Ma Baad Marshal Law Aur Peoples Party
مابعد مارشل لاء اور پیپلزپارٹی

جگت مرشد اور ہمارے پیارے شاہ جی نے "یہ جو ملتان سے محبت ہے" کی پانچویں قسط لکھی ہے۔ اس قسط میں ذکر ہے ملک میں مارشل لاء لگ جانے کے بعد ملک میں پیپلزپارٹی سے الگ ہونے والے اور بھٹو پر سوشلسٹ تحریک کو ناکام کرنے کی ساری ذمہ داری ڈالنے والے ان ممتاز سیاسی رہنماؤں کا جنھوں نے ترقی پسندی کے نام پر نئی سیاسی جماعتوں کی داغ بیل ڈالنے کی شروعات کی اور ان میں سے ایک جماعت کی تشکیل ملتان میں کیسے ہوئی اس کا تذکرہ شاہ نے جامع انداز میں کیا ہے۔
پیپلزپارٹی میں شامل ترقی پسند ہوں یا اس کے باہر موجود ترقی پسند ہوں ان میں سے کوئی ایک بھی سیاست دان ایسا نہیں تھا جس نے پاکستان میں 68-69 کی بھرپور عوامی تحریک کے مکمل سوشلسٹ انقلاب میں نہ بدلنے اور اس تحریک کے بعد ازاں رد انقلاب میں بدل جانے کا کوئی ٹھوس، ہمہ جہت سائنسی تجزیہ کیا ہو اور اس کی روشنی میں اپنی حال اور مستقبل کی سیاسی لائن کا تعین کیا ہو۔
ایک تو ان ترقی پسند رہنماؤں کا اس وقت کے حالات کا معروضی تجزیہ بہت زیادہ یک رخا تھا۔ دوسرا انہوں نے اپنی حقیقی سیاسی طاقت اور کمزوریوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں زیادہ تر ترقی پسند رہنماؤں کا تعلق پڑھے لکھے درمیانے طبقے سے تھا۔ پھر ان میں جو خالص سوشلسٹ تھے وہ زیادہ تر چین نواز کمیونسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا اور یہ زیادہ تر طلباء سیاست اور کسی حد تک کسان ٹریڈ یونین سیاست کا تجربہ رکھتے تھے۔ دوسرے بڑے ترقی پسند کراچی، حیدر آباد سے تعلق رکھتے تھے اور وہ زیادہ تر طلباء سیاست اور مزدور ٹریڈ یونین سیاست سے جڑے ہوئے تھے۔ طلباء، مزدور سیاست بھی زیادہ تر تین چار بڑے شہروں میں اور وہ بھی پاکٹس میں بٹی ہوئی تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی جو ایک نو زائیدہ سیاسی جماعت تھی۔ اسے بنے ہوئے ابھی بمشکل ایک سال ہی ہوا تھا کہ اسے انتخابی معرکے میں اترنا پڑا۔ پیپلزپارٹی میں شامل لیفٹ جو زیادہ تر چین نواز کمیونسٹ دھڑوں میں بٹا ہوا تھا اور ان کے درمیان بھی آپس میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں تھی۔ ہر دھڑا اپنے سیاسی قائد کے تحت اپنی اپنی راہ پر گامزن تھا نے پہلے تو الیکشن میں حصہ لینے کے سوال پر کنفیوژن دکھائی۔ کراچی میں چین نواز کمیونسٹ دھڑے کی نمائندگی معراج محمد خان کر رہے تھے۔ پنجاب میں کئی دھڑے تھے۔ راولپنڈی میں اس دھڑے کی قیادت خورشید حسن میر، لاہور میں ایک دھڑا شیخ رشید احمد کا تھا، دوسرا دھڑا ڈاکٹر مبشر حسن کا تھا۔ تیسرا دھڑا شیخ رفیق اور رانا شوکت محمود وغیرہ کا تھا۔ طلباء سیاست میں ایک دھڑا چین نواز کمیونسٹ گروپ کے زیر اثر این ایس ایف کا تھا جو معراج محمد خان کے زیر اثر تھا اور اس کی قیادت راجہ انور جیسے لوگ کر رہے تھے۔ فیصل آباد جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا گڑھ تھا وہاں رانا مختار جیسے تھے جو اپنا گروپ رکھتے تھے۔
پیپلزپارٹی میں کٹر کمیونسٹ نظریات سے ہٹ کر ایک اور دھڑا بھی تھا جو اسلام اور سوشلسٹ نظریات میں باہمی میلاپ سے اسلامی سوشلزم کا علمبردار بنا ہوا تھا۔ اس کے نظریہ سازوں کا تعلق بھی زیادہ تر پنجاب سے تھا بلکہ یوں کہیں اس کا جتنا زیادہ اثر تھا وہ پنجاب میں ہی تھا۔ اس کی علمبرداری حنیف رامے، مولوی کوثر نیازی، ڈاکٹر فتح محمد ملک جیسے لوگ کر رہے تھے۔ حنیف رامے کنونشن لیگ سے بھٹو کے ساتھ آئے تھے۔ کوثر نیازی جماعت اسلامی سے آئے تھے۔ یہ پنجاب کی اربن پروفیشنل مڈل کلاس میں خاص طور پر مقبول تھے۔
پیپلزپارٹی میں شامل چین نواز سوشلسٹ دھڑے چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی میں صرف اور صرف مزدور، کسان، شہری اور دیہی غریبوں کو ہی رکنیت حاصل کرنے کا حق حاصل ہو اور مڈل کلاس میں بھی صرف سوشلسٹ نظریات کے حامل لوگ اس کی رکنیت حاصل کرنے کے اہل ہوں۔ پھر یہ دھڑے یہ چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو انتخابات کی بجائے بندوق کے زور پر بڑی عوامی بغاوت کے زریعے اقتدار پر قبضہ کرلے۔
یہ دونوں مطالبات پی پی پی میں شامل سیکولر سوشلسٹ لیفٹ کے دھڑے اس حقیقت کو نظر انداز کرکے کر رہے تھے کہ ان دھڑوں نے تو منظم صنعتی مزدوروں میں اپنی مکمل تنظیمیں بنائی ہوئی تھیں۔ نہ یہ مجموعی طور پر محنت کش طبقے کی اکثریت کو انقلابی طبقاتی شعور سے مسلح انقلابی کیڈر میں منتقل کر سکے تھے۔ دوسرا انھوں نے پی پی پی کی تنظیم کے اندر گراس روٹ لیول تک بہت بڑی عوامی طاقت کی اپنے نظریات کی روشنی میں تعمیر کی تھی۔ پیپلزپارٹی کی تنظیمیں اپنے طفلانہ دور میں تھیں اور ان پر ان سوشلسٹ دھڑوں کا کنٹرول نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کا لیبر بیورو، کسان ونگ، طلباء فیڈریشن نوزائیدہ تھیں ان میں طبقاتی انقلابی شعور سے لیس تربیت یافتہ کیڈر کی شدید کمی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اندر جس واحد شخصیت سے عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت اور پوجا کی حد تک عقیدت تھی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ شخصیت تھی۔ پیپلزپارٹی میں شامل لیفٹ اس طرح کی مقبول اور کرشماتی شخصیت سے محروم تھا۔ پنجاب اور سندھ کے غریب کسانوں، چند بڑے شہروں میں موجود صنعتی و سروسز سیکٹر سے وابستہ منظم مزدوروں اور شہری و دیہی غریبوں کی بہت بھاری تعداد فقط ذوالفقار علی بھٹو کی پیرو تھی۔
بھٹو نہ تو کمیونسٹ تھے نہ ہی وہ فار لیفٹ سوشلسٹ تھے۔ نہ ہی ان کے پیش نظر سوویت یونین، عوامی جمہوریہ چین جیسی کمیونسٹ پارٹیوں کی طرز پر پی پی پی کو پیشہ ور انقلابی پارٹی بنانا مقصود تھا۔ پی پی پی اپنے منشور کے اعتبار سے اور اپنی تاسیسی دستاویز کی بنیاد پر ایک سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک لیفٹ ونگ پاپولسٹ عوامی جمہوری پارٹی کی تشکیل چاہتے تھے۔
پیپلز پارٹی میں شامل لیفٹ دھڑوں نے عوام کی مختلف پرتوں میں گراس لوٹ لیول تک منظم پیشہ ور انقلابی کیڈر تیار کیے بغیر اپنی کمزور اور ناتواں طاقت کے ساتھ بھٹو پر دباؤ ڈالا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے طور پر تعمیر کریں۔ بھٹو کا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی کمزور تنظیمی پوزیشن کے ساتھ نہ تو پاکستانی ریاست کے نوآبادیاتی سامراجی سرمایہ داری ڈھانچے اور سب سے بڑھ کر فوجی اسٹبلشمنٹ کو شکست دے سکتی ہے اور نہ ہی وہ ان سے ٹکرا کر اپنا وجود باقی رکھ پائے گی۔ بھٹو نے پی پی پی میں کٹر پنتھی لیفٹ اور پیپلزپارٹی سے باہر اس پارٹی کے معشیت بارے نعرے سوشلزم ہماری منزل ہے کو کفر و ارتداد قرار دے کر دائیں بازو کی خون آشام مخالفت کا سامنا اسلامی سوشلزم اور پھر مساوات محمدی کے متبادل نعرے کے ساتھ کیا۔ پی پی پی میں شامل لیفٹ سیکولر سوشلزم کو مساوات محمدی اور اسلامی سوشلزم کے مقابلے میں پی پی پی کے حامی عوامی حلقوں میں مقبول بنانے میں ناکام رہا۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی تھی کہ پی پی پی میں شامل لیفٹ جذباتی انقلابی لفاظی پر مبنی نعرے بازی کرنے اور اپنے انتہاپسند نعروں اور انقلابی مصنوعی صورت حال کو اپنے اوپر طاری کرنے کی بجائے پارٹی کی تنظیموں کی انقلابی طرز پر تشکیل اور تعمیر کے فریضے کی طرف رکھتا۔
پیپلزپارٹی میں شامل لیفٹ کو یہ کام مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ نہ صرف پارٹی کے سب سے بڑے ادارے سی ای سی میں بھاری نمائندگی رکھتا تھا بلکہ پنجاب اور سندھ میں اکثر کلیدی عہدے اس کے پاس تھے۔ اکثر پنجاب اور سندھ کی ضلعی، تحصیل اور سٹی کے بھی اہم ترین عہدے اس سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس تھے۔ لیکن لیفٹ کے دھڑوں نے نہ تو آپس میں کوئی کوآرڈینیشن قائم کی تاکہ متحد ہوکر کوئی حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔ نہ ہی پارٹی کی تنظیم میں انھیں جو بالادستی حاصل تھی اسے برقرار رکھنے اور تنظیم کی تعمیر و تشکیل کا کام مستقل مزاجی سے کیا۔
الیکشن کے دوران ان لیفٹ دھڑوں نے اپنے دستیاب تربیت یافتہ کیڈر کو انتخابی میدان میں اتارنے کی بجائے اس کے کئی ایک بڑے ناموں نے سرے سے انتخابات میں حصہ ہی نہ لیا۔ جیسے کہ معراج محمد خان تھے اور بعد میں وہ ساری عمر کراچی سے انتخاب میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر پچھتاتے رہے۔
مغربی پاکستان کا وہ لیفٹ جو پیپلزپارٹی میں شامل نہ ہوا اس کی اکثریت نیشنل عوامی پارٹی۔ ولی خان گروپ کا حصہ تھی۔ نیپ کا زیادہ اثر آج کے کے پی کے اور بلوچستان میں تھا اور غوث بخش بزنجو کو چھوڑ کر اس پارٹی میں اصل طاقت پشتون، بلوچ، سندھی قوم پرست تھے۔ دوسری طرف نیپ کا زیادہ بڑا حصہ مولانا بھاشانی کے دھڑے کے ساتھ تھا جو اعلانیہ چین نواز تھا۔ اس دھڑے میں زیادہ تر مہم جو تھے۔ روس نواز لیفٹ دھڑے کے پاس بھی کوئی کرشماتی عوامی لیڈر نہیں تھا اور اس دھڑے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کو سی آئی اے فنڈڈ اینٹی سوویت یونین تحریک قرار دیا اور یہ ایوب خان کے خلاف کسی بڑی ایجی ٹیشن کا حصہ نہ بنا۔ دوسرا اس نے پہلے دن سے پی پی پی کو ایک ترقی پسند لیفٹ سیاسی جماعت ہی تسلیم نہ کیا۔
مولانا بھاشانی سے جڑا پاکستانی لیفٹ اس وقت غیر موثر ہوگیا جب مولانا بھاشانی نے اچانک سے مغربی پاکستان میں اپنی سیاست ترک کردی اور مغربی پاکستان کو خدا حافظ کہہ دیا۔ اس نے انتخابات میں حصہ تو لیا لیکن ایک تو پی پی پی سے اتحاد بنانے اور 50 فیصد نشستوں کی پیشکش کو رد کردیا دوسرا یہ انتخابات میں چند ہزار ووٹ ہی لے سکا۔
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے خلاف اگرچہ پی پی پی میں شامل اور نیپ میں شامل لیفٹ اور مولانا بھاشانی کا بچا کچھا مغربی پاکستانی لیفٹ تھا لیکن یہ اس قدر کمزور تھا کہ یہ نہ تو پنجاب میں فوجی جنتا کی حمایت میں موجود پاکستانی شاونسٹ نیشنلزم کے خلاف کوئی عوامی تحریک کھڑی کرسکا اور نہ ہی قومی سیاسی منظر نامے پر خود کو ایک موثر عوامی سیاسی قوت کے طور پر سامنے لا سکا۔ بلکہ چین نواز کمیونسٹ سیاسی ورکرز اور دانشوروں کی ایک معتدبہ تعداد نے مشرقی بنگال میں عوامی باغیانہ لہر کی حمایت کرنے کی بجائے اسے ہندوستانی ریاست کی سامراجی اور ہندو بورژوازی کی توسیع پسندانہ سازش قرار دیا اور فوجی جنتا کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور جنگ کی حمایت کرتا رہا۔ فیض سمیت کئی ترقی پسند شاعر اور ادیبوں نے خاموشی اختیار کرلی۔
بھٹو نے اپنی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جے اے رحیم، معراج محمد خان، میر علی احمد ٹالپر جیسوں کی جانب سے مشرقی بنگال میں فوجی آپریشن کے خلاف پی پی پی کو تحریک چلانے کی تجویز کو اس بنیاد پر مسترد کیا کہ پی پی پی ابھی ایک نوزائیدہ کمزور تنظیمی ڈھانچے کی حامل پارٹی ہے اگر اس نے فوجی جنتا کے خلاف بغاوت کی تو اسے ریاست کی طاقت کے ساتھ اور دائیں بازو کی حمایت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔ بھٹو نے پاکستان کی فوجی جنتا اور ہندوستان کی حکومت کو دو بدمست ہاتھی قرار دیتے ہوئے ان کے درمیان کچلے جانے سے بچنے اور اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنے پر زور دیا۔
پاکستان ٹوٹ گیا۔ مغربی پاکستان میں فوجی قیادت کے خلاف جونیئر اور دوسری صف کے فوجی افسران نے بغاوت کردی۔ یحیی کو جانا پڑا اور نوجوان فوجی افسروں کے دباو اور یحیی کے خلاف عقابی فوجی جرنیل ائر مارشل عبدالرحیم، جنرل پیرزادہ اور جنرل گل حسن کی مداخلت پر اقتدار بھٹو سونپ دینے کی پیشکش ہوئی۔
یہ بات تاریخی حقائق اور دستیاب شواہد اور ثبوت کے ساتھ موجود ہے کہ بھٹو نے اپنی پارٹی کی سی ای سی میں جب اس پیشکش بارے رائے لی تو اس میں موجود کسی ایک رہنماء یا لیفٹ دھڑوں کے نمائندوں نے اس کی کوئی مخالفت نہ کی۔
بھٹو نے 1971-72 کے دوران بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان نیشنلائزیشن، لیبر پالیسی اور زرعی اصلاحات جیسے جو بنیادی انقلابی اقدامات اٹھائے ان کا ڈیزائن بنیادی طور پر معراج محمد خان اور شیخ رشید احمد سمیت پی پی پی کے بائیں بازو کے ممتاز رہنماؤں کی پیش کردہ اکثر و بیشتر تجاویز پر مشتمل تھا۔ معراج محمد خان، کرامت علی سمیت ٹریڈ یونین سیاست سے وابستہ مزدور رہنماؤں کی اکثریت نے کئی سالوں بعد جاکر یہ تسلیم کیا کہ بھٹو کی لیبر پالیسی گزشتہ ادوار میں بننے والی لبیر پالیسیوں سے کہیں زیادہ ترقی پسند اور بہتر تھیں۔ کرامت علی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ کراچی میں انڈسٹریل ایریا میں چلنے والی پرتشدد اور انتہائی ریڈیکل مزدور تحریک ایک ایڈونچر اور مہم جوئی تھی جس کا فائدہ دائیں بازو اور سرمایہ داروں نے اٹھایا۔
