Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Fiction Shanasi

Fiction Shanasi

فکشن شناسی

کیا حسین اتفاق ہے کہ ابھی گزرے کل میں، میں نے اردو ناول کی تاریخ میں کسی شہ پارے کے نہ ہونے بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آج مجھے مقصود دانش صاحب نے اپنی کتاب "فکشن شناسی" عنایت کی۔ انھیں یہ کتاب آج ہی موصول ہوئی تھی۔ مقصود دانش فکشن کی تنقید نگاری میں چند ایک نہایت معتبر معاصر ناموں میں سے ایک نام ہیں۔ میری کیا بساط بلکہ میری کیا مجال کہ میں ان کے لکھے پر کچھ اضافہ کروں یا اس کی تشریح کر سکوں۔ بہرحال صرف اتنا عرض کروں گا کہ یہ کتاب فکشن کی تنقید میں نہایت قابل قدر اضافہ ہے۔

مقصود دانش فکشن کی تنقید لکھنے والے ان نقادوں میں سے ایک ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اردو ناولوں میں شاہکار ناول تاحال ناپید ہے۔ لیکن ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان ناقدین سے ذرا اتفاق نہیں کرتے جن کے خیال میں اردو ناولوں میں کچھ بھی قابل ذکر نہیں ہے۔

وہ شمیم حنفی کی رائے سے متفق ہیں کہ پچھلی صدی کا ماحصل واحد ناول "آگ کا دریا" ہی ہے۔

اردو فکشن کی تنقید میں تین نقاد ایسے ہیں جن کی اردو ناول کی صد سالہ تاریخ کے جائزے میں سب سے زیادہ ذکر کیا جاتا ہے: حسن عسکری، وارث علوی اور شمس الرحمان فاروقی اور ان تینوں ناقدین کی نظر میں زیادہ سے زیادہ چار ناول ہی ہیں جو صد سالہ ناول کی تاریخ میں قابل ذکر ناول کا درجہ پاتے ہیں۔ مقصود دانش اس پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ تو کیا باقی سب ناول دریا برد کیے جانے کے قابل ہیں؟

مقصود دانش کے خیال میں اردو ناول نگاروں کا پچھلی صدی میں المیہ یہ رہا کہ انہوں نے ناول نگاری میں مواد کو جو اہمیت دی اتنی اہمیت انہوں نے آرٹ اور اسلوب پر مرکوز نہیں کی۔ پچھلی صدی کے اردو ناولوں میں نوحہ گری کا عنصر غالب رہا جبکہ حسن عسکری کے مطابق ادب کا کام محض آنسو بہانا اور نوحہ گری کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے کرنے کے اور کئی کام ہوا کرتے ہیں۔

مقصود دانش کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں اردو ناول نگاروں کا تخلیقی شعور حیات و کائنات کی دیگر سمتوں کی طرف بھی مائل ہوا ہے۔ وہ نئی صدی کے اردو ناول تناظر میں موضوعات اور بیانیے میں چند انقلابی تبدیلیوں کے رونما ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موضوعات میں تبدیلی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ نئی تبدیلی موت کے بارے میں ناول نگاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے فکشن میں موت کو کبھی سنجیدہ موضوع کے طور پر نہیں لیا گیا تھا لیکن اب اردو ناول نگار اس موضوع کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوئے ہیں۔ اس کی شروعات خالد جاوید نے کی جن تین ناول اسی موضوع کے گرد گھومتے ہیں اور خود خالد جاوید بھی اپنے ان تینوں ناولوں کو "موت کی سیریز " کہتے ہیں۔ ہم اسے موت پر سہ ناولا۔ ٹرائلوجی بھی کہہ سکتے ہیں۔

بیسویں صدی میں ایل جی بی ٹی کو بھی کبھی سنجیدگی کے ساتھ ناول کا موضوع نہیں بنایا گیا تھا لیکن معاصر ناول نگاری میں یہ بھی اہم موضوع بنتا جارہا ہے۔ وہ اس کی شروعات کا سہرا اشعر نجمی کے سر باندھتے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا ناول "اس نے کہا تھا" ہے جو اشعر نجمی نے لکھا ہے۔ رحمان عباس نے اپنے ناول "زندیق" میں اس موضوع سے خوب انصاف کیا ہے۔

دلت کے موضوع پر اگرچہ بیسویں صدی میں بھی فکشن میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن اس صدی میں دلت کو زیادہ تر مجبور محض دکھایا جاتا رہا لیکن اس صدی میں دلت میں پیدا ہونے والی بیداری، آگاہی اور ان کے اندر احتجاج و بغاوت جیسے پہلوؤں کی نشاندہی اردو ناول نگاری میں اہم اور نمایاں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس باب میں وہ شموئل احمد کے ناولٹ "چمراسر" کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا یہ مضمون مجھے لگتا ہے کہ رحمان عباس کے ناول "ایک اور طرح کا پاگل پھنسے پہلے لکھا گیا تو یہاں اس کا تذکرہ نہیں ہے لیکن ان کا اس ناول پر لکھا ایک اور مضمون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دلت کے موضوع پر اردو ناولوں میں لکھا گیا یہ سب سے بہترین ناول ہے۔

ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں فسطائیت اور فسطائی رویوں کے ابھار نے معاصر ناول نگاروں کو اس موضوع کی طرف بھی مائل کیا ہے۔ یہ اس صدی کی اردو ناول نگاری کا اہم ترین موضوع بنتا جارہا ہے۔ بھارت میں مشرف ذوقی نے اپنے ناولوں میں اس موضوع کو سب سے پہلے برتا۔ "مردہ خانہ میں عورت" ان کا اس موضوع پہ بہت شاندار ناول ہے۔ رحمان عباس نے زندیق میں اس موضوع پر کیا خوب لکھا ہے۔ پاکستان میں صفدر نوید زیدی اس موضوع پر لکھنے والوں میں سب سے پہلے ناول نگار ہیں جن کا ناول "بھاگ بھری" اس حوالے سے پڑھنے کے قابل ہے۔

مقصود دانش کے خیال میں دلت سے بھی کہیں زیادہ مجبور و مقہور، کچلی ہوئی اور پسی ہوئی مخلوق آدی واسی کی ہے اور بھارت میں اس موضوع سے ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والی ادیبہ ثروت خان ہیں جن کا ناول "کڑوے کریلے" ایک شاندار پیشکش ہے۔ پھر شبیر احمد کا ناول "ہجور اماں" ہے۔ یہ ناول اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس ناول میں یہ موضوع برصغیر کی سرحد کو عبور کرتا ہوا گورکھا لینڈ تک جاپہنچتا ہے جسے اس سے پہلے اردو ناول نگاری میں کسی نے اپنا موضوع نہیں بنایا۔

یہاں مجھے پاکستان میں اردو ناول نگاری میں آدی واسی یعنی قبائلیوں کو اپنا موضوع نہ بنانے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اب تک کسی ناول نگار نے پاکستان میں پشتون قبائلی بیلٹ کی مخصوص سماجی صورت حال کو اپنے ناول کا موضوع نہیں بنایا ہے۔ بلوچستان کے بلوچ قبائل بیلٹ پر بھی کسی اردو ناول کا سراغ نہیں ملتا۔ صفدر نوید زیدی نے گوادر کے مچھیروں کو اپنے ایک علامتی ناول میں موضوع بنایا ہے۔ وہ اس سلسلے کا دوسرا ناول بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن ہمارے ناقدین کی نظر اب تک ان کے اس ناول پر نہیں پڑی ہے۔

عالمی سطح پر بربریت، فسطائیت، نیو نازی ازم پر رحمان عباس کا ناول "زندیق" اپنی ہی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے۔

مقصود دانش ہمیں بتاتے ہیں کہ معاصر اردو ناول نگاروں میں سے چند ایک نے نہ صرف موضوعاتی تنوع بلکہ بیانیہ کی سطح پر بھی چند کامیاب تجربے کیے ہیں۔

مقصود دانش حالیہ صدی میں اردو میں ناول نگاری میں جس چیز کو سب سے بڑا عیب سمجھتے ہیں وہ ہر ناول نگار کا اپنی ہی ذات کی شناخت میں گم ہونا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گزری صدی میں تو پھر بھی اردو ناول میں پہلے تو کچھ نیرنگیاں بھی تھیں۔ اب تو دور جدیدیت میں جسے دیکھو وہ کسی سفید ساڑھی میں ملبوس خاتون سے محو گفتگو ہے۔

معاصر ناول نگاری اور فلسفے کے باہمی تعلق پر ان کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلی صدی میں وہ آگ کے دریا کو اس موضوع پر سرفہرست رکھتے ہیں اور حالیہ صدی میں اگرچہ وہ خالد جاوید کو اس میں پہل کرنے کا کریڈٹ تو ضرور دیتے ہیں لیکن ان پر تکرار اور خود کو دہرانے کا الزام بھی دیتے ہیں اور اشعر نجمی کے ناول کو ناول ہی شمار نہیں کرتے۔ اس موضوع کا کامیاب ترین تجربہ کرنے کا کریڈٹ وہ رحمان عباس کو دیتے ہیں جو انھوں نے "زندیق " میں کرکے دکھا دیا ہے۔

فکشن شناسی اردو میں فکشن کی تنقید میں نہایت قابل قدر اضافہ ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب بہت جلد بک پوائنٹ کراچی سے شایع ہوگی۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz