Kufa, Ma Qabal o Maa Baad Karbala
کوفہ، ماقبل و مابعد کربلاء

جب 41 ھجری میں امام حسن اور ان کا خاندان کوفہ سے ھجرت کرکے واپس مدینہ میں آن بسا تو کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ مقرر کیے گئے۔ یہ طائف کے مشہور ترین اور بااثر قبیلے بنو ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے کے اشراف سردار جو قادسیہ کی دونوں جنگوں میں شریک ہوکر کوفہ میں آباد ہونے والے "الاشراف القبائل" سے تعلق رکھتے تھے۔ اشراف القبائل کے سرداروں کی اکثریت کوفہ میں حضرت عثمان ابن عفانؓ کے مقرر کردہ گورنر ولید بن عقبہ کی حامی تھی جس کے خلاف کوفہ میں قراء کی قیادت میں بہت بڑی تحریک کھڑی ہوئی تھی اور اس تحریک کی قیادت کرنے والوں میں نمایاں ترین کردار حجر بن عدی کندی، مالک الاشتر نخعی، عمرو بن حمق، حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم وغیرہ تھے۔
یہ اپنے قبیلوں میں دوسرے درجے کے سردار تھے لیکن ان سبقت اسلام، زہد و تقوی میں بہت بلند مرتبت تھے۔ یہ کوفہ میں بسنے والے خراجی مفتوحہ زمینوں میں کام کرنے والے کسانوں، دستکاروں اور نچلے درجے کے چھوٹے دکانداروں، جہاد کے لیے دستیاب ہونے والے کوفہ کے گرد و نواح میں رہنے والے بدوی قبائل کی قیادت کر رہے تھے جو اس زمانے میں بیت المال کے وظائف، زرعی زمینوں کے انتظام انصرام میں ہونے والی تبدیلیوں کے متاثرین تھے۔
پھر ذمی سے مسلمان ہونے والے غیر عرب زیادہ تر ایران۔ فارس اور وسط ایشیا آکر کوفہ میں بس جانے والے عجمی تھے اور بڑی تعداد میں غلام تھے یہ سب کوفہ میں اشراف القبائل کے سرداروں اور بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے اشراف گورنروں کے ستائے ہوئے تھے۔
کوفہ میں مدینہ سے آکر آباد ہونے والوں میں انصار کے قبیلے خزرج کے بھی بہت سارے لوگ آباد تھے اور ان کے محلوں کو انصاری محلے کہا جاتا تھا۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے منسلک تھے یا پھر چھوٹی موٹی تجارت کرتے تھے اور ایک سیکشن مجاہدین کا تھا جس کے کمانڈر صحابی رسول سعد بن عبادہ کے بیٹے قیس بن سعد تھے۔۔ یہ اپنے والد کی شام کے دیہی علاقے میں وفات کے بعد حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں کوفہ آکر آباد ہوے تھے۔ انھوں نے حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان کی بیعت نہیں کی تھی۔ لیکن جب حضرت علی کوفہ آئے تو انھوں نے ان کی بیعت کرلی اور ان کے اہم فوجی کمانڈر شمار ہوتے تھے۔
اشراف القبائل میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے سرداروں کی تھی جو حضرت عثمان ابن عفان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں شامل نہ ہوئے اور نہ ہی انھوں نے جنگ جمل آور جنگ صفین میں فوجی شرکت کی۔ یہ حضرت علی اور معاویہ ابن سفیان کے درمیان صلح کے حامی تھے۔
اس رجحان کے سب سے بڑے حامی مغیرہ بن شعبہ تھے جنھوں نے حضرت علی کی بیعت تو کی لیکن نہ تو ان کی ایڈمنسٹریشن میں شامل ہوئے اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی جنگ میں شریک ہوئے۔
ایسے شواہد موجود ہیں کہ حضرت امام حسن کی صلح سے کوفہ کے کئی ایک کبار شیعان علی راضی نہیں تھے۔ ان میں صحابی رسول سلیمان بن صرد الخزاعی نے تو اعلانیہ اپنے سخت اختلاف کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ حجر بن عدی کندی، عمرو بن حمق، عدی بن حاتم کے بھائی خلیفہ عبداللہ الطائی، قیس بن سعد بھی اس سے متفق نہ تھے لیکن انھوں خاموشی اختیار کی۔
ان مذکورہ بالا لوگوں نے نہ تو معاویہ ابن سفیان کی بیعت کی تھی آور نہ ہی بغاوت کی۔ مغیرہ بن شعبہ کو امیر شام نے حکم دیا کہ سرکشی کرنے والوں کے بیت المال سے وظائف بند کریں۔ ان کی زمینیں ضبط کرلیں لیکن تصادم سے گریز کریں۔
مغیرہ بن شعبہ اپنی وفات 50 ھجری تک کوفہ کے گورنر رہے اس دوران انھوں نے شیعان علی پر معاشی پابندی تو لگائی لیکن کوئی فوجی کاروائی نہیں کی۔
کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کی گورنری کے نو سالہ دور میں بندوبست اراضی کا وہ پرانا بندوبست پھر سے بحال ہوگیا جس کے خلاف کوفہ میں بہت بڑے پیمانے پر سماجی تحریک کھڑی ہوئی تھی۔ عرب اشرافیت جسے بعد میں "شعوبیت" کہا گیا اسے اس کے مطابق کوفہ میں سماجی ہیرارکی کو پھر سے تشکیل دیا جانا شروع ہوا۔ شیعان علی ابن ابی طالب کی فہرستیں تیار ہوئیں جیسے آج کل کوئی نسل پرست فاشسٹ رجیم کسی خاص نسل یا فرقے کے لوگوں کی پروفائلنگ شروع کردے اور اس فہرست میں شامل کوئی بھی شخص معاشی تنگ دستی سے نہ بچ سکا اور نہ نگرانی سے اور ان میں جو بڑے بڑے اہم نام تھے انھیں جامع مسجد کوفہ میں نماز جمعہ کے وقت موجود رہنے کا حکم صادر کیا جاتا۔ ایسے وقت میں یہ وقت بہت کڑا ہوتا کیونکہ خطبہ میں حضرت علی اور ان کے رفقاء کی مذمت کی جاتی اور یہ بات ان پر سخت گراں گزرتی۔
صلح امام حسن کے بعد کوفہ کے ممتاز اور معروف قبائل کے شیعان علی کے خلاف نسلی صفائی ethnic cleansing کا حربہ اس لیے استعمال نہیں کیا گیا خطرہ تھا کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ سب جو امام حسن کی وجہ سے چپ تھے وہ سب بغاوت کر دیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ غضب کے political strategist تھے۔ ان کے سیاسی کیرئیر پر ہم نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی سماجی کرانتی کاری نہیں تھے۔ نہ ہی وہ اقتدار میں رہنے اور ہر قیمت پر طاقتور عہدے پر فائز رہنے کے حق میں تھے۔ وہ طاقت کے مختلف مراکز سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا کر رکھتے تھے۔
حضرت علی کی خلافت میں کیونکہ ان کی جائیداد، دولت اور کاروبار سب کوفہ میں تھا تو انہوں نے حضرت علی کی بیعت تو کرلی تھی لیکن انہوں نے نہ حضرت علی کی حکومت میں شرکت پر آمادگی کی ایک شرط رکھی تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ معاویہ ابن ابی سفیان کو گورنر شام کے عہدے سے معزول نہ کریں اور ان کے ساتھ صلح صفائی سے چلیں۔ ہمارے پاس اس بات کی کوئی ٹھوس دلیل یا شواہد نہیں ہیں کہ ہم ان کی اس تجویز کو کسی بدنیتی پر مبنی خیال کریں۔ حضرت علی نے بھی ان کے مشورے دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا لیکن ان کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ اس کے بعد حضرت علی کے پورے دور میں سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہوگئے۔ انھوں نے حضرت علی کی طرف سے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی۔
تاریخ کے جتنے ابتدائی ماخذ ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ معاویہ ابن ابی سفیان چاہتے تھے کہ وہ کوفہ میں ایسا شخص گورنر بنائیں جو کوفہ میں حالات کو کھلے تصادم کی طرف لیجانے سے بچائے رکھے۔ انھوں نے جب اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کی تو یہ عمرو بن العاص تھے جنھوں نے مغیرہ بن شعبہ کا نام پیش کیا اور ان کے بارے میں یہ جملے کہے۔
"وہ ایسا شخص ہے جو رعایا پر سختی بھی کر سکتا ہے اور ہنسی میں بات کو لپیٹ بھی سکتا ہے۔
نہ وہ نیکی سے بہت دور ہے، نہ برائی سے بہت قریب۔ "
(ماخوذ: ابن اثیر، طبری اور بلاذری کے آثار)
تاریخ میں مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ کوفہ میں قصر امارت اور جامع مسجد کوفہ میں کبار شیعان علی کی بارہا انتہائی سخت ترین گفتگو کا ذکر ملتا ہے جسے واقعی مغیرہ بن شعبہ نے ہنسی میں اڑا دیا اور کھلے تصادم سے بچتے رہے۔
یہ مغیرہ بن شعبہ ہی تھے جنھوں نے معاویہ ابن ابی سفیان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ یزید کی ولی عہدی کا معاملہ خفیہ رکھیں ورنہ عراق میں بغاوت ہوجائے گی۔ مغیرہ بن شعبہ نے بھی اپنی وفات تک اس معاملے کو پوشیدہ ہی رہنے دیا۔
مغیرہ بن شعبہ کی گورنری کے زمانے میں انھیں عسکری چیلنج کا سامنا خوارج سے رہا جن سے انھوں نے کوئی رعایت نہیں برتی اور انھیں چن چن کر قتل کیا۔
جب مغیرہ بن شعبہ کی وفات ہوگئی تو معاویہ بن ابی سفیان کے سامنے ایک بار پھر کوفہ کی گورنری کے لیے مناسب آدمی کے انتخاب کا معاملہ آن پڑا۔ انھیں کوفہ میں کوئی شخص مغیرہ بن شعبہ کے برابر نظر نہیں آیا۔ ایسے میں ان کی نظر انتخاب بصرہ کے گورنر زیاد بن ابیہ پر پڑی جو ایک زمانے میں حضرت علی کی فوج کا اہم کمانڈر تھا۔ وہ حضرت علی کی شہادت کے بعد اس وقت معاویہ ابن ابی سفیان سے جا ملا جب انھوں نے اسے اپنا بھائی مان لیا اور اسے زیاد بن ابی سفیان لکھوانے اور کہلانے کی اجازت دی۔ وہ انتہائی طاقتور گورنر تھا اور بصرہ میں اس نے شیعان علی کو خوب قابو کرکے رکھا ہوا تھا۔ اس کو جب معاویہ بن ابی سفیان نے گورنر کوفہ مقرر کیا تو اس فیصلے پر کوفہ کے شیعان علی نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور اس نے جب جامع مسجد کوفہ میں آکر پہلا خطبہ دیا تو خوب ہنگامہ ہوا اور اس ہنگامے میں حجر بن عدی، عمرو بن حمق سمیت کوئی چھے انتہائی ممتاز شیعان علی پیش پیش تھے۔
پہلے دن سے زیاد اور شیعان علی میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ زیاد نے کوفہ میں شیعان علی پر پابندی عائد کردی کہ اگر وہ بنو امیہ کی حکومت اور اس کے عمال پر تبرا بند نہیں کریں گے تو انھیں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور چھوٹے موٹے کمزور قبائلی حثیت کے لوگ قتل تک کیے جانے لگے۔ اس زمانے میں سختیاں اس قدر بڑھیں کہ کوفہ میں آباد یمنی قبائل میں جو علوی تھے انھوں نے بہت بڑی تعداد میں یمن میں اپنے آبائی علاقوں کی طرف ہجرت کی۔ جبکہ عدی بن حاتم بھی اپنے قبیلے کے بہت سے لوگوں کے ساتھ یمن کی پہاڑیوں پر پناہ گزین ہوگئے۔
خلیفہ عبداللہ الطائی نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور قبیلہ طئے کے محلے کی عورتوں نے زیاد کے سپاہیوں کو گھیر لیا اور عبداللہ الطائی کو ان کی گرفت سے چھڑایا۔ زیاد نے حجر بن عدی، عمرو بن حمق سمیت کچھ کبار شیعہ کو گرفتار کرکے شام بھیج دیا جہاں ان میں سے پانچ قتل کر دیے گئے۔ ایک کو شمر الجوشن کی سفارش پر رہائی ملی۔ زیاد کے زمانے میں طبری کے مطابق کوفہ، بصرہ اور واسط اور اس کے گرد و نواح میں ایک لاکھ افراد قتل ہوئے جن میں خوارج کے بعد سب سے زیادہ شیعان علی تھے۔ شیعان علی کی ایک بہت بڑی تعداد کوفہ، بصرہ اور واسط چھوڑ کر الجزیرہ۔۔ بحرین منتقل ہوگئی جہاں پر حذیفہ الیمان معروف صحابی رسول کے بیٹے گورنر تھے اور انھیں معاویہ ابن ابی سفیان نے ہٹایا نہیں تھا۔
زیاد 60 ھجری میں فوت ہوا۔ اس کے بعد معاویہ ابن ابی سفیان نے معروف انصاری صحابی نعمان بن بشیر جو کم عمری میں شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے لیکن ان کے والد بشیر بن سعد بن ثعلبہ خزرج قبیلے کی بنو حارث شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ انصاری صحابہ میں سب سے پہلے گروہ میں شامل تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا اور یہ حضور علیہ الصلوات والسلام کے ساتھ تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔ ان کے بیٹے نعمان بن بشیر بنو خزرج میں سے کوفہ میں بسنے والے اولین انصاری صحابہ میں تھے۔ ان کے والد بنو حارث خزرج میں سے وہ پہلے صحابی تھے جنھوں نے سعد بن عبادہ اور ان کے قبیلے بنو ساعد خزرج سے اختلاف کرتے ہوئے ثقیفہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت کی تھی۔ لیکن نعمان بن بشیر حضرت علی اور امام حسن کے ساتھ رہے تاوقتیکہ صلح ہوگئی اور معاویہ ابن ابی سفیان سارے بلاد اسلامیہ کے حکمران بن گئے۔ یہ ان صحابہ میں شامل تھے جو حضرت علی پر سب و شتم کے خلاف تھے۔ انہوں نے نہ صرف فضائل علی میں احادیث بھی بیان کیں بلکہ ان پر سب و شتم کے رد میں انتہائی سخت وعید والی احادیث بھی روایات کیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کو گورنر بنائے جانے کی مصلحت کوفہ میں یزید کی جانشینی پر بغاوت سے بچنے کی تدبیر تھی۔ جیسے ہی معاویہ ابن ابی سفیان کی وفات ہوئی تو نہ صرف زیر زمین شیعان علی نمودار ہوگئے بلکہ الجزیرہ سے بھی کافی تعداد میں شیعان علی واپس آئے۔ انھوں نے نعمان بن بشیر کے پیچھے نماز کی ادائیگی ترک کردی اور خود کو منظم کرنے لگے۔ کوفہ میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے سلیمان بن صرد الخزاعی کے گھر کبار شیعان علی ابن ابی طالب کا اجلاس ہوا اور اس میں آئندہ کا پروگرام طے کیا گیا۔ کوفہ میں شیعان علی سے تعلق رکھنے والے ہر گھر تک پیغام پہنچایا گیا۔ امام حسین کی طرف قاصد بھیجے گئے۔ یہ معاملہ ابھی جاری تھا کہ اشراف القبائل میں حامیان بنو امیہ نے یزید بن معاویہ کے پاس دمشق میں پیامبر بھیجے اور انھیں بتایا کہ نعمان بن بشیر شیعان علی سے کوئی تعرض نہیں کررہے ہیں۔
یزید بن معاویہ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے گورنر بصرہ عبیداللہ ابن زیاد کو کوفہ کا نیا گورنر بناکر بھیجا۔ جبکہ شام میں مقیم شمر الجوشن اور عمرو بن سعد بن ابی وقاص کی سربراہی میں دو الگ الگ لشکر روانہ کیے اور عبیداللہ ابن زیاد کو جیسے ہی شام سے کمک ملی تو انھوں نے کوفہ اور بصرہ دونوں کی ایسی ناکہ بندی کی کہ کوئی نہ تو حجاز سے وہاں داخل ہوسکے اور نہ ہی کوفہ و بصرہ سے نکل کر باہر جاسکے۔ اس دوران عبیداللہ ابن زیاد کو سب سے بڑی کامیابی یہ ملی کہ اس نے قیس بن الاشعث الکندی جس کے ساتھ کندہ قبیلے کے اشراف اور نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی اپنے ساتھ ملایا اور دوسری طرف قبیلہ مراد جس کے سردار ہانی بن عروہ کے گھر مسلم بن عقیل پناہ لیے ہوئے تھے اس قبیلے کے ایک بہت بڑے سردار شریک بن الاعور جو کسی زمانے میں حضرت علی کے بہت بڑے ساتھی تھے لیکن صفین کی جنگ میں مسئلہ تحکیم میں یہ بدظن ہوکر "غیرجانبدار گروہ" میں شامل ہوگئے تھے کو اپنے ساتھ ملایا۔
یہ قبیلہ مراد کے ان سرداروں اور اشراف میں شامل تھے جو ہانی بن عروہ کو تحفظ کی ضمانت دے کر عبیداللہ ابن زیاد تک لے گئے تھے جہاں انھیں قتل کردیا گیا اور ان کی لاش کو قبیلہ مراد کے محلے کے ایک چوک میں لٹکادیا گیا۔ ان جیسے غداروں نے شیعان علی کی فہرستیں عبیداللہ ابن زیاد کو فراہم کیں جس کی بنا پر کوفہ میں شیعان علی کو گرفتار کیا جانا، گھروں میں نظر بند کیا جانا اور قتل کیا جانا ممکن ہوا۔ بہت بڑا کریک ڈاؤن ہوا۔ سلیمان بن صرد الخزاعی، نخبہ بن فراز، مختار ثقفی (حالانکہ یہ کوفہ کے نواح میں لشکر اکٹھا کررہے تھے انھیں گرفتار کیا گیا) سب کو گرفتار کرکے زنداں میں ڈال دیا گیا۔
طبری کے مطابق عبیداللہ ابن زیاد کے قید خانوں میں 20 ہزار کے قریب شیعان علی قید تھے جبکہ 40 ہزار کے قریب غیر مسلح کرکے گھروں میں قید کردیے گئے تھے جو نکلنے کی کوشش کرتا محلوں میں عبیداللہ ابن زیاد کے سپاہی اسے قتل کر دیتے تھے۔ ابن اعثم کوفی قتل ہونے والوں کی تعداد دس ہزار بتاتا ہے جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھے۔ کم سن بچوں کو نیزے کی انی پر اچھالا گیا تاکہ خوف و ہراس پھیل سکے۔ ظلم و جبر کی یہ ساری داستان کتب تواریخ میں درج ہے لیکن اگلے 80 سالوں میں جو بات سب سے زیادہ مشہور کی گئی وی تھی "کوفی لایعوفی"۔۔
اگر یزید ابن معاویہ سے لیکر آخری اموی حکمران تک سب سے زیادہ کسی بلاد اسلامیہ میں سے بلد اسلامیہ میں بنوامیہ کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت، بغاوتیں ہوئیں تو وہ یہی شہر کوفہ تھا۔ سب سے زیادہ اگر کسی شہر میں لوگ محبت و مودت و عشق اہل بیت میں قتل ہوئے، جلاوطن ہوئے اور معاشی طور پر تباہ ہوئے تو وہ کوفہ کے ہی باشندے تھے۔ کوفہ کے بے وفاؤں، غداروں، ہوس زر کے پجاریوں اور درباریوں کو سب نے کوفہ کی بے وفائی کے طور پر خوب بیان کیا لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ انھیں شناخت ان کی دی جو آل محمد پر مر مٹے تھے۔
دشمنان آل محمد سے تو کیا گلہ کیجیے جو بعد میں خود کو محبان آل بیت کہنے والے آئے چاہے وہ امامیہ تھے یا غیر امامیہ سنی وہ بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ ہی کہتے پائے گئے کہ کوفہ نے بے وفائی کی۔
سنی شیعہ کو الزام دیتے رہے کہ وہ رونے پیٹنے کا ناٹک کرتے ہیں ان کے کوفی شیعہ آباء نے حسین کو بلایا اور شہید کرایا۔ شیعہ یہ دلیل لیکر بیٹھ گئے کہ کوفہ تو سنی اکثریت کا شہر تھا اور وہ سنی اکثریت قتل حسین کی ذمہ دار ہے۔ گویا دونوں کے ہاں کوفہ بے وفائی کا استعارہ ٹھہرا۔
میں نے اپنی کتاب "کوفہ: فوجی چھاونی سے سماجی۔ سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک" سے پہلے نہ کسی کتاب میں، نہ کسی تقریر میں کوفہ کے لاکھوں مقتولین، مجبور و محکوم شیعان علی کی وفا کا دفاع کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اس شہر کی کئی نسلوں نے آل محمد سے وفا کے جرم میں شدید بربریت اور خون آشام سزاوں کو بھگتا۔ یہاں تک کہ جب بنوعباس آئے تو انہوں نے بھی اسی شہر پر سب سے زیادہ قہر ڈھایا کیونکہ اس شہر کے باسیوں نے بنو عباس کو للکارا کہ وہ رضائے آل محمد کا نام لیکر اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس حق گوئی کی سزا منصور کے ہاتھوں امام اعظم کہلانے والے نعمان بن ثابت ابوحنیفہ نے بھگتی۔ ان پر رافضی ہونے کی تہمت گھڑی گئی کیونکہ وہ بنوعباس کی حکومت کو بھی ناجائز سمجھتے تھے۔ محبت اہل بیت بنو عباس کے دور میں بھی جرم ٹھہری تب ہی تو امام شافعی کو کہنا پڑا۔۔ اگر حب آل محمد رفض ہے تو سارا زمانہ جان لے میں سب سے بڑا رافضی ہوں۔
فی زمانہ اس سے بڑا ستم کیا ہوگا کہ اس دور کا ایک ادیب "کوفہ کے مسافر" جیسا ناول لکھتا ہے تو اس میں کوفہ کی وہی تصویر کشی کرتا ہے جو بنوامیہ اور بنو عباس کی درباری اسٹبلشمنٹ نے دکھائی تھی اور کوفہ کو اس نے معدودے چند کو چھوڑ کر بس بے وفا اور عہد شکنوں کا شہر دکھایا۔ کوفہ کے ساتھ یہ ظلم ابھی تک جاری ہے۔ کچھ بدلاو آیا ہے لیکن پوری طرح سے کوفہ کے وفاشعاروں کو انصاف نہیں ملا۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب سب حقیقت کو مانیں گے کہ اگر کسی شہر میں سب سے زیادہ وفاداران آل محمد تھے تو وہ کوفہ شہر میں تھے۔