پی پی پی میں شامل لیفٹ اور اس سے باہر موجود لیفٹ بھٹو حکومت کی بائیں بازو کی اصلاحات میں کوتاہی، کمی، خامی اور ان کے اطلاق و نفاذ میں رکاوٹ بننے والی نوکر شاہی کے خلاف کوئی قابل عمل حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے ایک طرف تو زمینوں اور فیکٹریوں پر قبضوں جیسی مہم جوئی کی طرف چل نکلا جبکہ اس کے پاس ایسے پیشہ ور انقلابی کیڈرز کی شدید کمی تھی جو اس کو باقاعدہ انقلابی تحریک کی شکل دے پاتے اور گراس روٹ لیول پر مزدور اور کسان کمیٹیوں کا جال بچھا سکتے۔ دوسرا اس نے بھٹو کو ولن بنانا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تو ریاست سے براہ راست تصادم شروع ہوگیا، دوسرا بھٹو بتدریج بیوروکریسی، جاگیرداوں اور موقعہ پرست درمیانے طبقے کے خوشامدیوں میں گھر کر رہ گئے۔
بھٹو کے خلاف مقامی سطح پر نیشنلائزیشن اور زرعی اصلاحات کے متاثرہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور انتخابات میں بدترین شکست کھانے والے دائیں بازو کے سیاست دان اور ملاں باہم متحد ہوگئے اور علاقائی و عالمی سطح پر تیسری دنیا کے اتحاد اور پاپولسٹ حکومتوں اور ان کے مقبول عام قیادت کے خلاف امریکی سرمایہ دارانہ بلاک کی ریشہ دوانیوں نے بھٹو کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا۔
بھٹو کے خلاف بننے والا پاکستان قومی اتحاد پاکستان کی انتہائی رجعت پرست دائیں بازو کی سیاسی و مذھبی قیادت کے کنٹرول میں تھا۔ اس موقعہ پر پی پی پی میں شامل لیفٹ اور باہر موجود لیفٹ نے اس صورت حال کا معروضی جائزہ لینے اور دائیں بازو کے غلبے کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے اور اپنی غلطیوں کا احتساب کرنے کی بجائے بھٹو سے اپنی شدید نفرت میں پی این اے میں شمولیت اختیار کی۔ جب کہ کمیونسٹ روس نواز دھڑے نےآزاد پختونستان اور آزاد بلوچستان کے نام پر مسلح جدوجہد کی مہم جوئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور یوں جنرل ضیاء الحق کو جمہوریت پر شب خون مارنے اور اقتدار پر قبضے کی راہ ہموار کردی۔
مارشل لاء لگنے کے بعد جب بھٹو اور پی پی پی زیر عتاب آئے۔ بھٹو نے نظر بندی کے مختصر دورانیے کے بعد مختصر رہائی کے دنوں میں عوام میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ پالیا تو پاکستانی لیفٹ کی اہم شخصیات نے ضیاء کے عزائم اور دائیں بازو کے رد انقلاب کی سب سے اہم ترین حکمت عملی کہ یا تو پیپلزپارٹی پر اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ سیاست دان قبضہ کرلیں یا پھر پی پی پی کو توڑ دیا جائے اور بھٹو کی عوامی حمایت ختم کی جائے کا ادراک کرکے پیپلزپارٹی میں لیفٹ کو جمع رہنے اور باہر والے لیفٹ کو اس سے دوستانہ رویہ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے پیپلزپارٹی چھوڑنے اور دائیں بازو کی چڑھائی کا سارا الزام بھٹو پر رکھنے جیسی ایک اور فاش غلطی کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس زمانے میں کراچی سے ڈاکٹر فیروز احمد کی ادارت میں نکلنے والے ایک جریدے پاکستان فورم نے 1978ء کے شمارے کے اداریے میں "عوام بھٹو سے محبت کیوں کرتے ہیں؟" کے عنوان سے لکھے اداریے میں لیفٹ رہنماؤں اور سیاسی گروپوں کے پیپلزپارٹی اور بھٹو کے بارے میں معاندانہ اور دشنام تراز رویے اور موقف پر تنبیہ کرتے ہوئے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں لکھا کہ اگر وہ آج کی معتوب پیپلزپارٹی اور بھٹو کے خلاف پوزیشن کے ساتھ عوام میں گئے تو الٹا عوام ان کے خلاف ہو جائیں گے اور انھیں عوام دشمن طاقتوں اور فوجی آمریت کا ہمنوا سمجھیں گے۔
ڈاکٹر فیروز نے انھیں پیپلزپارٹی میں رہ کر اور باہر کھڑے ہوکر اپنی ساری طاقت فوجی آمریت اور دائیں بازو کے خلاف صرف کرنے کا مشورہ دیا۔ پیپلزپارٹی میں شامل بعض لیفٹ رہنماوں نے اور اس سے باہر لیفٹ گروپوں نے ڈاکٹر فیروز احمد کی اس تجویز کو درخور اعتنا نہ جانا۔
خورشید حسن میر جنھوں نے 1977ء میں مارشل لاء سے کچھ پہلے پارٹی چھوڑی اور معراج محمد خان نے تین سال قبل 74ء میں پارٹی چھوڑی تھی ان دونوں رہنماؤں کو بھٹو نے کہا تھا کہ اس نازک موقعہ پر جب انھیں ان جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے پارٹی چھوڑنا پیپلزپارٹی کے لیے ہی نہیں عوام کے لیے بھی نہایت خطرناک بات ہوگی۔ خورشید حسن میر جو حنیف رامے اور کوثر نیازی سے سخت خفا تھے اور ان کے اسلامی سوشلزم کو پاکھنڈ کہتے تھے وہ بھٹو مخالفت میں اتنا آگے گئے کہ ضیاء الحق سے ملاقات کرنے اور انھیں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرانے والے سیاست دانوں میں شامل ہوئے۔ حنیف رامے، مصطفٰی کھر، کوثر نیازی، میاں ساجد پرویز الگ پارٹی بنانے چل پڑے۔ پہلے انہوں نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی پھر پی پی پی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور مصطفٰی جتوئی کو قائم مقام چئیرمین بنوانے کی کوشش کی۔
جب چار اپریل 1979ء کو بھٹو پھانسی لگ گئے تب ایک بار پھر ڈاکٹر فیروز احمد نے ایک اور اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا "زندہ بھٹو، مردہ بھٹو"۔ اس اداریے میں ڈاکٹر فیروز احمد نے پاکستانی لیفٹ کو ایک بار پھر باور کرایا کہ پھانسی کے بعد عوام نے بھٹو کو ایک دیومالائی روپ میں خود سے ایجاد کیا ہے۔ یہ اب فقط عوام کا اپنا تخلیق کردہ بھٹو ہے اور ان تمام خامیوں سے پاک ہے جو تاریخ میں حقیقی زندہ بھٹو سے منسوب تھیں۔ لیفٹ کو عوام کے بنائے اس دیومالائی سچ کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ناکہ اس کے خلاف چلنے کی۔ لیکن بھٹو اور پیپلزپارٹی کے بارے میں لیفت کے زعماء اور دانشوروں کی رائے تبدیل نہ ہوئی۔ یہ پیپلزپارٹی اور بھٹو دشمنی کے ساتھ عوام کی نئی انقلابی سیاسی عوامی جماعت بنانے کے ایڈونچر کرتے رہے۔ ان کی بنائی سیاسی جماعتیں تانگہ پارٹیاں رہیں بلکہ تانگے کی سواریاں بھی پوری نہ کرسکیں اور تاریخ کی گرد میں انھیں بنانے والے اور یہ پارٹیاں خود بھی غائب ہوگئیں۔
معراج محمد خان قومی محاذ آزادی کے تجربے کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ ایک مرتبہ تو انھیں جنرل مشرف کے احتساب کے نعرے سے امید لگائی گئی تھی اور عمر کے آخری حصے میں وہ پچھتاتے رہے۔ پی پی پی کو چھوڑنا اپنی بہت بڑی غلطی قرار دیتے پائے گئے۔
روس نواز کمیونسٹوں کو تو ولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل وغیرہ نے اپنی پارٹیوں سے نکال باہر کیا اور خالص قوم پرست سیاست کی طرف مڑ گئے۔
بھٹو سے نفرت میں اندھے ہوجانے والے لیفٹ سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی نے پیپلزپارٹی میں شامل عوام کی اکثریت کو ترقی پسند سیاست کے گرد جمع کرنے اور بحران کی شدت میں اس سے رہنمائی کے موقع سے محروم کردیا۔

