Gath Jor
گٹھ جوڑ

پاکستان کے ٹیکس سسٹم میں سب سے کم ٹیکس رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے حاصل ہوتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ایک ایسا سیکٹر ہے جس میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے جمع کردہ کالے دھن کا بہت بڑا حصہ جمع ہوتا ہے جو بے نامی اور عزیز و اقارب کے نام پر جائیدادیں خرید کر لگایا جاتا ہے۔ کالے دھن کا ایک معتدبہ حصہ پاکستان کے امپورٹ سیکٹر سے متعلق کاروبار میں لگایا جاتا ہے۔ تیسرا حصہ ریٹلر اور ہول سیلر سیکٹر سے جڑے کاروبار میں لگایا جاتا ہے۔ یہ تینوں سیکٹر ایسے ہیں جن کا غیردستاویزی معشیت میں بہت بڑا حصہ ہے۔ ان تینوں شعبوں میں زیادہ تر ادائیگی نقدی یا بے نامی ٹرانزیکشن کی صورت میں ہوتی ہے۔
پاکستان کا ٹیکسز سسٹم میں 65 فیصد حصہ بالواسطہ ٹیکسز کا ہے جبکہ صرف 35 فیصد حصہ بلا واسطہ براہ راست ٹیکسز کا ہے۔ اس طرح سے 65 فیصد ٹیکسز حکمران طبقہ اشرافیہ سفید پوش اور غریب طبقے پر منتقل کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کل اکٹھے کیے گئے ٹیکسز میں سب سے زیادہ ٹیکس پاکستان کے سرکاری و غیر سرکاری شعبے میں تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا گیا ہے جس کی مقدار 130 ارب روپے ہے۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے پہلی سہ ماہی میں صرف 60 ارب، امپورٹر نے 45 ارب، ریٹلرز نے 15 ارب اور ہول سیلر نے 14 ارب روپے ٹیکس دیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس سے استثناء حاصل کرنے والوں میں ایک بڑا شعبہ فلاحی، چیئرٹی اور سماجی ٹرسٹ کا ہے جس کی آڑ میں نہ صرف کالا دھن سفید کیا جاتا ہے بلکہ اس نام پر کیے جانے والے کاروبار بھی ٹیکس سے مبرا رہتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ داروں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں نے تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات کے شعبوں میں ایسے چئیرٹی ٹرسٹ قائم کر رکھے ہیں اور وہ ان کے چئیرٹی فنڈز کو مختلف کاروبار میں انویسٹ کرتے ہیں اور وہاں سے ہونے والی آمدن کو ٹیکس سے بچاتے ہیں۔
پاکستان کی فوج نے فوجی فاونڈیشن کے تحت 86 سے زائد کمرشل کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں اور ان سب کو ٹیکس استثنا حاصل ہے۔ اب اس میں پاکستان گرین انی شییٹو۔ پی جی آئی کا اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کمپنیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر جو فوجی فاونڈیشن کی ملکیت ہیں کو آمدنی پر ٹیکس استثناء حاصل ہے۔
جی پی آئی کو جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے خزانے کے اندر سے سپلیمنٹری گرانٹس دی جارہی ہیں وہیں اسے ملک بھر سے کم و بیش 50 لاکھ ایکٹر اراضی بھی انتہائی سستی لیز پر دے دی گئی ہے۔ جبکہ یہ کمپنی انتہائی جدید آلات و مشینری بھی ہر قسم کی ڈیوٹیز سے استثناء حاصل کرکے منگوا رہی ہے۔ امپورٹ کی مد میں ٹیکس سے استثناء میں اس وقت سب سے زیادہ سبسڈی لینے والی پی جی آئی کمپنی ہے۔ اس کمپنی کا کارپوریٹ فارمنگ، ایگروکیملکلز، پیسٹی سائیڈز، فرٹیلائزر اور لائیو اسٹاک سے جڑا کاروبار Highly protected and heavily subsidised ہے۔ اس کے مراعات یافتہ ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جائے کہ اس کمپنی کی ذیلی ایگری مال کمپنی کو صرف پنجاب حکومت نے 12 بلڈنگز تعمیر کرکے دی ہیں جو سیڈ۔ پیسٹی سائیڈز، فرٹیلائزرز اور اس شعبے میں استعمال ہونے والی انتہائی جدید مشینری و آلات کے کاروبار سے جڑی ہوئی ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت کے متعدد محکمے اسے اپنی خدمات بلا معاوضہ فراہم کر رہے ہیں۔ یہ اس مد میں بھی وفاقی اور صوبائی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرا رہی ہے۔ گویا ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے والا معاملہ ہوگیا ہے۔
ایک طرف پی جی آئی فوجی پروجیکٹ ہے جسے زراعت و مداخل زراعت میں کھربوں روپے کی سبسڈی مل رہی ہے تو دوسری طرف پنجاب سیڈ کارپوریشن، محکمہ زراعت کا محکمہ توسیعی زراعت، پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز، کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسے صوبائی محکمے اور انسٹی ٹیوٹ ہیں جن کے سالانہ ترقیاتی بجٹ انتہائی کم ہیں اور وہ ایسی مراعات کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
پی جی آئی کے بنیفیشریز آخری نتیجے میں جہاں پاکستان کے ایگروبیسڈ بزنس کے بڑے کارپوریٹ ادارے، جرنیل، بیوروکریٹ، سیاست دان ہیں وہیں اس کے دوسرے بڑے بنیفیشریز اس بزنس کے عالمی سامراجی کارپوریٹ ادارے ہیں۔ اس میں درمیانے درجے کے زرعی اور لائیو اسٹاک کاروباری انتہائی کم اور چھوٹا بزنس تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ پی جی آئی کا سیڈ، ایگروکیملکلز، پیسٹی سائیڈز، فرٹیلائزرز کا بزنس ماڈل چھوٹے بزنس اور ڈیلرز کے لیے تو ان کاروبار میں جگہ اور کم کرے گا۔ چھوٹے کسان کے لیے زراعت کی ترقی کے اس ماڈل میں کوئی جگہ نہیں رہے گی اور اسے بے دخلی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا جیسے وہ پہلے کر رہا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے کہ عسکری کارپوریٹ بزنس اور فوجی اسٹبلشمنٹ کا پاکستان کی معاشی و مالیاتی پالیسیوں میں بالادستی اور غلبہ سول کارپوریٹ بزنس کا حریف اور مدمقابل ہے یا اس کا کل سرمایہ سویلین کارپوریٹ سرمائے سے زیادہ ہے اور اس کے لیے نقصان دہ ہے جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ایک تو یہ بالادستی سویلین کارپوریٹ سرمائے کے لیے زبردست مواقع اور منافع کا سبب ہے اور دوسرا ملٹری کارپوریٹ سرمایہ سویلین کارپوریٹ سرمائے کے مقابلے میں 20 فیصد بھی نہیں ہے۔ تیسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ فوجی سرمایہ مقامی اور عالمی سرمائے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ اور ان کے ساتھ مشترکہ وینچر میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مالیاتی اور معاشی سرمایہ دار فوجی اسٹبلشمنٹ کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں پر بالادستی کو اپنے لیے سہولت کاری سمجھتے ہیں اور وہ اس کے خلاف پاکستان میں جمہوریت کی بالادستی کے کبھی بھی حامی نہیں رہے۔
پاکستان کے بڑے سرمایہ دار۔ بورژوازی اور درمیانے درجے کے سرمایہ دار پیٹی بورژوازی کی بھاری اکثریت فوجی آپریشنز اور ملک کو ایک پولیس سٹیٹ میں بدلنے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ اس کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔
پنجاب کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی اکثریت پنجاب میں سی سی ڈی، سی ٹی ڈی جیسے اداروں کے قیام، تعلیم۔ صحت سمیت سوشل سروسز کی نجکاری اور اس کے خلاف اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں کو ریاستی جبر سے دبانے کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان کی بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی اکثریت بلا امتیاز نسلیاتی ثقافتی شناخت کے فوجی آپریشنز، حال ہی میں افغان مہاجرین کے زبردستی انخلاء اور ان کے خلاف نسل پرستانہ منافرت، خصوصی سہولت کاری برائے سرمایہ کاری کونسل کے نام پر فوج کی معاشی و مالیاتی پالیسیوں پر بالادستی، سٹیٹ بینک کی خودمختاری سلب کرنے جیسے اقدامات کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ یہ کارپوریٹ فارمنگ، صوبوں کی معدنیات پر قبضے اور سی پیک جیسے سامراجی سرمایہ داری کے منصوبے کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔
پاکستان کا مجموعی سیاسی۔ انتظامی۔ معاشی سسٹم جو نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ یہ شہری و دیہی غریبوں، مزدوروں اور غریب کسانوں، مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے عوام کا سخت دشمن اور ان کو قومی جبر کا نشانہ بناتا ہے کی سب سے زیادہ حمایت پاکستان کی بورژوازی، عالمی مالیاتی سرمایہ دار ادارے، سامراجی قوتیں کر رہی ہیں۔
پاکستان کا بورژوازی پریس، سول سوسائٹی، لبرل بورژوازی دانشور پاکستان کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے بہت بڑے حصے کی فوجی اشرافیہ سے یہ گٹھ جوڑ نہ صرف چھپاتے ہیں بلکہ وہ ان کے درمیان حریفانہ کشاکش کا جھوٹا پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں۔

