Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Marz Barhta Gaya Joon Joon Dawa Ki

Marz Barhta Gaya Joon Joon Dawa Ki

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

پروگرام برائے انسداد غربت پاکستان (پی پی ای ایف) جس کے پاس 9 ارب سے کچھ زائد کے فنڈ ہیں۔ یہ 20 ہزار سے 50 ہزار روپے کے بلا سود قرضے ایسے گھرانوں کو فراہم کرتا ہے جن کا غربت میں اسکور کارڈ صفر سے چالیس کے درمیان ہوتا ہے۔ قرضہ کاروباری مقاصد کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان اس پروگرام کے تحت یہ قرضے مائیکرو فنانس کریڈٹ بینکوں، ملکی و صوبائی اور ریجنل سطح پر کام کرنے والی این جی اوز کے ذریعے سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ 9 ارب سے زائد مالیت کا یہ فنڈ پروگرام 84 فیصد امدادی رقم یو ایس ایڈ سے ملی رقم سے تشکیل پایا جبکہ باقی کی رقم بھی دیگر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی گرانٹ اور امداد سے میسر آئی۔

جس سماج میں غربت کی شرح عالمی بینک کی طرف سے پیمانہ غربت میں (10 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا غریب کہلائے گا۔ جبکہ گزشتہ سال، 8400 روپے ماہانہ کمانے والا شخص غریب تھا۔ پاکستان میں 88فیصد آبادی روزانہ 1 ڈالر یعنی 280 روپے کما پاتی ہے یہ تعریف خود عالمی بینک جیسے عالمی سامراجی ادارے کے لیے خوفناک اور ناقابل برداشت غربت کے اعداد و شمار لیکر آتی تو اس نے غربت کی نئی تعریف متعین کی) کے مطابق 10 کروڑ افراد غریب ہوں۔ اس ملک میں اگر یہ سارا فنڈ فی کس 20 ہزار قرض میں دیا جائے تو کل 4 لاکھ 20 ہزار افراد کو قرضہ ملے گا اور اگر فی کس 50 ہزار روپے دیے جائیں تو کل ملا کر 1 لاکھ 80 ہزار کو یہ قرضہ ملے گا۔

10 کروڑ غریب لوگوں میں سے یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر بنتی ہے۔

دوسرا 20 ہزار اور 50 ہزار کا قرضہ 0.16 اور 0.40 کا غربت اسکور رکھنے والے افراد میں سے جنھیں ملے گا وہ کون سا ایسا کاروبار کر پائیں گے جس سے انھیں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 1500 سے 2000 روپے کی آمدن ہو اور وہ صرف اپنا روزمرہ کا کم از سے کم خرچ پورا کر پائیں گے؟

جو سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے اس پی پی ای ایف فنڈ سے گزشتہ 45 سالوں میں دیہی اور نیم قصباتی آبادی کے علاقوں میں غربت کے خاتمے کا پروگرام چلا رہے ہیں ان کے پاس چاروں صوبوں میں کوئی ایک قصبہ، دیہات ایسا ہے جہاں وہ دکھائیں کہ وہاں غربت کی شرح کم ہوئی ہو؟

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے بھی زیادہ تر رقم ورلڈ بینک سمیت عالمی مالیاتی اداروں سے میسر آتی ہے اور یہ صرف خالص امداد نہیں بلکہ اس میں گرانٹس (عموما 2 فیصد مارک پر) اور نرم قرضے (5 سے 7 فیصد) بھی شامل ہیں۔ اس پروگرام میں 93 لاکھ گھرانے رجسٹرڈ ہیں اگر ہم اوسط فی گھرانا 6 افراد لگائیں تو یہ 5 کروڑ 18 لاکھ افراد بنتے ہیں۔ ان میں گزشتہ مالیاتی سال 2024-25 میں کل ملاکر 558 ارب 7 کروڑ 10 لاکھ روپے 93 لاکھ گھرانوں کو دیے گئے۔ یہ 5 کروڑ 18 لاکھ گھرانوں میں فی فرد 11 ہزار 5 سو 44 روپے سالانہ بنتے ہیں اور مہینے کے یہ مشکل سے ایک ہزار روپے سے بھی کم بنتے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی ریاست کا حکمران طبقہ غربت کے خاتمے کے لئے جتنے بھی پروگرام چلا رہا ہے وہ غربت کے خاتمے میں عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔

جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور کا جب خاتمہ ہوا تو پاکستان میں عالمی بینک کے مطابق غربت کی شرح (86-87) میں 29 فیصد اور سال 88ء میں یہ (31 فیصد) تھی۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بشمول نگران حکومتیں کے کل ملاکر قریب قریب 11 سال میں غربت کی شرح اوسطا 1997ء تک 30 فیصد رہی (1998ء میں یہ خشک سالی اور دیگر وجوہات کے سبب پہلے 35 فیصد پھر 40 فیصد ہوگئی)۔ 1999ء میں جب نواز شریف کی حکومت گئی تو یہ شرح 35 فیصد تھی۔

