Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Jamhuriat, Taraqi Pasandi Aur Siasi Jamaten

Jamhuriat, Taraqi Pasandi Aur Siasi Jamaten

جمہوریت، ترقی پسندی اور سیاسی جماعتیں

ستائیسویں ویں ترمیم کو لیکر ہمارے ہاں جو عمومی سیاست کا ڈسکورس سامنے ہے، اس کا جوہر اپنی پسندیدہ جماعت کی مرکزی قیادت کا دفاع ہے اور اپنے ہاں مردود سیاسی جماعتوں کی قیادت پر تبرا کرنا ہے۔ قریب قریب یہی ہمارے سماج پر غالب سیاسی ڈسکورس ہے۔

اگر ہم اس گروہ بند اور فرقہ وارانہ سیاسی ڈسکورس سے ہٹ کر موجودہ سیاست پر صاف صاف اور سیدھے سوالات رکھیں تو وہ کچھ یوں بنیں گے؟

آج پاکستان کی سیاست کا مجموعی مزاج کیا ہے؟ عوامی جمہوری یا اشرافیائی جمہوری؟

اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ یہی ہوگا کہ پاکستان کی سیاست کا مجموعی مزاج جتنا بھی جمہوری ہے وہ صرف اور صرف طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی حد تک جمہوری ہے۔

اس سے اگلا سوال یہ ہوگا کہ ہم جس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں یا جسے ہم پسند کرتے ہیں اس جماعت کے اندر سیاسی جمہوریت کتنی ہے؟ اس کی جانچ کا پیمانہ کیا ہوگا؟

ایک حقیقی جمہوری جماعت کی عام تعریف یہ ہے کہ اس کے اندر جمہوریت ہوا کرتی ہے۔ وہ رنگ، نسل، ذات پات، مذھب، فرقہ کی بنیاد پر کسی شخص کو اپنی رکنیت سے محروم نہیں کرتی۔ اس کی پہلی تاسیسی بنیاد اس کا پرائمری یونٹ ہوا کرتا ہے اور یوں نیچے سے اوپر تک اس جماعت کا تنظیمی سٹرکچر ایک ایسی ہیرارکی کی تشکیل کرتا ہے جس کی بنیاد پارٹی انتخابات پر ہوتی ہے۔ اس پارٹی کے تمام عہدے اور ادارے منتخب عہدے اور ادارے ہوا کرتے ہیں اور پارٹی کے اندر تمام فیصلے جمہوری مشاورت اور اکثریت رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

کیا اس اعتبار سے کوئی بھی جمہوریت پسند ہونے کی دعوے دار سیاسی جماعت ہمارے ہاں جمہوری سیاسی جماعت کہلانے کی حقدار ہے؟

جب کسی سیاسی کارکن کے پاس باقاعدہ اس پارٹی کے بنیادی رکن ہونے کی تصدیق کرنے والا کارڈ تک نہ ہو اور وہ اس بنیادی رکنیت کے سبب اپنے مقامی و صوبائی اور مرکزی عہدے دار کا انتخاب کرنے کا حقدار ہی نہ ہو تو وہ جس سیاسی جماعت سے وابستہ ہے، اسے جمہوری سیاسی جماعت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر وہ اپنی سیاسی جماعت کے عہدے داروں کے انتخاب کا اختیار نہ رکھتا ہو اور نہ ہی وہ اپنی سیاسی جماعت میں اپنے حق انتخاب کی لڑائی لڑتا ہو تو ایسے کارکن کو ہم کیسے ایک جمہوری سیاسی کارکن قرار دے سکتے ہیں؟

اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سا پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ فیصلہ کرسکیں کہ کوئی سیاسی جماعت ترقی پسند جمہوری جماعت قرار پائے گی۔

علم سیاسی۔ سماجیات کی روشنی میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کی جماعت کی جملہ قیادت کا تعلق کون سے طبقات سے ہے۔ اس میں اس سیاسی جماعت کی اوپر سے لیکر نیچے تک سماجی طبقاتی ہیرارکی کو دیکھنا ہوگا۔

سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اس جماعت کی مرکزی قیادت اور اس کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں کس طبقے کے لوگ زیادہ ہیں؟ اور کس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا فیصلوں پر کنٹرول ہے؟

پاکستان کی جو سماجی ہیرارکی ہے وہ ایک طرف تو استحصال کرنے والوں کی ہے۔ اس میں بڑے، درمیانے اور چھوٹے سرمایہ دار شامل ہیں۔ پھر جاگیردار ہیں یعنی بڑے قطعات اراضی کے مالک ہیں۔ یہ مل کر مزدور اور کسان کا استحصال کرتے ہیں۔

دوسری طرف یہ سماجی ہیرارکی ان زبردست، ظالم، جابر، نسلی، لسانی، مذھبی و فرقہ وارانہ اور صنفی و ذات پات کی برتری و تعصبات کے علمبردار گروہوں کی ہے جو سماج میں سب آلٹرن گروہوں کو سماج کے طاقت کے مراکز اور مرکزی دھاروں سے خارج کرتے ہیں۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایک سیاسی جماعت جو جمہوریت کی دعوے دار ہو اور اس کی تنظیمی اور پارلیمانی ہیرارکی میں اوپر کی سطح پر غلبہ، کنٹرول اور اکثریت محنت کشوں، کسانوں اور سب آلٹرن کی ہے؟

اگر ہمارا جواب نفی میں ہے تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ وہ سیاسی کارکن جو ان سیاسی جماعتوں میں ہوتے ہوئے خود کو ترقی پسند سیاسی کارکن کہتے ہیں اور ان کا تعلق سماج کے محنت کش، کسان اور سب آلٹرن سے ہے تو کیا وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں پالیسی سازی اور فیصلوں کا اختیار اپنے طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو دیے جانے کے لیے پارٹی کے اندر کسی اجتماعی جدوجہد کی تشکیل کر رہے ہیں؟ اور اگر کیا ہے تو ان کی جدوجہد کے آثار ان کی ممدوح سیاسی جماعت میں کسی ہلکی سی بھی ایسی تبدیلی کے کیوں نظر نہیں آتے؟ ان کی جماعت کی بھاری اکثریت کا تعلق استحصالی اور ظلم و جبر کرنے والے طبقات اور گروہوں سے کیوں ہے؟

یہ وہ پیمانے ہیں جن پر جانچ کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت نہ تو عوامی جمہوری جماعت ہے اور نہ ہی وہ ترقی پسند جماعت ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان جماعتوں کے دفاع کرنے والے ان جماعتوں کی قیادت کو کیسے جمہوریت پسند اور ترقی پسند بتاتے ہیں؟

اس بحث کے دوسرے حصے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ اس وقت ملک کی پولیٹیکل اکنامی ہے کیا اور کیا اسے ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan