Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Corporate Samraj

Corporate Samraj

کارپوریٹ سامراج

پروفیسر اصغر دشتی کا چہرہ ایک خاموش صحرا کی مانند ہے، ایسا صحرا جس کی ریت میں تاریخ کے دبے ہوئے قدموں کے نشان بھی ہیں اور وقت کی وحشیانہ ہواؤں کی کھینچی ہوئی لکیریں بھی۔ یہ چہرہ بتاتا ہے کہ صاحبِ کتاب کوئی عام قلم کار نہیں، اپنی قوم کی مٹی سے گندھا ہوا ذہن ہے، ایک ایسا ذہن جو بات کم کرتا ہے اور سوچ زیادہ۔

لیاری کی تپتی گلیوں میں جنم لینے والے یہ نوجوان استاد، آج وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ اساتذہ سیاست میں بھی متحرک ہیں اور یہی دوہرا تجربہ، جامعہ کے اندر کی روزمرہ کشمکش اور باہر کی طبقاتی سیاست، ان کی کتاب "کارپوریٹ سامراج" کا فکری محور بن جاتا ہے۔

یہ کتاب محض مضامین کا مجموعہ نہیں، ایک فکری مزاحمت کا دستاویز ہے، جو تعلیم، ریاست، سامراج اور بازار کے باہمی تعلقات کو کھول کر سامنے رکھتی ہے۔

نوآبادیاتی یونیورسٹی سے نیولبرل یونیورسٹی تک

اصغر دشتی کا پہلا بڑا مقدمہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا تعلیمی ڈھانچہ کبھی آزاد نہیں رہا۔

برطانوی سامراج نے یہاں جو نوآبادیاتی یونیورسٹی سسٹم قائم کیا، اس کا مقصدہندستانیوں کو سوچنے کی آزادی دینا نہیں بلکہ ایسے انسان تیار کرنا تھا جو برطانوی تہذیب کو "نعمت" سمجھیں اور راج کو "مقدّر"۔

یہی وہ ڈھانچہ تھا جس نے ایک طرف چند قوم پرست اور اشتراکی ذہن پیدا کیے، لیکن دوسری طرف اکثریت ایسے ذہنوں کی تیار کی جو برطانوی مفادات کے آگے ڈھیر ہو گئے اور برصغیر کو کمیونل سیاست کے گڑھے میں دھکیلنے میں اپنا حصہ ڈالا۔

دشتی نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں آزادی کے بعد سیکولر جمہوریت نے یونیورسٹیوں میں فکری آزادی کی فضا قائم رکھی۔ مگر پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف رہی۔

یہاں پہلے دن سے تعلیمی نظام کی ایسی تشکیل کی گئی کہ طلبہ اور اساتذہ کی سیاست کو جرم بنا دیا گیا۔ آج حال یہ ہے کہ:

طلبہ یونینز مکمل طور پر بند۔ یونیورسٹی سینڈیکیٹ بیورو کریسی کے قبضے میں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں مسلسل نجکاری کی لپیٹ میں۔ غریب طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا دروازہ روز بروز تنگ ہوتا ہوا۔

یہ وہ پس منظر ہے جسے دشتی "تعلیم کی سامراجی کارپوریٹائزیشن" کہتے ہیں۔

کتاب کا دوسرا دھارا پاکستان کی معاشی و مالیاتی پالیسیوں پر تنقید ہے۔

دشتی یہاں نہ جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں نہ کلیت پسندی کا شکار، وہ دستاویزات، تاریخ اور اعداد و شمار کی روشنی میں دکھاتے ہیں کہ:

کس طرح عالمی مالیاتی ادارے، حکومتوں کی پالیسی سازیاں اور مقامی سرمایہ دار گروہ مل کر ریاست کو ایک کارپوریٹ منڈی میں تبدیل کر رہے ہیں۔

تعلیم ہو، صحت ہو، آبادی ہو یا مزدور، ہر چیز کو منافع کے ترازو میں تولنے کی جو روایت پروان چڑھی ہے، وہ اسی کارپوریٹ سامراج کا نتیجہ ہے جس کا تجزیہ دشتی کھول کر کرتے ہیں۔

یہ مضامین محض تنقید نہیں، ایک فکری انتباہ ہیں۔

"کارپوریٹ سامراج" اس لیے اہم ہے کہ یہ موجودہ دور کی سب سے بڑی فکری بیماری۔

نیولبرلائزیشن اور کارپوریٹ قبضے، کو تعلیمی اداروں کے تناظر میں واضح کرتی ہے۔

یہ کتاب بتاتی ہے کہ:

جامعات کیسے نوآبادیاتی ذہن کا تسلسل بن رہی ہیں۔

کس طرح نجکاری علم کو صرف خرید و فروخت کی شے بنا دیتی ہے اور کن پالیسیوں کے ذریعے تعلیم طبقاتی استحقاق میں تبدیل ہو چکی ہے۔

دشتی کی اپروچ علمی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی تجربے سے جڑی ہے، اس لیے ان کی تحریروں میں وہ خاموش غصہ بھی ہے جو کارکن دانشوروں کی تحریروں میں ملتا ہے۔

یہ کتاب نوجوانوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ خاص طور پر اُن نوجوانوں کو جو سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں دینے کی جگہ ہیں۔

یہ کتاب بتاتی ہے کہ یونیورسٹیاں سماج کا سب سے طاقتور جنگی میدان بھی ہوتی ہیں۔ جہاں علم اور سامراج، تنقید اور منافع، آزادی اور کنٹرول کی لڑائی مسلسل جاری رہتی ہے۔

"کارپوریٹ سامراج" اس لڑائی کو سمجھنے کے لیے بنیادی متن کی حیثیت رکھتی ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail