Martaz Jinsiat Aur Hamara Zamana
مرتاض جنسیت اور ہمارا زمانہ

یہ جو ہماری نسل 80ء کی دہائی میں سن شعور کو پہنچ رہی تھی اس دہائی میں ان کے شعور کو پراگندہ اور ژولیدہ کرنے میں بہت بڑا کردار اس فحش، جنسیت زدہ اور گھٹیا سطح کے نثری تحریری لٹریچر سے تھا جو گمان غالب یہ ہے کہ 60ء کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے شروع میں بڑی تعداد میں ہماری ان گلی محلوں کی سستی لائبریریوں تک پہنچنا شروع ہوا، جہاں سے کم و بیش سبھی پرائمری سے آگے جانے والے بچے کتابیں کرائے پر لیکر پڑھنا شروع کرتے تھے۔ دوسرا عنصر وہ 80ء کی دہائی کے وسط سے شروع ہوا جب وی سی آر اور فلمیں کرائے پر دستیاب ہونا شروع ہوئیں اور پورن فلمیں آسانی سے دستیاب ہونے لگیں اور 80ء کی دہائی کے آخر میں پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں بنے سینما گھروں میں پہلے "ٹوٹا کلچر" اور پھر گھٹیا پشتو فلموں کی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا۔
میں چوتھی کلاس میں تھا جب ہماری گلی میں میرے گھر کے ساتھ والے گھر سے تعلق رکھنے والے لڑکے نے جو عمر میں مجھ سے پانچ یا چھے سال بڑا تھا اور ہماری گلی کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا نے ہمارے شہر کی سب سے مشہور لائبریری قریشی لائبریری سے مجھے متعارف کرایا اور میری طرف سے زر ضمانت جو دس روپے تھا اس نے جمع کرایا۔ پانچویں کلاس میں ہونے کے وقت میں نے اس لائبریری سے اثر نعمانی وغیرہ کے مغربی سراغ رسانی پر مشتمل ناولوں کے ترجمہ و تلخیص پڑھنا شروع کر دیے تھے اور پھر میں نے اسی زمانے میں کئی پاپولر رومانوی ناول نگاروں کو پڑھا۔ اس لائبریری میں گلشن نندہ اور دت بھارتی کے بہت سارے ناول تھے۔
گلشن نندہ کے ناولوں میں کاجل، ساون کی گھٹا، شریمان فقیر، نیند ہماری خواب تمہارے، کھلونا، خوشبو، جھیل کے اس پار، پتھر کے صنم، ہمراہی، شگن، شرمیلی، گمنام، ایک ہی راستہ اور اندھیرا اجالا جیسے عنوانات شامل ہیں، جو رومان، جذباتی کشمکش، قربانی اور متوسط طبقے کی نفسیات کے گرد گھومتے ہیں اور جن میں سے متعدد بعد ازاں فلمی صورت میں بھی غیر معمولی مقبول ہوئے۔
دت بھارتی کے ناولوں میں ایک لڑکی کا خواب، محبت ایک سزا، چاندنی راتیں، تنہائی کا دکھ، شام کے سائے، ادھوری محبت، دل کے زخم، خاموش چاہت، اک قصہ محبت کا، پیار کی راہیں، ٹوٹے سپنے، یادوں کے سائے اور بے نام رشتہ جیسے عنوانات شامل ہیں، جو زیادہ تر ڈائجسٹ ادب کے تناظر میں نسوانی جذبات، گھریلو زندگی، ناکام یا ادھوری محبت اور داخلی کرب کی کہانیوں پر مشتمل ہیں۔
اس سے زرا اور نیچے کے پاپولر رومانوی ناول نگار جن میں مینا ناز، ناز کفیل گیلانی، بشری رحمان وغیرہ شامل تھے کو بھی میں نے مڈل درجے تک پڑھ ڈالا تھا۔ ان کے ناولوں میں جنس کا بیان لطیف پیرایے میں اور کہیں کہیں صاف اشاروں میں ہوا کرتا تھا۔ ہمارے نزدیک وہ بھی کافی بے باک بیانیہ تصور ہوتا تھا۔
پانچویں کلاس کا میں طالب علم تھا تو میرے اسی بڑی عمر کے دوست نے مجھے وہی وہانوی کی دو ناول نما کتابیں پڑھنے کو دیں۔ یہ بہت ہی گھٹیا اور عامیانہ سطح کی کتاب تھی جس میں جنسی اعضاء اور ان کے افعال کا بیان قریب قریب اسی زبان میں تھا جو ہمارے ہاں گالیوں اور فحش گفتگو میں استعمال ہوا کرتا تھا۔ مجھے ان کو پڑھنے سے زرا لطف نہ آیا۔ وحشت ہوئی اور میں نے پھر اسے کبھی نہ پڑھا لیکن میری عمر کے اور کئی مجھے سے عمر میں بڑے لڑکے ان کو بڑی دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے۔ مڈل سے ہائی اسکول کے دورانیے کے درمیان مجھے جنسیت سے بھرپور رومانوی ناول لکھنے والے ایک مصنف زاہد حسن کو پڑھنے کا موقعہ ملا جو 60ء کی دہائی کے ڈائجسٹوں میں چھپنے والے مقبول ناول تھے اور 80ء کی دہائی میں وہ کتابی شکل میں دستیاب تھے۔
"پیرس کی راتیں" اور "بیروت کی رات" یہ نام مجھے یاد رہ گئے دونوں ناول زاہد حسن کے قلم سے لکھے گئے تھے، جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے عوامی، رومانوی اور نیم سنسنی خیز ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان ناولوں میں یورپی اور عرب شہروں کی راتوں، محبت، تنہائی، جنس، اجنبیت اور بیرونِ ملک مشرقی انسان کے داخلی کرب کو موضوع بنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ تخلیقات ڈائجسٹ اور بازار میں فروخت ہونے والے ادب میں خاصی مقبول ہوئیں۔ زاہد حسن کا اسلوب اس دور کے پاپولر فکشن کی نمائندگی کرتا ہے جہاں قاری کی فوری جذباتی دلچسپی اور شہری فضا کی کشش کو مرکزی اہمیت حاصل تھی اور اسی روایت میں ان کا شمار گلشن نندہ اور دت بھارتی جیسے ناول نگاروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے نویں، دسویں میں اسکول کے زمانے میں کچھ ایسے اساتذہ اور طالب علموں سے انٹریکشن میں آنے کا موقعہ ملا جن کی رہنمائی سے میں اس لائبریری سے ایک طرف تو مولانا عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی، عنایت اللہ وغیرہ کے تاریخی ناولوں کو پڑھ پایا ہوسکتا تھا کہ میں اس مخصوص طرز فکر اور نظریہ میں رہے بسے تاریخی ناولوں میں پھنس کر رہ جاتا کہ اپنے اساتذہ اور سینئر طالب علموں کی رہنمائی نے مجھے چالیس کی دہائی سے شروع ہونے والے افسانہ نگاری سے جڑے بڑے اور اہم ناموں کو پڑھنے کا موقعہ فراہم کیا تو ساتھ ہی میں نے اردو ناول نگاری کے اس زمانے کے قریب قریب سب ہی اہم ناموں کے کئی ایک ناول پڑھ ڈالے۔
انٹر میڈیٹ میں میرا پہلی دفعہ تعارف روسی ناولوں اور کہانیوں کے اردو تراجم سے ہوا۔ سب سے پہلا ناول میں نے میکسی گورگی کا "ماں" پڑھا۔ پھر دوسرا ناول دستوفسکی کا ایڈیٹ پڑھا۔ تیسرا ناول ٹالسٹائی کا اینا کریننا پڑھا۔ جو کچھ سمجھ آئے اور کچھ نہ سمجھ آئے۔ میری مغربی ادب کو پڑھنے کی ٹھیک طرح سے تربیت گورنمنٹ کالج لاہور میں شروع ہوئی جب میں نے مغربی ادب کو براہ راست انگریزی میں پڑھنا شروع کیا۔ فلسفہ اور سائیکالوجی بی اے میں میرے آپشنل مضمون تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے ہاں بلیو فلمز، پورن اور ٹوٹا کلچر ایک سیلاب کی طرح آیا ہوا تھا۔
مارکیٹ میں فحش تصویری کارڈز، رسالوں اور کہانیوں پر مشتمل لٹریچر کی بھرمار ہوئی تھی۔ مرتاض جنسیت نے ہماری نسل کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ ہماری فلم، تھیڑ ڈرامے کی روایت برباد ہوچکی تھی۔ لیفٹ کیا مجموعی طور پر لبرل، ترقی پسند روایت مکمل زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس زمانے میں این سی اے کے کچھ استاد، آرٹسٹ کے ساتھ ہمارا تعلق ہمارے بہت کام آیا جنھوں نے ہمیں پورن اور نیوڈ آرٹ میں تمیز کرنا سکھائی۔ یہ تعلق نہ ہوتا تو شاید ہم بھی مرتاض جنسیت کے قیدی ہوتے اور ہمارا جنس کی طرف شعور اور نفسیات میں کج روی شدت کے ساتھ جڑ پکڑ لیتی ہم جنس بارے کبھی صحت مند رویے کے حامل نہ ہوجاتے۔
ہماری مدد فیمنسٹ لٹریچر نے بھی کی خاص طور پر اثر ریسورس سنٹر لاہور نے جو لٹریچر اس حوالے سے شایع کیا اور وہ ہم تک پہنچا اس کے مطالعے نے بھی ہمیں بے راہ روی سے محفوظ رکھا وگرنہ ہماری نسل کے بہت سارے لوگ کیا ترقی پسند اور کیا رجعت پسند وہ مرتاض جنسیت سے آج تک اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں۔

