Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Kya Baz Yaft e Maa Urdu Grammar Ke Etebar Se Ghalat Tarkeeb Hai?

Kya Baz Yaft e Maa Urdu Grammar Ke Etebar Se Ghalat Tarkeeb Hai?

کیا "باز یافتِ ماں" اردو گرائمر کے اعتبار سے غلط ترکیب ہے؟

ذکی نقوی جو اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم معاصر نام ہیں۔ انھوں نے اروندھتی رائے کی کتاب Mother Mary Comes to Me کو اردو میں "باز یافتِ ماں" کے عنوان سے ترجمہ کرنے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اردو گرائمر کے اعتبار سے یہ غلط، بے ہودہ اور واہیات ترکیب ہے۔ اس مقدمہ کے ساتھ انہوں نے یہ فتوا بھی دیا ہے کہ اس نے سارے ترجمے کو مشکوک بنا دیا ہے۔

راقم چونکہ خود کو اردو صرف و نحو کا ماہر نہیں سمجھتا اس لیے اس عنوان کا انتخاب کرتے ہوئے، میں نے اردو صرف و نحو پر عبور رکھنے والے اپنے واقف کچھ اساتذہ اور دوستوں سے مشاورت کی تھی اور اس مشاورت کا جو ما حصل تھا وہ کچھ یوں بنتا ہے۔۔

ترکیب "باز یافتِ ماں" نحوی اعتبار سے ایک مکمل اور فصیح مرکبِ اضافی ہے، جس میں دو بنیادی اجزاء شامل ہیں: باز یافت اور ماں۔ لفظ باز یافت فارسی ماخذ رکھتا ہے، جو دو حصوں پر مشتمل ہے، باز بمعنی دوبارہ یا ازسرِنو اور یافت جو فعل یافتن (پانا، حاصل کرنا) سے ماخوذ ہے۔ اس طرح "باز یافت" کا مفہوم بنتا ہے "دوبارہ حاصل کرنا" یا "پھر سے پانا"۔ دوسرا جزو "ماں" ایک جامد اسم ہے جو واحد اور مؤنث ہے اور اس ترکیب میں بطور مضاف الیہ آتا ہے۔ نحوی لحاظ سے "باز یافتِ ماں" میں "باز یافت" مضاف اور "ماں" مضاف الیہ ہے، جن کے درمیان کسرۂ اضافت "ِ" تعلقِ ملکیت یا نسبت پیدا کرتی ہے۔ یوں اس ترکیب کا براہِ راست مفہوم "ماں کی بازیافت" یا "ماں کا دوبارہ پانا" بنتا ہے۔

یہ ترکیب اپنی ساخت کے لحاظ سے مکمل معنوی وحدت رکھتی ہے، کیونکہ "باز یافت" ایک مصدرِ مرکب کی حیثیت سے فعل کے عمل کو اسم میں بدل دیتا ہے اور "ماں" اس عمل کی سمت یا مرکز بن جاتی ہے۔ اس اضافت میں ایک لطیف ابہام بھی پوشیدہ ہے: کیا ماں کسی شے کو دوبارہ پا رہی ہے، یا ماں خود کسی کے ذریعے دوبارہ پائی جا رہی ہے؟ اس ابہام کی گنجائش اردو زبان میں اضافی ترکیبوں کے حسن کا حصہ ہے، کیونکہ اس سے مفہوم کے مختلف امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح "باز یافتِ ماں" نہ صرف نحوی طور پر درست ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی گہری تہہ رکھتی ہے، جو ادبی، وجودی اور روحانی تعبیرات کے لیے خاصی زرخیز ہے۔

اس ترکیب کو کسی جملے میں بطور فاعل، مفعول یا مضاف الیہ استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً: "باز یافتِ ماں نے مجھے بدل دیا"، "میں باز یافتِ ماں کے لمحے میں جی رہا ہوں"، یا "ہم نے باز یافتِ ماں کو ممکن بنایا"۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ترکیب نحوی لچک رکھتی ہے اور مختلف جملوں میں اپنی معنوی کیفیت برقرار رکھتے ہوئے مختلف نحوی کردار ادا کر سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ "باز یافتِ ماں" ایک نحوی طور پر درست، فصیح اور معنوی طور پر پُراثر ترکیب ہے جو اردو کے ادبی اور فکری اسلوب میں نہایت موزوں طور پر برتی جا سکتی ہے۔

اب آتے ہیں خود اس عنوان کے اروندھتی رائے کی کتاب کی معنویت اور اس کے خیالات سے تعلق کی بحث کی طرف، اس بارے میں میرا اپنے خیالات کا خلاصہ کچھ یوں ہے

اروندھتی رائے کی کتاب Mother Mary Comes to Me کی روشنی میں ترکیب "باز یافتِ ماں" کو اگر فلسفیانہ، وجودی اور شاعرانہ سطح پر دیکھا جائے تو یہ صرف ایک لسانی ترکیب نہیں رہتی بلکہ ایک فکری اور روحانی تجربے کی علامت بن جاتی ہے۔ یہاں "ماں" صرف حیاتیاتی وجود نہیں بلکہ "ماں" بطور Mother Principle یعنی تخلیق، رحم اور وجود کی اصل نمائندہ ہے۔ رائے کے متن میں "Mother Mary" ایک مذہبی اور علامتی شبیہ کے طور پر سامنے آتی ہے، وہ ایسی ماں ہے جو دکھ، قربانی، رحم اور خاموش احتجاج کی علامت ہے۔ اس کے سامنے "باز یافت" کا مفہوم ایک روحانی واپسی کا ہے، یعنی اُس ماں کی بازیافت جو استعماری، پدرشاہی اور سرمایہ دارانہ تاریخ میں مٹادی گئی تھی۔

"باز یافتِ ماں" میں دراصل اُس یاد، اُس لطافت اور اُس مقدس مادریت کو دوبارہ حاصل کرنے کا عمل شامل ہے جو جدید دنیا کے شور میں گم ہوگئی۔ اروندھتی رائے کی نثر میں ماں محض مذہبی استعارہ نہیں بلکہ ایک existential metaphor ہے، وہ ہستی جو being کی گہرائیوں سے جنم لیتی ہے۔ یوں "باز یافتِ ماں" ایک وجودی تلاش ہے: انسان اپنے اندر اُس ازلی، مہربان اور تخلیقی مرکز کو دوبارہ پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، جو دنیا کی بے حسی، جبر اور تشدد میں کہیں دب گیا تھا۔ رائے کے لیے یہ واپسی دراصل ethical awakening ہے، یعنی انسان کا اپنی ماں کی طرح رحم دل، محسوس کرنے والا اور تحفظ دینے والا بن جانا۔

شاعرانہ سطح پر "باز یافتِ ماں" میں ایک خاموش موسیقیت ہے، یہ ترکیب ایک واپسی کی صدا، ایک اندرونی مکالمے کی صورت اختیار کرتی ہے۔ جیسے رائے کی نثر میں بارش، مٹی، دریا اور درد سب ایک دوسرے میں تحلیل ہو جاتے ہیں، ویسے ہی "ماں" اور "باز یافت" یہاں دو الگ شے نہیں بلکہ ایک ہی جذبے کے دو رنگ بن جاتے ہیں۔ یہ واپسی صرف ماضی کی طرف نہیں، بلکہ مستقبل کے ایک بہتر امکان کی طرف بھی ہے، جہاں انسان اپنی کھوئی ہوئی لطافت، احساس اور محبت کو دوبارہ دریافت کرتا ہے۔

فلسفیانہ سطح پر، "باز یافتِ ماں" دراصل Being and Care کا مکالمہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسان اپنے وجود کی بنیاد کو "رحم" کے تصور میں پہچانتا ہے۔ جیسے ہائیڈیگر کے نزدیک "محض موجود ہونا" (Dasein) اپنے وجود کے ادراک سے مشروط ہے، ویسے ہی رائے کے ہاں ماں کی بازیافت اپنے being کے مرکز سے دوبارہ جڑنے کا عمل ہے۔ یہ عمل احتجاج بھی ہے اور نجات بھی، پدرشاہی دنیا کی بے حسی کے خلاف وہ لمحہ جہاں محبت، درد اور فہم کی عورتانہ روح واپس آتی ہے۔

یوں "باز یافتِ ماں" ایک نحوی ترکیب سے بڑھ کر ایک روحانی جملہ بن جاتی ہے، ایسا جملہ جو زبان میں نہیں بلکہ دل کے اندر بولتا ہے۔ یہ اروندھتی رائے کی تحریر کے اس بنیادی سوال کو مجسم کرتا ہے: "ہونا کیسا ہے؟"، ایک ایسا ہونا جس میں رحم ہے، تخلیق ہے اور نجات کا امکان بھی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan