جو مقامی جغرافیائی ثقافتی شناخت کی نفی کرتی تھی۔ اس شناخت میں ایک تو ان کی جو شہروں، قصبوں سے جڑی جغرافیائی شناخت تھی اس کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

جناح نے 1937ء میں کانگریس کی جیت اور آل انڈیا مسلم لیگ کو شریک اقتدار نہ کرنے کے بعد ہندو۔ مسلم کمیونل مسئلے کو ہندوستانی قومیت کے سیکولر تصور تحت دو کمیونٹیز کے درمیان مسئلے کی بجائے اسے مذھب کے تجریدی تصور کی بنیاد پر ہندو۔ مسلم دو قوموں کے مسئلے میں بدل دیا جس میں مقامی جغرافیائی ثقافتی شناختیں کوئی حثیت نہیں رکھتی تھیں۔ جناح کی 37-47 تک کی جتنی تقریریں اور بیانات ہیں وہ پاکستان کو ایک تجرید کے طور پر ایسے روحانی تصور کے طور پر پیش کرتی ہیں جس میں اس سوال کا جواب جناح نے کبھی نہیں دیا ان کا پاکستان جس کی بنیاد محض اسلام پر ہے وہ کیا ہے اور کہاں واقع ہے؟ کیا اس میں وہ علاقے شامل ہوں گے جہاں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں اقلیت میں تھے جیسے صوبہ متحدہ جات وغیرہ جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے حامی مسلمان بہت شدت سے ہندوستان کی تقسیم کی تحریک چلا رہے تھے۔

پاکستان کے تصور کے حامی پنجابی مسلمانوں کے لیے تقسیم ہند کا اعلان ہونے تک یہ تصور کرنا محال تھا کہ اس تصور کا مطلب پنجاب کی تقسیم ہوگا جس کے نتیجے میں امرتسر، جالندھر، فیروز پور، گروداس پور پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف پنجابی سکھوں کے لیے یہ تصور بھی کسی قیامت سے کم نہیں تھا کہ تقسیم ہند کے منصوبے میں لاہور اور ننکانہ صاحب، گوجرانوالہ پاکستان میں چلے جائیں گے۔ ان کے لیے تو پنجاب ایک مقدس وحدت تھی اور ان کی مذھب کی جنم بھومی تو تھا ہی پنجاب۔ پنجاب اور پنجابیت ان کے لیے بہت ہی مقدس شناخت تھی۔ ان کے لیے پاکستان بطور ایک تجرید و روحانی تصور کے اور ہندوستان باوجود ایک سیکولر نیشنلسٹ شناخت کے سوائے پنجاب اور پنجابیت کی تقسیم کے اور کچھ نہیں تھا۔ انھیں یہ تقسیم ایک لغویت کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہی تھی۔

بنگالی مسلمانوں نے کبھی خواب میں بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ پاکستان نظریاتی اور فکری اعتبار سے ایک ایسی تجرید اور روحانی تصور قوم اور ملک کے سامنے آئے گا جس میں ان کا جغرافیہ، ان کی زبان اور ان کی ثقافت سب کی نفی کر دی جائے گی اور ان سے یہ مطالبہ ہوگا کہ وہ اپنی زبان کو اردو پر قربان کر دیں۔ اپنی ثقافت کو ہندوانہ ثقافت کہہ کر رد کر دیں۔

سندھی مسلمانوں نے بھی یہ خواب میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ پاکستان مطلب سندھی زبان و ثقافت کی نفی اور اردو کو اپنانا ہوگا اور یو پی۔ سی پی سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہونے والے باشندے ان کو یہ کہیں گے کہ وہ جہاں آباد ہوئے ہیں وہ علاقے انھیں ہندوستان میں چھوڑ کر آنے والے علاقوں کی بنیاد پر حاصل ہوئے ہیں اور ان کے علاقوں میں کسی کو سندھی زبان اور ثقافت کی عملداری قائم رہنے دیے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کا سب سے بڑا تجارتی، ساحلی شہر سندھ سے الگ کرکے نئے پاکستان کا دارالخلافہ بنا دیا جائے گا اور وہاں سندھی زبان کو دیکھتے ہی دیکھتے ناپید اور غائب ہونا پڑے گا۔ یو پی۔ سی پی کی اردو اسپیکنگ مہاجر اشرافیہ کے زیر اثر پوری اردو اسپیکنگ مہاجر کمیونٹی سندھیوں کو گنوار، ان پڑھ، جاہل اور ان کی زبان کی تحقیر و تضحیک کرے گی۔

پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہوگا وہاں کی مقامی آبادی کا اپنی زبان، جغرافیہ اور مقامی ثقافت کو پاکستانیت میں شامل کرنے پر اصرار صوبائیت، لسانیت اور اسلام دشمنی کہلائے گا اور ان کا مقامی جغرافیائی لسانی ثقافتی تشخص جس میں اسلام اور مسلم شناخت مقامیت سے گھلی ملی ہوئی تھی وہ سب کی سب پاکستانیت اور اسلام کے خلاف ٹھہر جائے گی۔

ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلم اور پاکستانی تجرید پر مشتمل پاکستانیت اور پاکستانی قوم کے بغیر مقامی جغرافیہ و ثقافت و شناخت کے مسلط کرنے کے لیے ون یونٹ اسکیم متعارف کرائی گئی۔ اس منصوبے کا مقصد مشرقی بنگال کی اکثریت کو ختم کرنا اور پاکستان میں مشرقی بنگال، سندھ، کے پی کے، بلوچستان میں چلنے والی صوبائی خود مختاری کی تحریک جس کا مقصد مرکز میں اختیارات کے ارتکاز کو ختم کرنا، اردو کی بالادستی اور زبردستی تسلط کو ختم کرنا نیز ان صوبوں کی ثقافتی، جغرافیائی اور مقامی ثقافت اور زبانوں کو برابری کا درجہ دلوانا تھا کو بے اثر کرنا تھا جس کا مقصد اردو اسپیکنگ مہاجر اور پنجابی نسلیاتی۔ ثقافتی۔ ایتھنک گروہوں کی اشرافیہ کا سیاسی و معاشی قبضہ برقرار رکھنا اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں سول و فوجی افسر شاہی میں دونوں نسلیاتی گروہوں کی بھاری عددی اکثریت اور غلبے کو برقرار رکھنا تھا۔ فکری اور نظریاتی اعتبار سے یہ سارا کام پاکستان کے بطور ایک تجریدی خیالی اور روحانی تصور کو سرکاری پالیسی بناکر کیا گیا۔

قرارداد مقاصد ہو یا پاکستان میں اسلام اور شریعت کے نفاذ کے نعرے ہوں اور ان کے تحت ہونے والی اسلامائزیشن ہو ان سب کا مقصد پاکستان کی کثیر القومی، کثیر اللسانی شناخت اور مقامی جغرافیائی و ثقافتی شناخت کی نفی ہی تھا۔

ن م دانش بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے خطوں کے جو ٹھوس حقیقی مسائل تھے اور ہیں ان کے لیے نظریہ پاکستان کا ہوائی قلعہ تعمیر کیا گیا اور اس سے جڑے جن روحانی اور تصوراتی نسخوں اور حل کو بروئے کار لایا گیا وہ سب کے سب بحران کے انتہائی شدید ہونے پر زمین بوس ہوگئے۔

ن م دانش لکھتے ہیں کہ پاکستان تو 1947ء کی آدھی رات میں ہی بن گیا تھا لیکن اس کی کوئی ایسی مختلف تہذیبی و ثقافتی و تاریخی شناخت عملی طور پر راتوں رات بن ہی نہیں سکتی تھی جو اسے عملی طور پر ہندوستان کے عوام سے الگ کرسکتی۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی ملک اور اس کے باشندے دوسرے ملک سے مذھب کے اعتبار سے مختلف ہوں لیکن ہندوستان/پاکستان کے عوام کی جو تہذیبی و ثقافتی شناخت، تاریخ اور، زندگی اور شناخت تھی اس اعتبار سے دونوں ملک اس اعتبار سے بھی مختلف نہیں تھے۔

مثال کے طور پر پنجابی شناخت میں مسلم، ہندو اور عیسائی تینوں شناختیں ملی ہوئی تھیں اور ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہونے والا پنجاب اس اعتبار سے نہ کل مختلف تھا نہ آج مختلف ہے۔ ایسے ہی بنگالی شناخت میں مسلم، ہندو اور دلت تینوں شامل تھے اور ہیں۔ سندھی شناخت میں بھی مسلم اور ہندو دونوں شناختیں شامل ہیں۔ معاملات میں تہذیبی و ثقافتی تعلق یعنی مشترکہ زبان، ادب، رسوم و رواج کے مقابلے میں مذھب ثانوی حثیت اختیار کر جاتا ہے۔

اب پاکستان تو آدھی رات کو بن گیا لیکن اس کو تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی بنیاد پر کیسے الگ ثابت کیا جائے؟ اس کے لیے پاکستان کے مقتدر طبقے جس میں اردو اسپیکنگ مہاجر اور پنجابی اشرافیہ شامل تھی نے نظریہ پاکستان کے نام پر ایک ایسا تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی نظریہ پیدا کرنے کی کوشش کی جس کا پاکستان میں رہنے والے عوام کی اکثریت کی زندگی، ان کے ٹھوس حقیقی و مادی معاملات، سیاسی و معاشی حالات و مسائل کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یعنی جسے بظاہر سیدھا سا فارمولا بتایا گیا کہ سکھوں اور ہندوؤں کے لیے ہندوستان اور مسلمانوں کے لیے پاکستان یہاں پاکستان/ہندوستان کی عوام کے لیے نہ تو سیدھا معاملہ تھا اور نہ ہی آسان تھا۔ پاکستان کی عوام کے لیے تو یہ اور زیادہ پیچیدہ اور مسائل سے بھرا معاملہ بن گیا جب یہاں مذھبی شناخت کو ابھار کر باقی تمام شناختوں کو دبا دیا گیا۔

یہ مذھبی شناخت بھی پاکستان کی ریاست میں رہنے والوں کے لیے اور زیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ قرارداد مقاصد نے جہاں ہندو، دلت اور مسیحیوں کو الگ کیا تو وہیں اس سے اگلا نشانہ احمدی بنے جنھیں مسلمان شناخت سے نکال باہر کیا گیا۔ یہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ شریعت کے نفاذ کے مسئلے پر شیعہ اور صوفی اسلام کو وجودی خطرے کا سامنا ہوا اور 80ء کی دہائی سے جہاد افغانستان اور 90ء کی دہائی سے جہاد کشمیر نے سلفی اور دیوبندی اسلام کے ریاستی بیانیے میں بدل جانے نے اس معاملے کو سنگین فرقہ وارانہ جنگ اور تصادم میں بدل دیا۔ آج ہمیں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جس جنگ اور دہشت گردی کا سامنا ہے اس کا سب سے بڑا مطالبہ پاکستان میں اس انتہا پسند بنیاد پرست فرقہ پرست اسلامی شریعت کے نفاذ کا ہے جس کی جڑیں سلفی اور دیوبندی اسلام کے انتہائی ریڈیکل تصور میں پیوست ہیں جو صوفی اسلام اور شیعہ اسلام کو مارجنلائز کرتا ہے۔ اس طرح کی نفاذ شریعت کے مطالبے کے جواب میں ہمیں ریڈیکل بریلوی ازم جس کی علمبردار تحریک لبیک ہے کا سامنا ہے اور شیعہ برادری میں بھی ایسے انتہاپسندوں کی کمی نہیں ہے جو جوابی ردعمل میں ایرانی خمینی ازم کو اپنی ڈھال بناتے ہیں۔

ن م دانش کہتے ہیں کہ منٹو کا افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ " شناخت کے حوالے سے اس پیراڈوکیسکل Paradoxical situation کی نشاندہی کرتا ہے اور میں کہتا ہوں شناخت کے تعلق سے اس متضاد صورت حال کی آج جتنی تفہیم ہمیں ہے جب یہ افسانہ لکھا گیا اس وقت اس کے پڑھنے والوں کو اس کی شدت اور گہرائی کا اندازہ نہیں تھا جتنا آج اس کے پڑھنے والے باشعور قاری کو ہو سکتا ہے۔

دونوں فریقین سکھ اور مسلمان پاگل کے لیے پاکستان ایک معمہ ہے۔ دونوں کے ہاں مقامی /ثقافتی شناخت ہی سب کچھ ہے۔ سکھ پنجابی پاگل ہندوستان جانا نہیں چاہتا کیونکہ اسے وہاں کی زبان نہیں آتی۔ اس سکھ پاگل کے خیال میں امرتسر یا جالندھر یا فیروز پور نہیں تھا ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتا کہ اسے وہاں کی زبان نہیں آتی۔

اور دوسرے مسلمان کے لیے جو چینوٹ کا رہنے والا ہے اور پندرہ سال سے وہ لاہور سے نکلنے والا زمیندار اخبار کا قاری ہے وہ پاکستان کو ایسی جگہ سمجھتا ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔

حسن عسکری نے ایم ڈی تاثیر کے مضمون کے جواب آں غزل میں لکھتے ہوئے اس بات کی نفی کہ وہ پنجاب یا لاہور میں رہنے نہیں آئے، نہ ہی انھیں پنجاب، سندھ اور بنگال کا فرق معلوم ہے وہ تو پاکستان میں آئے ہیں اور پاکستان میں رہتے ہیں۔

اب اگر پاکستان پنجاب، سندھ، بنگال وغیرہ میں نہیں ہے تو پاکستان ہے کہاں۔ ان سے ہٹ کر پاکستان اگر کہیں وجود رکھ سکتا تھا اور ہے تو وہ تجرید کی سطح پر اس روحانی شکل میں رہ سکتا تھا جس نے پاکستان کے جغرافیائی، مادی اور حقیقی وجود کو نقصان پہنچایا۔

جیسے عسکری صاحب کا پاکستان پنجاب، سندھ اور بنگال سے ہٹ کر ایک تجرید ہے ویسے ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ، ہندوستانی زبان نہ بولنے والا، پندرہ سال زمیندار پڑھنے والا مسلمان، درخت پر رہنے کا فیصلہ کرنے والا پاگل ان کے لیے مقامی جغرافیائی ثقافتی شناخت ہی اصل شناخت ہے اور اصل حقیقت ہے۔

منٹو کا افسانہ قاری کے سامنے جو پیراڈوکیسکل سچویشن رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ بڑی شناخت قومی شناخت پاکستانی /ہندوستانی اور مذھبی شناخت مسلمان، ہندو اور سکھ شناختوں کے مقابلے میں مقامی جغرافیائی و ثقافتی شناخت یعنی پنجابی، سندھی، بنگالی پر زور دے رہا ہے۔ آدھی رات کو ایک تصوراتی لکیر بڑی شناخت یعنی قومی شناخت لیکر آتی ہے اور ایک ہندوستانی صبح سو کر جب اٹھتا ہے تو وہ پاکستانی ہوجاتا ہے اور اس سے قطع نظر کہ وہ پنجابی، سندھی، بنگالی جیسی مقامی جغرافیائی ثقافتی شناخت یا مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی جیسی مذھبی شناخت رکھتا ہے۔ یہ ستم ظریفی دوہری ہے کہ پہلے آپ پنجابی /سندھی /بنگالی ہندوستانی تھے اب آپ پنجابی /سکھ/ہندو/مسلمان پاکستانی ہوگئے اور مقامی جغرافیائی ثقافتی شناخت مرکزی /قومی شناخت کے مقابلے میں حاشیے پر اور ثانوی ہوگئی ہے۔ یعنی آپ کی یہ شناخت The other دوجی ہوگئی ہے۔

بشن سنگھ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹوبہ سنگھ میں رہے تو ہندوستان میں نہیں رہے گا کیونکہ ٹوبہ سنگھ پاکستان میں ہے اور بشن سنگھ ٹوبہ سنگھ میں رہنا چاہتا ہے لیکن نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ سکھ ہے تو یہ مذھبی شناخت اس سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رہنے کا استحقاق چھین چکی ہے۔ اس لیے جب بشن سنگھ یہ پوچھتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان ہے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں گیا یا کہاں ہے؟ تو آپ کے خیال میں یہ ایک لغو و احمقانہ سوال ہے یا افسانہ نگار نوآبادیاتی علاقوں میں سامراج کی نوآبادیاتی حکمت عملیوں اور چالوں سے پیدا ہونے والی سیاسی و تہذیبی پیچیدگی کا نہایت فنکارانہ بصیرت کے ساتھ لطیف طنز کی آمیزش سے اس ستم ظریفانہ صورت حال کا بیان ہے جس میں بشن سنگھ گرفتار ہے۔ اسی لیے بشن سنگھ کے منہ سے ہندوستان پاکستان درفٹے منہ نکلتا ہے۔

منٹو اس فنکارانہ بصیرت اور ستم ظریفانہ پیش کش کا نظریہ پاکستان کے بطور تجریدی تصور کے مبلغ جیسے فتح محمد ملک ہیں جو ساتھ ساتھ ترقی پسند اور اسلامی سوشلسٹ بھی ہیں مذاق ہی اڑا سکتے تھے۔ ان کو یہ افسانہ سمجھ میں ہی نہیں آیا اسی لیے وہ مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "پاگلوں کو بھلا قیام پاکستان کی سمجھ کیوں آسکتی تھی؟"

ن م دانش لکھتے ہیں کہ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت کے لحاظ سے پاکستان کی اکثریت کو ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کے پاگل و نیم خواندہ ہی نہیں بلکہ انتہائی پڑھے لکھے بھی پاکستان بننے سے قبل پاکستان کے مادی وجود یا جغرافیائی حدود کا تصور قائم نہیں کرسکتے تھے خاص طور پر 1940ء سے قبل تک۔

ن م دانش نے افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک فلسفیانہ/سائنسی توجیہ بھی کی ہے۔ وہ پہلے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کائنات کا جدید تصور چار ابعادی ہے جس میں مکان۔ زمان تسلسل ان میدانوں کی تشکیل کرتے ہیں جہاں واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ چہار ابعادی تصور کائنات جس میں مکان بھی شامل ہے اور واقعات اسی مکان۔ زمان۔ کائنات میں واقع یا رونما ہوتے ہیں۔ لیکن کامن سینس کے ساتھ عام لوگ صدیوں سے مکان کو ناقابل تغیر، بے حرکت یا ساکن تصور کرتے آ رہے ہیں اور اس سے زمان، حرکت کو الگ کر دیتے ہیں۔ ہم مکان کو سہ ابعاد سمجھتے ہیں اور اسے ساکن قرار دیتے ہیں اور صرف زمان یا وقت کو قابل تغیر خیال کرتے ہیں۔ نیوٹن جیسا شخص بھی یہی خیال کرتا تھا۔ منٹو نے اپنے افسانے میں پاگل خانے کو ایسے ہی سہ ابعادی مکان میں بدل کر وقت اور زمان سے کاٹ دیا۔ اب جب مکان یعنی لاہور اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ یا ہر ایک کے لیے زمان یا فعل کا استعمال ہو یعنی لاہور پاکستان چلا گیا، امرتسر ہندوستان ہوگیا تو یہ آنے جانے کے فعل کے ساتھ مکان منسلک ہوجائے تو یہ مکان کی حرکت نا قابل فہم ہو جاتی ہے۔ مکان کیسے حرکت کرسکتا ہے؟ یا پنجاب کے درمیان ایک تصوراتی لیکیر کھینچنے سے پنجاب کی لسانی، ثقافتی اور ایتھنک شناخت کیسے بدل جائے گی؟ کل تک جو مکان ہندوستان تھا وہ اج وہ پاکستان کیسے ہوگیا۔ مذھبی فرق اور اختلاف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک سکھ پنجابی کے لیے تو پنجاب کی جغرافیائی، مقامی ثقافتی، لسانی، ایتھنک اور مذھبی ساری شناختیں ہی پنجابی تھیں تو ایک لکیر کھینچے جانے سے یہ کیسے پاکستانی مسلم اور ہندوستانی ہندو /سکھ پنجاب میں تقسیم ہوسکتا تھا؟ فلسفیانہ اعتبار سے بھی تقسیم کی سمجھ باہوش اور عقل مندوں کو بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ یہ افسانہ اسی نوآبادیاتی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس سارے تناظر میں بلوچ قوم، جغرافیے، ثقافت، زبان بارے ریاست کے موجودہ خارج کیے جانے والے پاکستانیت پر مشتمل بیانیے کو دیکھیں تو ہمیں سمجھ آتی ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت کیوں اسے رد کر رہی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کیوں کر رہی ہے۔ ریاست پاکستان کی ایک تجریدی روحانی تشریح پر اصرار کرتی ہے اور بلوچ کو اپنی مقامی جغرافیائی ثقافتی شناخت کو اس تجریدی روحانی تصور پر قربان کرنے کو کہتی ہے جس سے ان کی ٹھوس مادی زندگی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجودہ حکمران تو اس قدر بے بصیرت اور نا عاقبت اندیش ہیں کہ وہ بلوچ کی مقامی ثقافت و جغرافیائی منفرد شناخت پر اصرار اور جدوجہد کو فتنہ سے تعبیر کررہے ہیں اور بلوچ دانشور، سیاسی کارکن، عام عوام انھیں پاگل، بے شعور اور گنوار یا گمراہ لگتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے وہ بنگالیوں کو سمجھتے تھے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan