Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Firqa Wariat Se Nijat Kese Mumkin Hai?

Firqa Wariat Se Nijat Kese Mumkin Hai?

فرقہ واریت سے نجات کیسے ممکن ہے؟

آج "ملتان لٹریری فیسٹویل" کا دوسرا روز تھا۔ میں 12 بجے ملتان آرٹس کونسل کے سحر صدیقی آڈیٹوریم میں پہنچا تو رضی الدین رضی اور الیاس کبیر "کتاب میلہ" سیشن کو ماڈریٹ کر رہے تھے۔ یہ کتاب میلے کا بھی دوسرا روز تھا۔ اس سیشن میں 20 کے قریب سرائیکی وسیب کے ادیبوں، شاعروں، محققین اور ناقدین کی کتابوں کا تعارف کرایا گیا اور ان مصنفین کو اسٹیج پر بلا کر سیشن کے شرکاء کو اظہار خیال کا موقعہ فراہم کیا گیا۔ "کتاب میلہ" اس اعتبار سے ایم ایل ایف کی ایک اہم ترین سرگرمی ٹھہری ہے کہ اس کے کل تین سیشن میں کم و بیش 150 ادیبوں، شاعروں اور محققوں تین صد سے زائد کتابوں کا تعارف بھی ہوا اور ان کے مصنفین و مرتبین سے بھی شناسائی کا موقعہ میسر آیا۔

میں نے اس سیشن میں اروندھتی رائے کے ناول "دا گاڈ آف سمال تھنگز" کے تخلیقی ادبی ڈکشن پر بات کی۔ اسے میں الگ مضمون کی حثیت سے تحریر کروں گا۔ میری گفتگو سننے کے بعد ڈاکٹر شکیل پتافی نے کہا کہ کیا میں کالونیل انگریزی، کالونیل اردو، سب آلٹرن انگریزی و سب آلٹرن اردو اور اردو فکشن پر ان کے طلباء کو ایم فل کے تھیسس لکھنے میں مدد فراہم کرسکتا ہوں؟ میں نے ان سے کہا کہ اس سے زیادہ اور خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔

شرکاء کی تعداد بہت کم تھی۔ اس کا الزام اس ادبی میلے کی انتظامیہ کو نہیں دیا جاسکتا۔ ملتان میں سرکاری اور غیر سرکاری جامعات اور کالجز کے سربراہان کے لیے یہ باعث شرم ہونا چاہئیے کہ انھوں نے اس میں اپنے اداروں کے طلباء و اساتذہ کو شرکت کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی وگرنہ چند ہزار لوگوں کی شرکت ممکن بنانا ان کے لیے کوئی مشکل بات نہیں تھی۔

مجھے اس دوران اپنے صحافتی ورک کے لیے ایک جگہ جانا پڑا تو میں"کتاب میلے" کے سیشن کے بعد دوسرے سییشن "ترقی پسندی کی تشکیل جدید" کے شرکاء کی گفتگو سننے سے محروم رہ گیا، جس کا مجھ ملال ہے۔ اس سیشن کے ماڈریٹر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر خاور نوازش تھے۔ اس سیشن سے حیدرآباد سندھ سے تشریف لائے ہوئے دانشور جامی چانڈیو، مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے دانشور رانا محبوب اور دیگر لوگ تھے۔

اس کے بعد ویمن امپاورمنٹ اور فیمنزم پر ایک سیشن ہوا۔ اس سیشن میں شریک گفتگو خواتین اور مردوں کی گفتگو سے مجھے مایوسی ہوئی۔ اس موضوع پر ان کی گفتگو سے مجھے یہ تاثر ملا کہ جینڈر اسٹڈیز پر شرکاء نے جدید تحقیق اور نظری کام کا یا تو کما حقہ مطالعہ نہیں کیا یا وہ انہیں اپنی گفتگو کا حصّہ بنانے میں ناکام رہے۔

