Lenin Ke Khawab Aur Sarmaya Dari Ka Dhuwan
لینن کے خواب اور سرمایہ داری کا دھواں

آج سے 111 سال، 9 ماہ اور 3 دن پہلے، ایک خواب دیکھا گیا تھا۔ لیکن یہ خواب نہ تو کسی شاعر کا تخیل تھا، نہ ہی کسی مفکر کی مبالغہ آرائی۔ یہ لینن کا خواب تھا ایک ایسا خواب جو کوئلے کی کانوں میں گھٹتے ہوئے مزدوروں کے لیے ہوا کے جھونکے جیسا تھا۔ مگر کیا یہ خواب حقیقت بن سکا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
یہ 21 اپریل 1913 کی بات ہے، جب لینن نے "پراودا" میں ولیم ریمزے کی ایک حیرت انگیز دریافت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی مزدوروں کی زندگیاں بدل سکتی ہے۔ اس وقت ریمزے نے براہِ راست کوئلے کی تہہ سے گیس نکالنے کا طریقہ دریافت کیا تھا اور لینن کا ماننا تھا کہ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو مزدوروں کو کانوں کی گندگی، خطرے اور استحصال سے نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن سو سال بعد، آج کی دنیا میں، خاص طور پر پاکستان میں، یہی کانیں مزدوروں کے لیے اجتماعی قبریں بن چکی ہیں۔
لینن نے امید ظاہر کی تھی کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف مزدوروں کے کام کے اوقات کم کرے گی بلکہ ان کے لیے صاف اور محفوظ ماحول بھی فراہم کرے گی۔ لیکن یہ امید سرمایہ داری کے ہاتھوں یوں دم توڑ گئی جیسے کسی بے گناہ کو کان میں دھماکے کے بعد ملبے تلے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آج بھی، کوئلے کی کانوں میں دھماکوں، گیس کے اخراج اور ملبے تلے دب کر درجنوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ سرمایہ دار ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنے منافع کا جشن مناتے ہیں۔
لینن کے خواب میں ہر گھر روشن تھا، لیکن آج مزدوروں کے گھر تاریکی سے بھرے ہیں۔ لینن نے کہا تھا کہ "گھریلو غلامی" کا خاتمہ ہوگا، لیکن آج بھی کروڑوں خواتین دھوئیں سے بھرے باورچی خانوں میں اپنی زندگیاں جھونک رہی ہیں۔ وہ "روشن تجربہ گاہیں" جن کا لینن نے خواب دیکھا تھا، آج بھی ایک خیالی بات محسوس ہوتی ہیں، کیونکہ سرمایہ داری کے لیے مزدور ایک مشین کے پرزے سے زیادہ کچھ نہیں۔
سرمایہ داری کا ماڈرن اور لبرل چہرہ آج دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ طبقاتی جدوجہد اب فضول ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، ٹیکنالوجی سب کے لیے برابر مواقع پیدا کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے محنت کشوں کی زندگیوں کو آسان کرنے کے بجائے انہیں مزید بے روزگار اور مجبور کر دیا ہے۔ جس ٹیکنالوجی سے لینن نے مزدوروں کے اوقات کار کم ہونے کی امید کی تھی، وہ آج ان کے لیے روزگار چھیننے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں یہ صورتحال اور بھی افسوسناک ہے۔ یہاں جدید تکنیک نہ تو مزدوروں کے فائدے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے تحفظ کے لیے۔ یہاں سرمایہ دار وہی پرانے طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں مزدوروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کی وہ تاریک حقیقت ہے جو لینن کے خواب کو ایک بھیانک مذاق بنا دیتی ہے۔ مزدوروں کی زندگیاں آج بھی دھواں، گرد اور گندگی کے درمیان گزر رہی ہیں۔ صاف ستھری ورکشاپس اور بہتر اوقات کار آج بھی ایک ناپید خواب ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا ہم اس خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے؟ یا ہم وہ دن دیکھ سکیں گے جب مزدوروں کو ان کا حق ملے گا؟ جب ان کے گھروں میں روشنی ہوگی، ان کے کام کی جگہیں محفوظ ہوں گی اور ان کی محنت کا صلہ منافع خوروں کی جیبوں میں جانے کے بجائے ان کے اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرے گا؟
یہ سوال شاید سرمایہ داری کے حامیوں کو "فضول" لگے، لیکن لینن کے خواب کو زندہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ سوال ہی اصل لڑائی ہے اور جب تک اس کا جواب نہیں ملتا، مزدوروں کے لیے ہر دن ایک دھندلی صبح رہے گی۔