Marxist Perspective Aur Qaum Parastana Perspective
مارکسسٹ پرسپیکٹو اور قوم پرستانہ پرسپیکٹو

پاکستان میں مظلوم و مجبور و محکوم اقوام۔ پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی، کشمیری و گلگتی بلتی قومی تحریکوں میں شامل پیٹی بورژوازی طبقے کے قوم پرست دانشوروں کے ہاں پاکستان کی ریاست اور اس کی جانب سے ان کی اقوام پر قومی جبر و استبداد کا تجزیہ کرتے ہوئے سب سے گمراہ کن اور متعصب نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ وہ دشمن طبقات کی صف میں پنجاب کے محنت کش طبقات، شہری و دیہی غریبوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں اور اس طرح سے وہ پاکستان کی ریاست کی ساخت اور اس کے حکمران طبقات کے کردار بارے مارکسسٹ تجزیے اور پرسپیکٹو پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
مارکسسٹ پرسپیکٹو پاکستان جیسی ریاست کی ساخت اور اس کے حکمران طبقات کے کردار کا سماجی معاشی تجزیہ کرتے ہوئے جہاں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ اس ریاست اور سماج کا بنیادی تضاد طبقاتی تضاد ہے جو معاشی استحصال کی بنیاد ہے وہیں وہ اس ریاست اور سماج میں قومی تضاد کو بھی ایک حقیقت سمجھتے ہیں جو پاکستان کی ریاست اور اس کے غالب حکمران طبقات کا پیدا کردہ ہے اور اس تضاد کی بنیاد پر پشتون، بلوچ، سرائیکی، سندھی، کشمیری اور گلگتی بلتی اقوام پر قومی جبر و استبداد مسلط ہے اور اس ان اقوام کے محنت کش طبقات شہری و دیہی غریبوں کا صرف معاشی استحصال ہی نہیں ہورہا بلکہ ان اقوام پر قومی ظلم، جبر و استبداد بھی ہورہا ہے۔ یہ اقوام صرف معاشی استحصال کے سبب محکومیت کا شکار نہیں ہیں بلکہ یہ قومی جبر و ظلم و استبداد کے سبب مظلوم و مجبور و محکوم اقوام بھی ہیں۔
اس لحاظ سے پاکستان کی ریاست کے حکمران طبقات صرف معاشی استحصال کنندہ ہی نہیں بلکہ وہ قومی و نسلیاتی جبر و ظلم و استبداد کے بھی مرتکب ہیں۔ مارکسسٹ پرسپیکٹو یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کے حکمران طبقات ظالم، جابر، مستبدد ہیں۔ ان کا پاکستانی نیشنل ازم نرا نیشنل شاونزم ہے۔
مارکسسٹ پرسپیکٹو یہ کہتا ہے کہ پنجابی قوم کے محنت کش، شہری و دیہی غریب طبقات پاکستان کی ریاست اور اس کے حکمران طبقات کی طرف سے جہاں طبقاتی شعور بارے گمراہی کا شکار ہیں وہیں وہ اس ریاست اور اس طبقات کے متعصب قوم پرستانہ پاکستانی نیشنل ازم اور اس کے نسلیاتی ثقافتی متعصبانہ پروپیگنڈے کے سبب مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے بارے میں نیشنل و ایتھنک شاونزم / قومی و نسلیاتی ثقافتی تعصب کا بھی شکار ہیں۔ وہ پنجابی محنت کشوں، شہری و غریب گروہوں کو "دشمن، استحصالی، ظالم و جابر و مستبد طبقات میں شامل نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بلکہ وہ پنجابی محنت کش طبقات کے گمراہ کن شعور کو ٹھیک کرنے کی تگ و دود کرتا ہے۔
مارکسسٹ پرسپیکٹو ایک طرف تو پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران طبقات کے خلاف طبقاتی شعور سے مسلح کرنے کی نظریاتی اور عملی جدوجہد کرتا ہے تو دوسری طرف انھیں ریاست اور اس کے حکمران طبقات کے مظلوم و مجبور و محکوم اقوام پر ہونے والے قومی جبر و استبداد اور ظلم کے خلاف غیر مصالحانہ لڑائی لڑنے کی طرف لیجاتا ہے۔ انھیں اور کراتا ہے کہ ان کے معاشی استحصال سے نجات کا دارومدار صرف طبقاتی جدوجہد سے ہی مشروط نہیں ہے بلکہ مظلوم و مجبور و محکوم اقوام پر ہونے والے قومی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف لڑائی سے بھی مشروط ہے۔
مارکسسٹ پرسپیکٹو قومی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف ہر مارکسسٹ پر لازم کرتا ہے کہ وہ تمام مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اصول جس میں علیحدگی کا حق بھی لازمی طور پر شامل ہے کی بلا مصلحت اور غیر مشروط حمایت کرے۔ جو مارکسسٹ ایسا نہ کرے وہ اسے بھی شاونسٹ، نسل پرست اور ظالم و جابر حکمران طبقات کا حامی سمجھتا ہے۔ لیکن یہ ظالم و جابر و حاکم طبقات سے محض قومی و نسلیاتی شناخت کے اشتراک کی بنیاد پر محنت کش طبقات کے کسی سیکشن کو نہ تو حکمران طبقات میں شامل کرتا ہے نہ انھیں دشمن طبقات کی صف میں شمار کرتا ہے۔
یہ مارکسسٹ پرسپیکٹو محنت کشوں کی بین الاقوامی یک جہتی، اتحاد اور جڑت کے بنیادی اصول کی پاسداری کرتا ہے جو دنیا بھر کے محنت کشوں کو سرمایہ دار طبقے کے خلاف عالمی اتحاد میں جوڑتا ہے۔
دوسری طرف مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے قوم پرست پیٹی بورژوازی دانشور ہیں جو اپنی اقوام کے محنت کش طبقات، شہری و دیہی غریبوں کو پاکستان کی ریاست اور اس کے حکمران طبقات کے استحصال، قومی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف کھڑا کرنے اور ان سے لڑنے تک محدود رکھنے کی بجائے ریاست کے حکمران طبقات سے قومی و نسلیاتی اشتراک کی بنیاد پر پنجابی محنت کش طبقات کو بھی ظالم، جابر، حاکم اور غالب طبقات میں شامل کر دیتا ہے اور ان کے خلاف قومی و نسلیاتی۔ ثقافتی منافرت و تعصب پھیلاتا ہے اور ان کے خلاف تشدد و دہشت پسندی کو ابھارتا ہے۔
وہ پاکستانی نیشنل شاونزم اور پنجابی شاونزم کو پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران طبقات کی پیداوار قرار دینے کی بجائے اس میں پاکستان کے پنجابی محنت کشوں و شہری و دیہی غریبوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ وہ قومی جبر و ظلم و استبداد کو پنجابی حکمران طبقات تک محدود نہیں کرتا۔ وہ ایسا کرتے ہوئے سماجی طبقاتی سائنس کے اس بنیادی اصول اور سچائی کو جھٹلاتا اور چھپاتا ہے کہ کسی بھی سرمایہ دارانہ سماج اور ریاست میں جو غالب نظریات ہوا کرتے ہیں وہ سرمایہ دارانہ حکمران طبقے کے نظریات ہوتے ہیں چاہے وہ معاشی استحصال، طبقاتی تفریق و تقسیم کو جواز فراہم کرت ہوں یا قومی ظلم و جبر و استبداد کو جواز فراہم کرتے ہوں۔
پاکستان کی پنجابی قوم پرست پیٹی بورژوازی جس طرح سے پنجابی متعصب قوم پرستی کے سہارے سے پنجابی حکمران طبقات کے اپنی ہی قوم کے معاشی استحصال اور محکومیت کو چھپاتی اور ان حکمران طبقات کے دوسری اقوام پر قومی و نسلیاتی ثقافتی ظلم، جبر و استبداد کو چھپاتی ہے اور پنجابی محنت کش طبقات میں پنجابی قوم پرستانہ و نسل پرستانہ تعصب کو پروان چڑھاتی ہے اور انھیں مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے خلاف ریاست اور اس کے حکمران طبقات کے قومی ظلم و جبر و استبداد اور ان کے مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے خلاف نوآبادیاتی طرز حکمرانی کے جواز تلاش کرتی ہے اور پنجابی محنت کش طبقات کو ریاست پاکستان کے حکمران طبقات کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہے ویسے ہی مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کی پیٹی بورژوازی دانش اپنی قوم کے محنت کشوں کو پنجابی قوم کے محنت کشوں کا دشمن بناتی ہے اور یوں وہ پاکستان میں محنت کش طبقات کی طبقاتی استحصال اور قومی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف متحد ہوکر لڑنے اور جدوجہد کرنے سے روکتی ہے۔ اس مقام پر مارکسسٹ اور قوم پرستوں کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں۔
یہ مارکسسٹ پرسپیکٹو طبقاتی تخفیف پسندی Class reductionist رجحان نہیں ہے کیونکہ یہ صرف طبقاتی جدوجہد کو ہی نہیں بلکہ قومی ظلم و جبر اور استبداد کی ہر قسم اور ہر شکل کے خلاف نظریاتی اور عملی جدوجہد کو بھی ہر صورت میں شامل رکھتا ہے۔ یہ تخفیف پسندانہ رجحان اس وقت کہلاتا اگر اس پرسپیکٹو میں ریاست پاکستان اور اس کے حکمران طبقات کے قومی ظلم و جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کو شامل نہ کیا جاتا۔

