Harasani Ke Waqiat Aur Aik Ghalat Ravish
ہراسانی کے واقعات اور ایک غلط روش

ایمرسن یونیورسٹی کے شعبہ کامرس اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی دو خواتین اساتذہ کی طرف سے ایک پروفیسر کے خلاف دی جانے والی "ہراسانی" کی درخواست پر انکوائری بند کردی گئی۔ معاملہ دبا دیا گیا۔ اس معاملے پر رپورٹنگ کرنے والے سینئر رپورٹرز اور ماہرین قانون کی اکثریت کا موقف ہے کہ اس معاملے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی۔ شکایات کرنے والی خواتین کا میڈیا اور سوشل میڈیا پر ٹرائل ہوا۔ رجسٹرار سمیت یونیورسٹی انتظامیہ کا کردار غیر جانبدار نہیں تھا۔ بدنامی کے ڈر سے درخواست دہندہ خاموش ہوگئیں۔
بہاءالدین یونیورسٹی میں شعبہ فاریسٹری کے سربراہ پر اپنی سابقہ بیوی کا ریپ کرنے کا الزام لگا تو پہلے دن سے سابق سربراہ نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ الزام لگانا شروع کیا کہ ان کا یو ٹی ایف نامی بی زیڈ یو کی اساتذہ کی تنظیم کی طرف سے پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کی صدرات کا انتخاب لڑنا، شعبہ زراعت سےزمین کی ملکیت کے ایک تنازعے فریق ہونا، وی سے ان کے مبینہ اختلافات ان کے خلاف یہ اسکینڈل گھڑنے کا سبب بنے ہیں۔ لیکن دوسری طرف باوثوق زرایع کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں اپنے مطلب کی طبی معانئہ رپورٹ مرتب کرنے کا یقین نہ ہوا وہ طبی معانئے کے لیے راضی نہ ہوئے۔ فرانزک رپورٹ کے لیے بھی انہوں نے متعلقہ ادارے کو اپروچ کیا اور پولیس پر بھی دباؤ ڈالا، کمزور چالان مرتب کرایا اور ضمانت بعدد از گرفتاری ممکن بنالی۔ اس دوران ان کی تنظیم یو ٹی ایف مسلسل دباؤ کی ٹیکٹس اپناتی رہی، سوشل میڈیا پر ان کی عظمت، مہارت اور فاریسٹری میں ان کے کارنامے گنوائے گئے اور انہیں مہاتما بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ مدعیہ پروفیسر کی کردار کشی کی مہم چلتی رہی۔
اسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ممتاز کلیانی کے خلاف ایک طالبہ کی درخواست جب سامنے آئی تو یونیورسٹی کے قائم مقام وی سی ان کی ڈھال بن کئے، انھوں نے اس درخواست پر ہراسانی کمیٹی کو اپنی رپورٹ مرتب کرکے پیش نہ کرنے پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ جب اس وقت کے گورنر نے قائم مقام وی سی کو کاروائی کرنے کو کہا تب بھی قائم مقام وی سی نے معاملہ لٹکائے رکھا یہاں تک کہ وہ ریٹائر ہوگئے یوں متاثرہ طالبہ کو انصاف نہ ملا۔ اس دوران ڈاکٹر ممتاز کلیانی سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے۔ سرائیک خطے کے بڑےنامور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ ان کے گروپ فوٹو نمایاں ہوئے اور کہا گیا کہ وہ بڑے عالم فاضل اور سرائیکی خطے کے نامور دانشور ہیں۔ انہیں کسی انکوائری کے بغیر الزام سے بری کردیا گیا اور شکایت کرنے والی طالبہ کی کردار کشی جاری رکھی گئی اور یوں یہ معاملہ بھی دب گیا۔
اب علی پور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک ٹیچر خاتون نے اپنے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرایا۔ پرنسپل ایک صحافتی تنظیم اور پریس کلب کے سربراہ بھی ہیں۔ پہلے تو اس صحافتی تنظیم اور پریس کلب کے لیٹر پیڈ پر ایک پریس ریلیز جاری کی گئی اور مقدمے کو آزادی صحافت کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ وائرل ویڈیو کا فرانزک کرانے کا مطالبہ کرنا کی بجائے ان وڈیوز کو بلیک میلنگ کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ ملزم نے اپنے خلاف رضاکارانہ طور پر پولیس تفتیش میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ پولیس انہیں گرفتار نہ کرسکی۔ وہ میڈیا پر پریس کانفرنس کرکے میڈیا کے زریعے اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ سوشل ميڈیا پر درجنوں آئی ڈیز کے زریعے ان کی عظمت اور معصومیت کی گواہیاں دی جارہی ہیں جبکہ متاثرہ خواتین کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
یہ میں نے چار مثالیں بطور نمونہ پیش کی ہیں۔ پورے پاکستان کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور جنسی ہراسانی کی جتنی باقاعدہ شکایات سامنے آئیں، ان میں ملزم وی سی، پروفیسر یا کوئی اور طاقتور پوزیشن رکھنے والوں نے اپنے خلاف الزامات کے معاملے کو قواعد و ضوابط کے مطابق متعلقہ فورم اور حکام کے سامنے پیش ہونے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں جہاں اپنی حمایت حاصل کرنے کی مہم چلائی، وہیں متعلقہ یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں اپنی لابنگ کے زریعے معاملے کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کو ہوار طریقے سے چلنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنانے اور شکایت کی جرآت و ہمت کرنے والی متاثرہ خواتین کی کردار کشی کی زبردست مہم چلائی اور اس طرح سے متاثر خواتین اور لڑکیوں کو خاموش کردیا گیا۔ اس حوالے سے ہماری پڑھی لکھی اربن مڈل کلاس کا رویہ افسوسناک حد تک میل شاؤنسٹ ہی رہا۔
مئی 2024ء میں مجھے ایف آئی سائبر کرائمز رپورٹنگ سیل کراچی کی جانب سے ایک نوٹس ملا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک خاتون نے مجھ پر سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکائے جانے کا الزام عائد کیا۔ وہ خاتون ایک ماہر سماجیات اور اقوام متحدہ سمیت کئی بین االاقوامی ایجنسیوں میں اہم عہدوں پر تعینات رہنے اور جینڈر اسٹديز کے ایک استاد کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائمز رپورٹنگ سیل میں ایک درخواست کی مدعیہ تھیں۔ انہوں نے الزام علیہ پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے اسے برطانیہ میں مستقل شہریت اور نوکری دلانے کے بہانے ریپ کرنے کی کوشش کی اور ان کو سوشل میڈیا اور موبائل فون کے زریعے سے جنسی طور پر ہراساں کیا۔ مدعیہ کا یہ دعوا بھی تھا کہ انہیں ایک کم سن نابالغ لڑکی نے بتایا کہ الزام علیہ اس کا ریپ کرچکے ہیں۔
مجھ پر الزام عائد کرنے والی مدعیہ خاتون پاکستان پیپلزپارٹی کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک انتہائی با اثر اور بلاول بھٹو زرداری سمیت سندھ کے انتہائی اہم اور طاقتور وزراء و مشیروں کے ساتھ گہرے تعلق رکھنے والی شخصیت کی اہلیہ تھیں اور ان کی میرے خلاف یہ شکایت اتفاق سے اس وقت سامنے آئی جب میں اس شخصیت سمیت پی پی پی کی مرکزی سوشل میڈیا ٹیم کی اقربا پروری، ان کی کارکردگی پر شدید تنقید کر رہا تھا اور اس حوالے سے میری تحریریں اور پوسٹیں بھی لگا تار آ رہی تھیں۔ میرے اور دیگر ساتھیوں کے پیپلزپارٹی کی سیاسی لائن اور پالیسیوں سے اختلافات بھی شدید تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس دوران سندھ میں کئی ایک ناقد کارکن تشدد کا نشانہ بھی بنے تھے۔ میرے لیے یہ بہت آسان کام تھا کہ میں اس شکایت کو درج بالا معاملات سے جوڑ دیتا۔
دوسری طرف اس درخواست میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ کیونکہ ایک تو میں نے مدعیہ کے الزام علیہ سابق استاد کے خلاف سوشل میڈیا پر اس سابق استاد کی وال پر پوسٹوں کے نیچے کمنٹس میں یہ لکھا تھا کہ یہ الزامات اتنے سنگین ہیں کہ ان کے ثبوت منظر عام پر لائے جائیں۔ جس کم سن لڑکی سے مبینہ ریپ ہوا اس کو ایف آئی اے سائبر کرائمز رپورٹنگ سیل کے سامنے پیش ہوکر اپنا مقدمہ لڑنا چاہئیے۔ اسے سابق استاد کی حمایت اور طرف داری خیال کرتے ہوئے مجھے اس معاملے میں کھسیٹ لیا گیا ہے۔
میں نہ تو مدعیہ سے کبھی موبائل فون پر رابطے میں آیا تھا۔ نہ کبھی کوئی پرائیویٹ ٹاک ہماری کسی میسنجر ایپ سے ہوئی تھی اور نہ ہی میں مدعیہ کے کسی پیج کا فالوور تھا نہ ہی میں ان کا فیس بک ٹوئٹر پر دوست تھا۔
لیکن میں نے اس معاملے پر اپنا مقدمہ، دلائل یا صفائی سوشل میڈیا پر نہیں دی اور نہ ہی کوئی لابنگ بنائی۔ میں نے نہ ہی سول سوسائٹی اور سیاسی حلقوں میں اپنے حامیوں کو آواز دی۔ نہ یہ مقدمہ پیش کیا کہ چونکہ میں میری علمی، ادبی، سیاسی خدمات بہت زیادہ ہیں، لوگ میری تحریروں سے متاثر ہیں تو مجھ سے کسی خاتون کو ہراساں کرنے، اسے جنسی طور پر ستانے یا اس سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی مطالبات کرنے کا "جرم" صادر نہیں ہوسکتا۔ میرے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہیں تھی کہ اس خاتون کے کردار اور اعمال بارے جو باتیں مختلف حلقوں میں زیر گردش تھیں، میں انہیں مربوط طریقے سے ایک پروپیگنڈا مہم کے زریعے اس خاتون کو جھٹلا سکتا تھا۔ لیکن اس سب سے مقدمہ یہ بنتا:
الف کی ب سے لڑائی ہے۔ الف سے ہراسانی کا فعل صادر نہیں ہوسکتا – الف بے گناہ ہے۔
الف دانشور ہے، بہت مہان گیانی – وہ کسی کا ریپ نہیں کرسکتا – الف ریپسٹ نہیں ہے۔
دونوں قضیوں میں مقدمہ صغری پر مقدمہ کبری کی بنیاد غلط اور نتیجہ بھی غلط ہی ہے۔
اس کا قابل تقلید طریقہ جو تھا وہ میں نے قبول کیا۔ میں نے نوٹس کا تحریری جواب لکھا۔ اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب تحریر کیا۔ کراچی میں ایف آئی اے سائبر کرائمز رپورٹنگ سیل میں اس درخواست کی جو تفتیشی افسر خاتون انسپکٹر تھیں ان کے سامنے پیش ہوا۔ میں نے نہ صرف اپنا زیر استعمال موبائل انہیں دیا بلکہ میری عادت ہے جب میں موبائل تبدیل کرتا ہوں تو پرانا موبائل فروخت نہیں کرتا یا اسے ضایع نہیں کرتا، اسے اپنے پاس رکھتا ہوں۔ ایسے چار سیٹ میرے پاس تھے، ان سب کو بھی میں نے انسپکڑ کو فرنزاک کے لیے دینے کی پیشکش کی لیکن چونکہ زیر استعمال موبائل تک وہ معاملہ تھا تو وہ انہوں نے نہیں لیا۔ انہوں نے زیر استعمال موبائل کا معائنہ کیا اور الزامات اور میرے جواب کو دیکھنے کے بعد وہ موبائل 15 روز بعد مجھے واپس کردیا۔
سابق استاد جن پر انھوں نے اوپر مذکور کیے الزام عائد کیے تھے انھوں نے لاہور میں مدعیہ کے خلاف ایک استغاثہ دائر کیا ہوا ہے۔ جس کا تازہ سٹیٹس مجھے معلوم نہیں ہے۔
اس سے ہٹ کر ایک اخبار میں جس سے میں بطور ایڈیٹر انوسٹی گیشن سیل وابستہ تھا، اس میں میری کئی تحقیقاتی رپورٹنگ پر درجن بھر سے زائد درخواستیں ایف آئی اے سائبر کرائمز رپورٹنگ سیل اسلام آباد، لاہور، ملتان کو ارسال کی گئیں، ان سب کو میں قانونی طریقے سے ڈیل کیا، کوئی سوشل میڈیا پر مہم نہیں چلائی نہ ہی ان درخواستوں کو لیکر میں نے خود کو آزادی صحافت کا چمپئن اور درخواست گزار کو ایجنسیوں کا ٹاؤٹ قرار دیا۔ وہ سب درخواستیں داخل دفتر ہوئیں۔ ہمارے پاس اس کے بعد عدالت میں مدعیان کے خلاف استغاثے دائر کرنے کا اختیار تھا جو ہم نے استعمال نہیں کیا۔
کسی سلیبرٹی یا طاقتور شخص پر جب بلیک میلنگ، جنسی یا ذہنی استحصال یا ہراسانی کے الزامات کسی پراپر فورم پر پش ہوں تو پھر ان میں اپنی بے گناہی بھی قواعد و ضوابط کے مطابق ثابت کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ الزام کی نوعیت اور حساسیت ایسی ہوتی ہے کہ متاثرہ کے خلاف میڈیا ٹرائل اور سوشل میدیا کمپئن ناروا اور ناجائز ہوا کرتی ہے۔ ایسی کوشش یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ الزام علیہ اپنے سماجی سٹیٹس اور عہدے کو اپنے آپ کواس الزام سے برات کے ثبوت اور دلیل کے لیے پیش کر رہا ہے۔

