Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Kya Baloch Qaumi Tehreek Masnoi Hai?

Kya Baloch Qaumi Tehreek Masnoi Hai?

کیا بلوچ قومی تحریک مصنوعی ہے؟

بی بی سی اردو نیوز ویب سائٹ نے پاکستان ریلوے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیکورٹی حکام نے انھیں 200 تابوت بھیجنے کا کہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مرنے والوں کی تعداد سرکاری حکام کے دعوت سے کہیں زیادہ ہے۔ بی بی سی اردو نیوز سروس کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کی پریس ریلیز کے مطابق جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے عمل میں ان کے سو عسکریت پسندوں نے حصہ لیا ہے۔

بی بی سی اردو نیوز کے مطابق سرکاری حکام نے بی ایل اے کے 33 عسکریت پسندوں کو مارنے کا دعوا کیا ہے۔ بی بی سی اردو نیوز کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کی ٹرین پر فائرنگ سے ایک ہلے میں 80 سے 100 افراد مارے گئے تھے ان میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد سیکورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ کیونکہ بی ایل اے نے ٹرین پر اس وقت فائرنگ کی جب انھوں نے 400 سے 425 مسافروں میں سے ایک سو پچاس مسافروں کو ٹرین کے اندر رکھا ہوا تھا اور ان میں سے 100 سے زائد افراد کو بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے شناختی کارڈ کی بنیاد پر الگ کرکے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔

پاکستانی صحافی توصیف نے اپنے بلاگ میں دعوا کیا ہے کہ بی ایل اے کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہوسکتی ہے۔

اب تک پاکستانی بیسڈ تحقیقاتی رپورٹس کا لب لباب یہ ہے کہ آئی ایس پی آر سمیت پاکستانی حکام کا یہ دعوا کہ اس واقعے میں صرف 21 مسافر اور چار ایف سی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں قرین قیاس اور زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہیں اور جانوں کا ضیاع 175 سے 200 کے درمیان ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بی ایل اے نے 2017ء سے لیکر 2025ء تک بلوچستان کی حدود میں ٹرینوں پر 34 حملے کیے اور اتنے حملوں کے ہونے پر پاکستان کی طرف سے ٹرینوں اور ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا سیکورٹی پلان تیار نہیں کیا جسے فول پروف قرار دیا جاسکے۔

میڈیا رپورٹس پاکستانی فوج کے حالیہ آپریشن کو انتہائی کامیاب ہونے کے دعوے پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کی جانب سے ٹرین میں سوار مسافروں کی جانیں بچائے جانے کے جو دعوے کیے جارہے ہیں ان پر بھی شکوک اٹھائے جارہے ہیں۔

میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ٹرین جس میں 150 سے زائد فوجی افسران اور اہلکار سوار تھے اور کل 450 مسافروں کو لیجانے والی ٹرین کی سیکورٹی کے لیے ناکافی انتظام کی ذمہ دار کون ہیں؟ کیا انھیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا؟

بی ایل اے کو جعفر ایکسپریس میں سوار مسافروں کی تفصیل کیسے معلوم ہوئی؟ کیا یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی نہیں ہے؟

آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس انتہائی متنازعہ بن گئی ہے اور اس میں بیان کیے گئے دعووں کو جھٹلایا گیا ہے۔

فوج کے ترجمان کی جانب سے بالواسطہ اس واقعے میں سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی پر آواز اٹھانے والوں کو انتشاری سیاست کرنے والے قرار دینے پر بھی سخت اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ جس نے بلوچستان کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھا ہے اور ہائبرڈ رجیم میں بھی وہی بالادست فریق ہے تو اس صورت میں سیکورٹی فیلئر اور انٹیلی جنس فیلیئر کی ذمہ داری سے وہ خود کو کیسے الگ کرسکتی ہے؟

بلوچستان کو ایک نوآبادی اور مفتوحہ علاقے کے طور پر چلایا جارہا ہے اور یہ ریاست کا بلوچستان کی ترقی کا جو ماڈل ہے وہ نوآبادیاتی ماڈل ہے۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ یہ بیانیہ سرے سے مسترد کرتی ہے۔ اس کا ترجمان آئی ایس پی آر اور بلوچستان میں اس کا ترجمان مبینہ کٹھ پتلی چیف منسٹر میر سرفراز بگٹی نہ صرف یہ بیانیہ مسترد کرتے ہیں بلکہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی مان کر اسے سیکورٹی مسئلہ قرار دے کر اس کا حل ریاستی طاقت کے زریعے تلاش کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

فوجی اسٹبلشمنٹ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس نے 76 سالوں میں بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی راستے سے حل کرنے کی ہر کوشش کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ بلوچ قوم کے وہ سیاست دان جو پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل اور مذاکرات کے زریعے حل کرنے پر یقین رکھتے تھے انھیں غدار، ملک دشمن قرار دے کر جیلوں میں ڈالا، کئی ایک کو جلا وطنی پر مجبور کیا اور کئی ایک کو زندگی سے محروم کردیا۔

فوجی اسٹبلشمنٹ بلوچ اور پشتون عوام کی نمائندہ اور اکثریت کی نمائندہ سیاسی جماعت نیشنل عوام پارٹی کو کالعدم قرار دیا اور اس کی ساری قیادت سمیت 126 اہم سیاسی رہنماؤں کو غدار، دہشت گرد اور ملک توڑنے جیسے الزامات کے تحت ایک مقدمے میں گرفتار کرکے حیدرآباد جیل میں بھیج دیا۔

اسی طرح نوے کی دہائی میں بلوچ سیاست کے نمائندہ کردار اور سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی سیاست کا راستا دوبارہ اختیار کیا اگرچہ اس راستے سے اس وقت بھی نواب خیر بخش مری نے برملا اختلاف کیا تھا۔ لیکن سردار عطاء اللہ مینگل، ان کے بیٹے سردار اختر مینگل سمیت جتنے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے جمہوری سیاست دان تھے ان کو بھی مین سٹریم سیاست سے الگ کرنے کی سازش کی گئی۔

فوجی اسٹبلشمنٹ نے جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان کی جمہوری سیاسی طاقت کو جبر اور تشدد سے الگ کیا گیا اور رفتہ رفتہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کی سیاست اور ایڈمنسٹریشن دونوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ اس کے باوجود بھی سردار اختر مینگل، اختر مینگل نے پارلیمانی سیاست کا راستا بلوچ عوام کی اکثریت کی جانب سے تنقید کے باوجود اختیار کیا اور وہ 2013ء اور 2018ء اور 2024ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان میں سے سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے استعفا دے دیا اور اب وہ پارلیمانی سیاست سے الگ ہوگئے ہیں۔

اس وقت صرف ڈاکٹر عبدالمالک اور ان کی پارٹی ہی ابھی تک پارلیمانی سیاست میں موجود ہے جبکہ انھیں اپنی اس پالیسی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ وہ خود بھی یہ کہتے ہیں ان کی پارٹی کو بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ نے ہروایا اور ان کا کہنا ہے کہ وہ بطور چیف منسٹر مسلح جدوجہد کرنے والوں سے بات چیت کررہے تھے اور سمجھوتہ ہوسکتا تھا لیکن اسے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ناکام بنادیا۔

بلوچستان میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو پاکستان کی سیاست اور ریاست کی بلوچستان کی ترقی کے ماڈل کو مسترد کردیا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلح جدوجہد میں شریک ہے جبکہ دوسری جانب مسلح جدوجہد میں شریک نہ ہونے واکے نوجوان مرد اور عورتوں کی بہت بڑی تعداد علیحدگی پسند سیاسی قوتوں کی حامی ہے۔

پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی سیاسی اشرافیہ بلوچ قومی تحریک اور مزاحمت بلوچ عوام کے اندر جڑیں ہونے سے انکاری ہے اور یہ ماننے سے انکاری ہے کہ بلوچ عوام کی اکثریت ریاست پاکستان اور اسٹبلشمنٹ سے ناراض ہی نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنے میں یقین کھو بیٹھے ہیں۔ وہ اسے بھارت، افغانستان کی سازش قرار دے رہے ہیں اور اسے باہر سے درآمد کردہ تحریک قرار دے رہے ہیں۔ وہ اسے ریاست کی جابرانہ مشینری سے کچلنا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو کسی بھی بات کا قصوروار نہیں سمجھتے بلکہ ان کا دعوا ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

وفاق پرست سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ایک بھی ایسی نہیں ہے وہ بلوچستان میں پاکستانی حکمران طبقات اور چین کے درمیان سرمایہ کارانہ وینچر اور سٹریٹجک پارٹنرشپ کو نوآبادیاتی وینچر قرار نہیں دیتی اور اسے سامراجی نوعیت نہیں مانتی۔ یہ وہ بنیادی موقف ہے جس سے بلوچ عوام اور ان کی سیاسی ترجمانی کرنے والے سیاسی فریق تسلیم نہیں کرتے چاہے وہ علیحدگی پسند ہیں یا نہیں ہیں۔ یہ موقف بھی بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

Check Also

Mehanga Sabaq

By Khalid Mehmood Rasool