چوتھا سیشن "فرقہ واریت، انتہا پسندی اور اس کا تدارک" کے عنوان سے تھا۔ اسے فرنود عالم ماڈریٹ کررہے تھے۔ شرکاء گفتگو میں وجاہت مسعود، عمار غزنوی، مجاہد حسین اور راقم الحروف شامل تھے۔

فرنود عالم نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے سماج میں فرقہ واریت کی قوت محرکہ کون ہے؟ کیا دینی مدرسے، مذہبی پیشوائیت، فرقہ پرست جماعتیں، جہادی و تکفیری نیٹ ورک ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ تو میں نے ان سے کہا کہ برصغیر ہند میں مذہبی تضاد محض کالونیل ازم کی دین نہیں تھا بلکہ یہ تضاد برطانوی سامراج کی آمد سے پہلے بھی برصغیر ہند کے سماجوں میں موجود تھا مگر برصغیر ہند کو ایک نوآبادیات / کالونی میں بدلنے والے برطانوی نوآبادیاتی حکمران طبقے نے اس تضاد کو مزید گہرا کرنے اور ہمارے ہاں مذہبی برادریوں کے درمیان اس تضاد کی بنیاد پر گہری تقسیم پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

برطانوی سامراج نے اس خطے کی تاریخ کو "فرقہ وارانہ تاریخ " بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ اس نے ماقبل نوآبادیاتی دور کی اپنے کالونیل پروجیکٹ کے مطابق ماہیت قلبی کی اور اسے ہندؤ اور مسلم ادوار میں تقسیم کردیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں عیسائی مشنریوں کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا اور انہوں نے یہاں ان فرقہ وارانہ مناظروں کی روایت ڈالی جس کے ردعمل نے یہاں پر ہندؤ، سکھ اور مسلمانوں میں مذہبی احیائیت کی تحریکوں کو جنم دیا جنھوں نے فرقہ واریت کے ابتدائی بیج بو دیے۔ برطانوی سامراج نے ایسا نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں پہلے دن سے مذہبی اور نسلیاتی ثقافتی ایتھنک عدم توازن موجود تھا۔

اس ڈھانچے نے یہاں سرمایہ داری کی جس شکل کو جنم دیا اس نے پہلے دن سے "کمیونل سیاست" کے لیے جگہ فراہم کی اور انگریز سامراج نے اسے نوآبادیاتی قبضے کے خلاف ابھرنے والے ہندوستانی سیکولر نیشنل ازم اور اس کی بنیاد پر ابھرنے والی سیکولر نشنلسٹ سیاست کو دیوار سے لگانے کے لیے "کمیونل سیاست " کو گود لیا جس نے آگے چل کر آخرکار برصغیر ہند کو کمیونل بنیادوں پر تقسیم کردیا۔

پاکستان بننے کے بعد حکمران مسلم لیگ کی قیادت نے "اسلام" کو جمہوریت کے خلاف زبردست ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ریاست پہلے دن سے پاکستان میں فرقہ واریت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہوگئی۔

جناح نے اپنے تئیں آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیونل سیاست سے فرقہ وارانہ سیاست کے زریعے سے پاکستان جب حاصل کرلیا تو انھوں نے چودہ اگست 1948ء کو دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس فرقہ واریت کے جن کو بوتل میں واپس بوتل میں بند کرنے کی جو کوشش ایک تقریر کے زریعے کی، اس تقریر کو ريڈیو پاکستان کی نشریات میں تکنیکی خرابی کے زریعے نشر ہونے سے روک دیا گیا۔

ان کی وفات کے بعد ان کی تقریر کے بالکل برخلاف مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد کو منظور کرکے پہلے تو پاکستان میں بچی کچھی مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے سب سے زیادہ متاثرہ دلت تھے جن کے لیڈر جوگندر ناتھ منڈل نے مشرقی بنگال کے دلت ووٹروں کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ اپنے ووٹوں سے سہلٹ اور چٹاکانگ کی مشرقی بنگال میں شمولیت اور اسے پاکستان کا حصّہ بنانے میں ہاتھ بٹائیں۔

1950ء میں مشرقی بنگال کے دلت اکثریت علاقوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے اور پھر ان فسادات کو ختم کرنے کے بہانے پاکستانی فوج نے جو آپریشن کیا اس کا نشانہ بھی زیادہ تر مشرقی بنگال میں دلت اکثریت کے علاقے تھے۔ اس صورت حال نے جوگندر ناتھ منڈل کو نہ صرف کابینہ سے استعفا دینے پر مجبور کیا بلکہ اس نے جوگندر ناتھ منڈل کو اتنا مایوس کردیا کہ وہ پاکستان کی شہریت ترک کرکے واپس کلکتہ چلے گئے اور عوامی جمہوریہ ہندوستان کے شہری بن گئے۔ ان کا استعفا نما خط ایک چارج شیٹ تھی اواس میں انھیں یقین ہوگیا کہ پاکستان میں دلت اور ہندؤ برادریوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

پاکستانی ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے جس قبائلی لشکر کو تشکیل دیا اس لشکرکے زریعے سے جموں و کشمیر میں بسنے والے سکھوں اور ہندؤں کے قتل عام اور ان کی املاک کی لوٹ مار کرائی اور یہ مسلم فرقہ وارانہ قوتوں کی ریاستی سرپرستی کی دوسری مثال تھی۔ اس نے جموں و کشمیر میں مسلمانوں، سکھوں اور ہندؤں کے درمیان نہ ختم ہونے والی فرقہ وارانہ منافرت کو جنم دیا۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور ورثے میں ملنے والی باوردی و بے وردی بابو شاہی نے اقتدار کی محلاتی سازشوں میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ پنجاب میں میاں افتخار الدین ممدوٹ کی صوبائی حکومت کو گرانے کے لیے ممتاز دولتانہ جیسے سیاست دانوں نے پاکستان کی مذہبی پیشوائیت کی مدد سے اینٹی قادیانی تحریک چلوائی۔ اس نے پہلے مارشل لاء کے قیام کو ممکن بنایا۔ یہ ریاست کی جانب سے فرقہ واریت کو فروغ دینے کی تیسری بڑی مثال تھی اور پھر ریاست نے پنجاب حکومت کو گرانے کے لیے جن مذہبی پیشوائی قیادت کو استعمال کیا تھا انھیں جیلوں میں ڈال کر اور کئی ایک کو سزائے موت سناکر اپنے آپ کو "غیر فرقہ وارانہ" ثابت کرنے کی تھی وہ جلد ہی ایک دکھاوا ثابت ہوئی اور جلد ہی ریاست اس مذہبی پیشوائیت اور ملائیت کی پھر سرپرستی کرنے لگی۔

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراجی سرمایہ دارانہ بلاک میں سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کے زریعے شمولیت کی اور اسلام کو سامراجی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے منصوبے میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے "اسلام" اور "مذہبی پیشوائیت " کو بنگالی قومی تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لیے استعمال کیا اور اس ہتھیار کو انتہائی خوفناک طریقے سے 1971ء میں مشرقی بنگال کی عوام کے خلاف استعمال کیا۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے پہلی بار بنگالی نیشنلسٹ تحریک کو کچلنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے لیے دو عسکریت پسند جہادی تنظیمیں بنائیں جنہیں ہم "الشمس" اور "البدر" کے نام سے جانتے ہیں اور اس کے لیے پیدل جہادی قاتل ہرکاروں کی فورس جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی (مولوی فرید احمد) جیسی جماعتوں کی مدد سے تشکیل دی۔

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ 80ء کی دہائی میں امریکی سرمایہ دارانہ بلاک کی "جہاد افغانستان" پروجیکٹ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے میں اہم ترین اتحادی کے طور پر شامل ہوئی۔ اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ بطور ریڈیکل پراکسی کے لیے دیوبندی مدرسہ نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا۔ اسی زمانے میں پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے سعودی۔ ایران پراکسی جنگ میں سعودی کیمپ میں شمولیت اختیار کرکے دیوبندی فرقے کے اندر سے اینٹی شیعہ تحریک برآمد کی۔ سب سے خطرناک اقدام اس فوجی اسٹبلشمنٹ کا فوجی آمریت کے خلاف تشکیل پانے والے بحالی جمہوریت کے اتحاد اور اس کی تحریک ایم آر ڈی کو غیر موثر بنانے کے لیے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث فرقوں کے زیادہ فرقہ پرست مولویوں کو گود لینے کا تھا اور ان فرقوں کے اندر زیادہ فرقہ پرست متشدد سیاسی مذہبی دھڑے بنانے کا تھا۔

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ جمہوریت پسند سیاسی طاقتوں کو کمزور کرنے کے لیے نصاب تعلیم کو فرقہ پرست مولویوں کے سپرد کردیا۔ فرقہ پرست اسلام کو جمہوری سیاست کے مدمقابل لاکر کھڑا کردیا۔

اس فرقہ پرست اسلام کو پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والی جہادی فرقہ پرست عسکری پسند نیٹ ورک کے زریعے سے طاقت بہم پہنچائی۔ 90ء کی دہائی مین اس کی افغان و کشمیر جہادی پالیسیاں مکمل طور پر فرقہ پرست پراکسی میں بدل گئیں جب اس نے افغانستان میں"امارت اسلامیہ افغانستان" المعروف تحریک طالبان کو تشکیل دیا اور جہاد کشمیر حرکت الانصار / جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی دیوبندی اور سلفی عسکری تنظیموں کے حوالے کردیا۔ دیوبندی جہادی پراکسی کے اندر سے ہی لشکر جھنگوی، تحریک طالبان پاکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی، لشکر اسلام کا ظہور ہوا۔ ریاستی سطح پر اس بڑی پالیسی شفٹ نے پاکستان میں نہ صرف مسیحیوں، احمدیوں، ہندؤں اور سکھوں کی مذہبی تعذیب کو اور زیادہ شدید کیا بلکہ اس نے صوفی سنّی اسلام اور شیعہ اسلام کو بدترین طریقے سے مارجنلائز کیا اور ردعمل کے طور پر ان میں بھی فرقہ پرست عسکریت پسند رجحانات کو گہرا کرنے میں مدد دی۔

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ 80ء کی دہائی سے انتہائی منظم طریقے سے اس فرقہ پرست، بنیاد پرست عسکریت پسند جہادی نیٹ ورک اور ان کے سیاسی چہروں کو "نفاذ شریعت" کے نام پر پاکستان کی مقبول عوامی جمہوری سیاسی جماعتوں کو کمزور بنانے اور ان کی حکومتیں گرانےکے لیے استعمال کرتی رہی اور اس نے ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو پاک- بھارت تعلقات خراب کرنے اور بار بار دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر کھڑے کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی رہی۔

جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے "بلاسفیمی لاءز" کو اپنی ان ہی جہادی اور فرقہ پرست پراکسیوں کے زریعے نہ صرف اقلیتوں کے خلاف انتہائی خوےناک طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ بلاسفیمی بریگیڈ کے ہاتھوں اقلیتوں کی بستیوں اور آبادی پر بلوائی حملوں کے زریعے تاراج کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

"ختم نبوت" کے نام پر منتخب حکومتوں کو گرانے کا مذموم کام بھی کیا گیا۔ پہلے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کمزور بنانے اور انہیں پنجاب میں غیر مقبول بنانے کے لیے ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ بلاسفیمی لاءز کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہیں جب انہوں نے بلاسفیمی ایکٹ کے تحت قائم مقدمات کی تفتیش سینئر پولیس افسر کے زریعے سے کرانے کی تجویز دی۔ "بلاسفیمی کارڈ" پی پی پی کی 2008ء میں بننے والی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کارڈ کے استعمال نے گورنر پنجاب اور اس حکومت کے وزیر برائے اقلیتی امور ملک شہباز بھٹی کی جان لے لی۔ پھر "ختم نبوت کارڈ " نواز شریف کے خلاف استعمال کیا گیا اور ان کے خلاف اتنی نفرت بڑھائی گئی کہ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو جو کبھی ان کا سب سے بڑا حامی مدرسہ تھا کی مسجد میں ایک مولوی نے جوتا دے مارا۔ یہی وہ دور تھا جب تحریک لبیک کا جنم ہوا اور پھر یہی "ختم نبوت" کارڈ خود عمران خان کے خلاف استعمال ہوا۔ ٹی ایل پی کی اس دور میں سرپرستی جاری رکھی گئی۔