مشرف کے کل ملا کر 8 سال میں 2000ء میں غربت کی شرح کو آگ لگی اور یہ 60 فیصد تک چلی گئی۔ 2001ء میں یہ 64 فیصد پہ گئی، 2002 میں یہ 51 فیصد اور 2003ء میں یہ 50ء فیصد پر آئی۔ 2004ء سے 2007ء تک یہ 44ء فیصد سے کم ہوتی ہوتی 2007ء میں 29 فیصد تک آگئی۔ لیکن 2008ء کے مالی سال میں یہ شرح پھر اوپر گئی 30 فیصد ہوگئی۔ لیکن اگلے چار سالوں میں یہ 28ء سے 29 فیصد رہی۔ 2013ء میں یہ 30 فیصد ہوئی اور اگلے چار سالوں میں 30 سے کم ہوکر یہ 28 فیصد پہ آگئی۔ عمران خان کے دور میں یہ 28 فیصد سے کم ہوتے ہوتے 2021-22 کے مالیاتی سال میں 22 فیصد پر آگئی۔ اگلے تین مالیاتی سالوں میں یہ شرح بڑھنے لگی یعنی 2024-25 کا مالیاتی سال جو 30 جون کو ختم ہوجائے گا شرح غربت 44 فیصد سے زائد ہے۔ یہ 24 کروڑ آبادی کے 10 کروڑ لوگ بنتے ہیں۔

عالمی بینک اگر اپنے پرانے غربت کے پیمانے پہ رہتا تو یہ 24 کروڑ میں 20 کروڑ غریبوں کا ملک ہے۔

پاکستان میں 1979ء سے لیکر 2025ء تک بجٹ کی تاریخ میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی منصوبہ بند معشیت اور سوشل ڈیموکریٹک اصلاحات کی واپسی کا عمل شروع ہوا اور معشیت بتدریج آزاد منڈی کی معشیت کی طرف بڑھی اس وقت سے مسلسل قرضوں کا حجم بڑھتا چلا گیا۔

بھٹو صاحب نے اپنا آخری بجٹ جون 1979ء میں پیش کیا اور اس کے مطابق کل غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی شرح جی ڈی پی کا 7 فیصد تھی۔ دفاعی بجٹ 6 فیصد تھا۔ اگلے دو سالوں میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کل جی ڈی پی کے 19 فیصد اور خالص دفاعی بجٹ 7 فیصد اور دفاع میں غیر ترقیاتی دفاعی اخراجات 15 فیصد تھے۔ (اب یہ سویلین مد میں شامل ہونے لگے ہیں)۔ نوے کی دہائی میں غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کل جی ڈی پی کا 38 فیصد ہوگیا۔ اب مالی سال 2024-25 غیر ملکی قرضوں کی مد میں ادائیگی 53 فیصد، خالص دفاعی بجٹ 11 فیصد، حکومتی اخراجات 21 فیصد (اس میں فوج کو جانے والی تنخواہیں، پنشن بھی شامل ہے) [فوجی گرین کمپنی سمیت دیگر سپلیمنٹری گرانٹس الگ سے ہیں۔ 51 سے زائد کمرشل ایکٹیویٹی پہ ٹیکس چھوٹ اور دیگر سبسڈی الگ ہیں] ہوچکے ہیں۔

ایک طرف اگر بجٹ میں غیر ملکی قرضوں، حکومتی اخراجات، دفاعی اخراجات گزشتہ 45 سال کے اندر بڑھتے ہوئے کل جی ڈی پی کا 85 فیصد ہوگئے ہیں اور ملکی کمرشل بینکوں کا قرضہ پر ادائیگی 8 فیصد ہے۔ یہ کل جی ڈی پی کا 93 فیصد بنتا ہے۔

تو دوسری طرف جی ڈی پی پر اس 93 فیصد بوجھ نے تعلیم، صحت، سوشل سیکورٹی نیٹ ورک سمیت سالانہ ترقیاتی پروگرام پر مسلسل کٹوتی کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ حکومت نے مالیاتی سال 2024.25 میں جو بجٹ پی ایس ڈی پی۔ سالانہ قومی ترقیاتی پروگرام، تعلیم، صحت و دیگر ترقیاتی مد میں مختص کیا اس میں اسے 22 فیصد مزید کٹ لگانا پڑا۔ نئے مالیاتی سال میں یہ کٹوتی 44 سے 50 فیصد بتائی جارہی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan