Maulana Maududi Khutoot Ke Aaine Mein
مولانا مودودی خطوط کے آئینے میں

مولانا مودودی کے خطوط "مکاتیب سید ابو الاعلی مودودی" کے عنوان سے دو جلدوں میں جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کے اشاعتی اداروں سے شایع ہوئے۔ ان کے کئی ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ دو جلدوں میں مرتب کردہ یہ خطوط ساٹھ کی دہائی سے لیکر ان کی وفات کے دور تک کے منتخب خطوط ہیں۔ اس سے پہلے یعنی 20 سال قبل کے خطوط مرتبین کے مطابق دستیاب نہیں ہوسکے۔
یہ خطوط دراصل ان خطوط کے جواب میں ہیں جو پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے انھیں لکھے اور ان سے کئی معاملات بارے استفسار کیا۔ ان میں سے چند ایک خطوط ایسے ہیں جن میں سید ابو الاعلی مودودی سعودی عرب، اس کے بادشاہ ابن سعود سے ان کے تعلقات خاطر بارے اٹھائے گئے اعتراضات اور مولانا کی سعودی عرب کی طرف سے قائم کردہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی میں شمولیت سے متعلق ہیں۔
مولانا مودودی نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں بالخصوص اور اپنی دیگر درجنوں کتب و تحریروں میں اسلام کے نزدیک مثالی اور مطلوب اسلامی حکومت کا کامل نمونہ خلافت راشدہ کو قرار دیا تھا اور اس میں بھی انھوں نے خلیفہ راشد سوئم حضرت عثمان ابن عفانؓ کے کئی ایک اٹھائے گئے اقدامات کو خلافت راشدہ یا خلافت علی منہاج النبوت سے ہٹے ہوئے اقدامات قرار دیا اور پھر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور آیا جسے انھوں نے امیر معاویہ بن ابی سفیان سے شروع ہونے والے اموی دور، عباسی دور اور بعد میں آنے والی تمام حکومتوں کو ملوکیت پر مبنی قرار دیا اور اسے اسلام کے منافی بتلایا۔ نظری اعتبار سے ان کا موقف تھا کہ اسلام میں نہ تو ملوکیت کی گنجائش ہے نہ آمریت کی جبکہ جمہوریت کو انہوں نے چند شرائط اور تبدیلیوں سے مشروط کرتے ہوئے فی زمانہ اسلام کے اصول حکمرانی کے قریب تر قرار دیا۔ ملوکیت و آمریت کے بارے میں انھوں نے انتہائی سخت نظری موقف اختیار کیا۔
لیکن عملی اعتبار سے سید ابو الاعلی مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کے ساٹھ کی دہائی میں سعودی عرب اور اس کے بادشاہ ابن سعود سے خاص طور پر انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔ سعودی عرب نے ان کو سرکاری طور پر اپنا مہمان بنایا۔ ان سے سعودی عرب کی جامعات کے نصاب کی تشکیل میں مدد لی۔ ان کی کتابوں کی عربی زبان میں اشاعت کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی۔ جماعت اسلامی نے سعودی عرب کی بادشاہت کے پہلے برطانوی سامراج اور پھر امریکی سامراج سے تعلقات اور سعودی عرب کی امریکی سامراجی سرمایہ داری بلاک میں ایک اہم ترین شراکت دار کے طور پر شمولیت پر بھی کوئی ہلکی سی بھی تنقید نہیں کی۔
نظری اعتبار سے ان کی ملوکیت کے بارے میں جو پوزیشن اور موقف تھا اس کا عکس سعودی عرب کے باب میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔
سعودی عرب کی بادشاہت اور اس بادشاہت کے زیر سایہ پلنے والی وہابی مذھبی پیشوائیت نے رابطہ عالم اسلامی نام کی جو تنظیم قائم کی تھی وہ امریکی قیادت میں قائم سامراجی سرمایہ دارانہ نظام اور اس نظام کو مسلم ممالک میں پروان چڑھانے والی بادشاہتوں کے تعاون اور مدد سے اس زمانے میں سوویت یونین کی قیادت میں قائم کمیونسٹ بلاک میں شامل مسلم ممالک کی حکومتوں اور تحریکوں کے خلاف شدید پروپیگنڈے میں ملوث تنظیم تھی۔ سعودی عرب مڈل ایسٹ میں چلنے والی عرب نیشنلسٹ اور سوشلسٹ تحریکوں کی سخت مخالفت کررہا تھا۔ خاص طور پر مصر، لیبیا، شام، الجزائر، انڈونیشیا میں قائم عرب نیشنلسٹ پاپولسٹ حکومتوں کے خلاف سعودی عرب، یو اے ای، بحرین، اردن، کویت کی بادشاہتیں بہت سرگرم تھیں اور یہ سلفی /وہابی آئیڈیالوجی کے سہارے ان حکومتوں کو لا دین اور اسلام مخالف حکومتیں اور آمریت قرار دیتی تھیں۔ جماعت اسلامی اور سید مودودی بھی ان بادشاہتوں کے اس پروپیگنڈا میں پوری طرح سے شریک تھی۔
مولانا سے ان خطوط میں سے کئی خطوط ایسے تھے جو مولانا اور ان کی جماعت کے سعودی بادشاہت سے تعلقات اور ابن سعود سے گہری رفاقت بارے سوال میں یہ تنقید چھپی تھی کہ اگر عرب نیشنلسٹ حکومتیں آمریتیں تھیں اور آمریت اسلام کے خلاف تھیں اور وہاں کی مسلمان عوام کو ان حکومتوں کے خلاف اکساتی تھی کہ وہ ان آمریتوں کو اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکیں لیکن بادشاہت غیر اسلامی، جمہوری ہونے کے باوجود یہ ان کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے کبھی دکھائی نہیں دیتیں، کیوں؟ اس کیوں کا جواب بہت کچھ بتاتا ہے۔
ان ہی خطوط میں سے ایک 60ء کی دہائی میں لاہور میں کعبہ کے غلاف کی جماعت اسلامی کے تحت تیاری بارے استفسار کرتا ہے۔ مراسلہ نگار ان سے پوچھتا ہے کہ مولانا مودودی نے مزارات پر چڑھائی جانے والی چادروں کی رسوم بدعت سئیہ قرار دیا تو غلاف کعبہ کی رسم اس اصول سے کیسے مستثنا ہوسکتی تھی؟
مولانا اس کے جواب میں کوئی دلیل یا حدیث پیش کرنے کی بجائے اسے رسم غلاف کعبہ کا جواز فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔
ان مکاتیب سے پتا چلتا ہے کہ مولانا سعودی عرب سمیت عرب بادشاہتوں کی سرمایہ داری کو اسلامیائے جانے کے عمل کو لادینیت قرار نہیں دیتے تھے لیکن عرب قوم پرست حکومتوں کے اسلامی سوشلزم کو وہ لادین نظام قرار دیتے تھے۔
وہ جمال ناصر کی مصر میں حکومت ہو یا لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت یا عراق میں عبدالکریم کی حکومت ہو ایسے ہی انڈونیشیا میں سوئیکارنو اور الجزائر میں حبیب بورقیبہ یا شام میں حافظ الاسد یہ سب لادین حکومتوں میں شامل تھے۔ کیونکہ یہ سب مسلم عرب قوم پرست اشتراکی نظریہ کی حامل حکومتیں تھیں اور ان کا رجحان سوویت یونین کی طرف جھکاو والا تھا۔
مولانا کے اس موضوع پر خطوط صاف واضح کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک سرمایہ داری کی حامی قوتیں اسلام کے لیے خطرہ نہیں تھیں بلکہ اصل خطرہ عرب قوم پرست سیکولر، سوشلسٹ جو اپنے آپ کو اسلامی سوشلسٹ کہلاتی تھیں سے اسلام شدید خطرے میں تھا۔
مولانا کی زندگی میں ہی جماعت اسلامی پاکستان نے 70ء کی دہائی میں جنرل یحییٰ کی آمریت کی حمایت کی اور بعد ازاں 80ء کی دہائی میں اس نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی حمایت کی اور اس کا نام نہاد اسلامی چہرہ آمریت کے ساتھ قابل قبول تھا جس طرح مولانا مودودی کے لیے سعودی بادشاہت کا اسلامی لبادہ اس کے اسلامی ہونے کے لیے کافی تھا۔
مولانا مودودی ایک خط میں ایوب خان کے زمانے میں معروف سیکرٹری اطلاعات و نشریات قدرت اللہ شہاب کی طرف سے انھیں عرب اور افریقی مسلم ممالک میں جماعت اسلامی کے لٹریچر کی عربی میں اشاعت میں مدد دینے کے لیے ایوب آمریت سے زرمبادلہ کی فراہمی میں مدد فراہم کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انھیں یہ تعاون اس حکومت سے لینے میں ذرا عار محسوس نہیں ہوتا جسے وہ 64ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر بڑی برائی قرار دے کر ختم کرنے اور محترمہ فاطمہ جناح کو چھوٹی برائی قرار دے کر ان کی حمایت کا جواز فراہم کرتے ہیں۔
ایک اور خط میں مولانا مودودی کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی مصر کے حکمران جمال عبدالناصر کے خلاف کفر کا فتوی نہیں دیا۔ لیکن مولانا مودودی اپنے اس خط میں یہ وضاحت نہیں کرتے کہ اگر جمال ناصر ان کے نزدیک کافر نہیں تھا تو پھر ان کی جماعت سید قطب کی متنازعہ ترین کتاب معالم فی الطریق کا اردو ترجمہ "جادہ و منزل" کے نام سے کرکے لاکھوں کی تعداد میں شایع کرکے کیوں تقسیم کر رہی تھی؟ یہ وہ کتاب تھی جس میں اخوان المسلمون کے مرشد عام سید قطب نے مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت اور اس کے سیاسی و معاشی نظریات کو کفر قرار دیا تھا۔ یہی موقف سید قطب کا اس زمانے میں عرب نیشنلسٹ حکومتوں کے بارے میں تھا۔
سید مودودی نے 1970ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے انتخابی منشور میں شامل اسلامی سوشلزم کے نام پر موجود معاشی پروگرام کو لادینیت اور کفر قرار دیا۔ بلکہ سید مودودی نے تو یہاں تک کہا "پاکستان میں سوشلزم کا نام لینے والوں کی زبانیں گدی سے باہر کھینچ لیں گے" یہ صاف صاف دھمکی تھی۔ سید مودودی اور ان کی جماعت کو نیشنلائزیش، جاگیرداری کے خاتمے کی بات غیر اسلامی لگتی تھی۔