یہ تفصیل یہ ظاہر کرتی ہے کہ فرقہ واریت کو پاکستان میں ایک ادارہ جاتی خوفناک ہتھیار میں بدلنے میں پاکستان کی ریاست کے غیر منتخب عسکری مقتدرہ ادارے کا مرکزی کردار ہے۔ اس ادارے کا پاکستان کی سیاست میں، معشیت میں غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری مداخلت کی مستقل پالیسی کا ایک حصّہ مذہبی پیشوائیت کو برابر پراکسیوں کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ یہ آج بھی "مذہب" کو بلوچ اور پشتون قومی تحریکوں کے خلاف بڑے منظم انداز میں"استعمال" کر رہی ہے بلکہ اب یہ "نسلیاتی ثقافتی منافرت" کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر مظلوم و مجبور اقوام کے خلاف استعمال کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

پاکستان کی ریاست پر غیر معمولی کنٹرول رکھنے والی غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ نے "دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی" کے خاتمے کے لیے آئین کو بالادست بنانے، قوانین کو موثر بنانے، پراسیکوشن اور شفاف ٹرائل کے لیے عدالتوں کو آزاد اور خودمختار بنانے کے راستے کو "حقیقی حل" کے طور پر پیش کرنے کی بجائے "ماورائے آئین و قوانین" ریاست کی سیکورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اقدامات کو ہی "واحد" حل بناکر پیش کیا۔ اس نے سی ٹی ڈی، ایف سی، فوج اور پولیس کے زریعے "فیک اور جعلی ان کاؤنٹرز" کو "دہشت گردی کے خاتمے" کا حل بتایا۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ، پیکا ایکٹ جیسے ظالمانہ قوانین کو بندوق کے زور پر آئین کا حصّہ بنایا اور "ملٹری کورٹس" کے زریعے مبینہ دہشت گردوں کے خاتمے جیسے حل پیش کیے اور پھر یہ حل سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کی آوازوں کو حاموش کرانے کے لیے ہی استعمال کیے۔ یہ "جبری گمشدگیوں" اور "مسخ شدہ لاشیں" پھینکنے کو "امن" قائم کرنے کا زریعہ سمجھتی ہے۔

یہ عوام کے حق رائے دہی اور اپنے سیاسی نمائندے خود چننے کی آزادی کے راستے سے مضبوط جمہوری نظام کے قیام کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسے حقیقی عوامی سیاسی جماعتوں، طلباء یونین، آزاد مزدور ٹریڈ یونین، آزاد پریس، آزاد سوشل میڈیا سے شدید نفرت ہے۔ یہ جمہوری سیاست کی ہر نرسری کو ملک دشمن سمجھتی ہے۔ اس کی یہ سوچ اس ملک میں فرقہ واریت، مذہبی و نسلی منافرت کو خوفناک عفریت میں بدلنے کا سبب بنی ہے۔ یہ اپنے معتوب سیاسی لیڈروں، معتوب سیاسی جماعتوں، عوامی و قومی حقوق کی تحریکوں کی مقبول قیادت کو ختم کرنے کے لیے آئین، قوانین، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ سب کو بلڈوز کردیتی ہے۔ جب تک اس کا احتساب نہیں ہوتا اور اس کے Overdsized حصّے کو کٹ ٹو سائز اور اسے آئین و قوانین کا پابند نہیں بنایا جاتا تب تک اس ملک سے فرقہ واریت کی جڑیں اکھاڑی نہیں جاسکیں گی۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan