Nijat
نجات

کل رات میں ایک سید قافلہ افتادگان خاک کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ ایک ٹوٹا ہوا دل اور شکستہ حال ذی روح میرے ہمراہ تھا۔ وہاں سے فیض نجات کی مئے پی اور اس کے سرور میں جب میں اپنے عارضی ٹھکانے پر پہنچا تو بستر پر گرتے ہی میری ظاہر کی آنکھ بند ہوئی اور دانش کی تیسری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عوامی اسمبلی لگی ہوئی ہے۔ سامنے مردودان حرم کا ایشور عرش پر جلوہ افروز ہے بلا تمثیل و بلا تشبیہ، جہاں کم و کاست کا گزر نہیں اور مکان و امکان سب فنا کے دائرے میں گم ہیں اور قدم ازلی کی جلوہ فرمائی ہے اور سامنے اقبال لاہوری کھڑے ہیں اور تحت اللفظ میں اپنے یہ اشعار سنا رہے ہیں ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مُصطفویﷺ سے شرارِ بُولہبی
حیات شُعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرِشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی
سکُوتِ شام سے تا نغمۂ سحَرگاہی
ہزار مرحلہ ہائے فعانِ نیم شبی
کشا کشِ زم و گرما، تپ و تراش و خراش
ز خاکِ تِیرہ درُوں تا بہ شیشۂ حلبی
مقامِ بست و شکست و فشار و سوز و کشید
میانِ قطرۂ نیسان و آتشِ عِنبی
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے رازِ تب و تابِ مِلّتِ عربی
"مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند
پھر ہاتف غیبی سے ایک صدا آئی
"وہ اپنے زمانے کا "حسینی" ہے اور اس زمانے کے باطل کی روح عصر جو فرعون و قارون و بلعم باعور کی شکل اجتماعی ہے اور سرمایہ داری کہلاتی ہے، حسینیوں کو کمیونسٹ کہتی ہے"۔
شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے۔ غرناطہ کے پہاڑوں پر سورج کی آخری سرخی ٹھہری ہوئی تھی۔ شیخ ابن عربی کے گھر کے باہر بہتی ہوئی شفاف پانی نہر میں پانی کی خفیف سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ زیتون درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ تھی اور فضا میں درختوں کی مہک گھلی ہوئی تھی اور کبوتر چھتوں پر بیٹھ کر پرِ سکون خاموشی میں ڈوبے تھے۔ دروازہ آہستہ سے کھلا۔ ایک مسافر نما شخص، سادہ لباس میں کتابوں اور جدوجہد کی گرد چہرے پر سجائے داخل ہوا۔ قدموں میں عزم، آنکھوں میں تھکن اور دل میں آگ بھڑک رہی تھی۔
وہ مستقبل کے کئی زمانے آگے سے پیچھے کی طرف سفر کرکے وقت کے تیز بہاؤ میں بہتا ہوا مگر زمانے کے جبر سے ٹکراتا ہوا آنے والا مسافر تھا۔ آنے والے نے اپنا تعارف مستجاب حیدر حسینی کے نام سے کرایا۔ شیخ ابن عربی فرشِ چوب پر بیٹھے تھے۔ ان کی پیشانی پر نور، چہرے پر جلال اور آنکھوں میں ایسا وقار تھا جیسے زمانہ اُن کی نگاہ میں ٹھہرا ہو۔ اُن کے سامنے چراغ جل رہا تھا جس کی لو میں کسی ابدی حقیقت کی تھرتھراہٹ تھی۔
آنے والے نے آداب سلام ادا کیا، شیخ نے نگاہ اٹھائی جیسے کسی معروف روح کی واپسی ہو۔ شیخ کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ آئی۔
دلوں کے درمیان ایک غیر محسوس ربط نے لمحے کو روشن کر دیا۔ "آؤ، اے زمانے کے مسافر"، شیخ نے نرمی سے کہا۔
"وقت کے بوجھ نے تمہاری پشت کو نہیں جھکایا، یہی علامت ہے کہ تم ابھی سفر میں زندہ ہو"۔ وہ سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور کچھ دیر دونوں خاموش رہا۔
خاموشی اتنی گہری کہ جیسے گفتگو ہو رہی ہو، بغیر لفظوں کے اور دونوں کے دل زبان بن گئے ہوں۔ ہوا میں خنکی تھی اور دھوپ کی آخری رگیں دیواروں سے کب کی رخصت ہو چکی تھیں۔ شیخ کی زوجہ چائے لے کر آئیں، چائے نہیں، روح کی مہک جیسے ہوتی ہے اور وہ تعجب سے آنے والے کو دیکھتی رہیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں مگر شیخ کی موجودگی میں ہر سوال اپنی آواز کھو بیٹھتا تھا۔ مسافر کی آنکھوں میں سوال تھے جہاں دنیا کی ناانصافی، طبقاتی جبر اور تاریخ کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ شیخ کی نگاہوں میں سکون تھا جیسے یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہو اور پھر دم توڑ گیا ہو۔
رب کی حکمت کے پردے میں ہر دور میں معرکہ حق و باطل کے دو انجام ممکن ہوتے ہیں ۔ یا تو فرعون۔ قارون۔ بلعم باعور کی تثلیث شکست کھاتی ہے جسے فتح مکہ کے وقت وہ شکست سے دوچار ہوئی تھی یا پھر نئی کربلا برپا ہوتی ہے۔ رب کی اس حکمت کو "نیست پیغمبر ولے در بغل دارد کتاب سرمایہ " کی شان لیے کارل مارکس تاریخ کی مادی جدلیاتی حرکت کہتا ہے۔ اگر تو تثلیث استحصال و جبر کے مدمقابل گروہ جسے کارل مارکس طبقہ مزدوراں کہتا ہے اپنے آپ کے طبقہ بالذات ہونے کے شعور سے مسلح ہو تو پھر فتح مکہ ہوتی ہے۔ اگر یہ شعور تثلیث کے سیاسی و معاشی و مذھبی چالوں سے مات کھا جائے تو تب قافلہ حق میں بہتر جی رہ جاتے ہیں اور کربلاء کا میدان ہوا کرتا ہے اور شام غریباں اس معرکے میں بچ جانے والوں کا نصیب ہوا کرتی ہے اور اس قافلے کا ہر حسینی اپنی روح سے پہچانا جاتا ہے۔ زمانے کے ہجوم میں تنہا ہوتا ہے ایسے حالات میں حق ہمیشہ اکیلا ہی اُترتا ہے"۔
شیخ ابن عربی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے اور مسافر نے سر جھکا دیا۔ اس لمحے میں اندلس کی رات نے اپنا پہلا ستارہ روشن کیا اور یوں لگا جیسے آسمان بھی اس مکالمے کو سننے آیا ہو۔ وقت تھم گیا تھا۔
وہاں صرف دو انسان نہیں بیٹھے تھے دو صداقتیں آمنے سامنے تھیں۔ ایک صدیوں کی حکمت تھی، وجود وحدت سے جڑا عرفان تھا اور دوسری اس کے بعد کے زمانوں سے گزرتی ہوئی 21 ویں صدی کے زمانے کی تڑپ تھی جب فرعون کہیں عوام کے منتخب وزیراعظم یا صدر مملکت یا آمر مطلق کی صورت میں سامنے تھا تو قارون غیر مشخص عالمی مالیاتی اداروں، ٹرانس نیشنل کمپنیوں کے ایک وسیع عریض تجارتی و مالیاتی سرمائے سے مل کر بننے والے اجارہ دارانہ اور سامراجی شکل میں سرمایہ داری کی بلند ترین منزل کی شکل میں تھا۔ جبکہ بلعم باعور مذھبی مدرسوں، مساجد و کلیسا و کنیسہ اور مندروں، درگاہوں کے جال اور ہزاروں پیدل سپاہیوں جنھیں مجاہدین کہا جاتا تھا کی خون آشام فوج اور زومبی کردار کے عقیدت مند بلوائیوں کے ساتھ ایک متوازی ریاست نما نیٹ ورک کی شکل میں موجود تھا۔ جبکہ جدید ریاست خوفناک طرز کے جبر کے اداروں اور ثقافتی و تعلیمی ہیج منی رکھنے اپریٹس سے لیس افتادگان خاک کے طبقاتی شعور کو گمراہ کرنے کا کام کر رہی تھی اور جب یہ ملاقات پلٹنے لگی خاموشی نے دروازے تک اس مسافر کی رفاقت کی جس کے دل میں کربلا کا علم اور مستقبل کی
صبح پہلے ہی روشن تھی۔
***
گھر کے صحن میں رات اتر چکی تھی چراغوں کی لو نرم تھی، جیسے دھڑکتے دل کو ہوا سہلا رہی ہو۔
ہلکی سی دھیمی دھیمی قوالی دور کسی زاویے سے سنائی دے رہی تھی، جیسے وقت کے پردوں پر کوئی لطیف نغمہ چل رہا ہو۔
شیخ ابن عربی نے مسافر کو دروازے تک چھوڑا۔ مسافر کے قدموں میں ایک وقار اور تھکاوٹ تھی، جیسے تاریخ نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ہو۔
شیخ کی آنکھوں میں روشنی تھی وہ روشنی جو صرف اُن کو ملتی ہے جنہوں نے دنیا کو دیکھا بھی ہو اور دنیا کو چھوڑا بھی ہو۔ جب دروازہ نرم سی آہٹ کے ساتھ بند ہوا۔ ہوا میں ایک گونج باقی رہی
خاموش آواز کا نقش فضا پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔ شیخ پلٹے اور آہستہ سے چلتے ہوئے اپنے حجرے کی طرف بڑھے۔ اسی وقت شیخ کی اہلیہ چہرے پر روشنی کی ہلکی جھلک اور آنکھوں میں حیرت و فکرکے جھلملاتے سائے لیے سامنے آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں چراغ تھا جس کی روشنی ان کے چہروں پر پڑ رہی تھی اور لبوں پر سوال مچل رہا تھا۔ نرمی سے بولیں، "حضور، ایک بات پوچھوں؟" شیخ کی نظروں میں عادتاً سکوت جیسے سوال آنے سے پہلے ہی جواب ان کے قلب میں اتر چکا ہو۔ وہ بولیں، "وہ شخص، جو ابھی گیا، اس کے دل میں اہلِ بیتؑ کی محبت نظر آتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں ظلم کے خلاف آگ تھی۔ کیا وہ شیعہ تھا؟"
شیخ نے چراغ کی روشنی کی طرف دیکھا۔
لو لرزی جیسے حق نے لمحہ بھر چہرہ دکھایا ہو۔ انہوں نے کہا، "نہیں، وہ اپنے زمانے کے فتووں کے حساب سے شیعہ نہیں تھا۔ بی بی کے چہرے پر تعجب کی ہلکی سی لہر کا سایہ ابھرا، "تو پھر اس کے نام میں یہ حسینی کیوں ہے؟ دل میں ایسا جذبہ کیسے؟ اگر وہ اہلِ تشیع نہیں تو حسینی اس کے نام کے آخر میں کیوں تھا؟"
شیخ نے چند لمحے خاموشی اختیار کی۔ پھر آہستہ آواز میں فرمایا۔ آواز ایسی جو دل کو تھام لے، "حسینی ہونا، مذہب نہیں موقف ہے"۔
پھر شیخ نے نگاہ اٹھائی ایسی نگاہ جو وقت کے پار دیکھتی ہو وہ سچ کے ساتھ اور ظلم کے خلاف کھڑا ہے۔
یہی معنی ہیں حسینؑ کے ساتھ ہونے کے دین ہرگز نہیں بدلتا لیکن حق کے وارث کبھی کبھی نام بدل کر آتے ہیں "۔
بی بی حیرت زدہ رہ گئی اس کے دل میں تشکیک نے سر اٹھایا۔ کہنے لگیں، "مجھے لگتا ہے کہ آپ کا عرفان وجود مادہ سے گدلا ہوگیا ہے اور فلسفیوں کی طرح قدم حادث کے آپ قائل ہوگئے ہیں "۔
شیخ ابن عربی اس کی بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے، "شیطنت کی جہت ثلاثہ بلعم باعور کی مذھبی تدلیس تم پر وار کر رہی ہے۔ مسافر جس زمان و مکان سے آیا تھا اس عصر کے فرعون زر کے تاج پہنتے ہیں اور قارون اجارہ دار سامراجی سرمایہ کی وسیع و عریض سلطنت میں بیٹھے ہیں اور بلعم باعور مذہب کو اس اجارہ دارانہ سامراجی سرمائے کی دہلیز پر گروی رکھ چکے ہیں جو ان تینوں کے مقابل کھڑا ہو۔ وہ حسینی ہے، چاہے زمانہ اسے کوئی بھی نام دے"۔ پھر مسکرا کر بولے، "زمانہ اسے کمیونسٹ کہتا ہے مگر میں نے اس کے دل میں کربلا کی ضرب سنی ہے۔ اس میں روح بو زر کو جلوہ گر دیکھا ہے اور اس مسافر کو باب علم کی چوکھٹ سے گزر کر مساوات محمدی کے شہر مدینہ میں داخل ہوتے ہوئے پایا ہے"۔
بی بی نے چراغ ذرا نیچے کیا۔ ان کے چہرے پر اب بھی یقین کا نور نہیں تھا۔ شیخ نے ان کے چہرے کو ایک نظر غور سے دیکھا اور کہنے لگے، " اور یاد رکھو، جانِ من"، شیخ کی آواز میں نرمی اتری، "حسینی ہونا وراثت نہیں فیصلہ ہے"۔
دور رات کے آسمان میں ستارہ چمکا اور چند لمحوں کے لیے زیادہ روشن جیسے وہ بھی کہہ رہا ہو، "ہر دور کا ایک قافلہ ہوتا ہے اور اس کے اپنے حسینی ہوتے ہیں "۔

