Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Bureaucracy, Jins Aur Tabqati Taqat

Bureaucracy, Jins Aur Tabqati Taqat

بیوروکریسی، جنس اور طبقاتی طاقت

سوشل میڈیا پر لیہ کی ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار کی ایک تصویر نے غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔ تصویر میں وہ تھل ڈیزرٹ ریلی کے موقع پر ایک صوفے پر شاہانہ اور پراعتماد انداز میں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ ان کے پیچھے ایلیٹ فورس کی خواتین کمانڈوز اور مرد محافظ چاق و چوبند کھڑے ہیں۔ یہ تصویر محض ایک خاتون افسر کے اندازِ نشست کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے نوآبادیاتی بیوروکریٹک نظام، طبقاتی طاقت اور جنس کی سیاست کی ایک علامتی عکاسی ہے۔

سوشل میڈیا پر اس تصویر پر ردعمل دو انتہاؤں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو عورت کی خوداعتمادی کو تکبر سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ تنقید کرنے والے ہیں جو اسے محض پروٹوکول کلچر کا مسئلہ بنا کر دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سابق مشیر شہباز گل نے اپنے ولاگ میں امیرا بیدار کے لباس اور پروٹوکول پر تنقید کی، جو دراصل پدرشاہی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ وہی شہباز گل اور ان کی جماعت اپنے اقتدار کے دوران خواتین وزراء اور بیوروکریٹس کو اسی طرح کے پروٹوکول اور شاہانہ مراعات فراہم کر چکے ہیں۔ اس تضاد سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ چاہے دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کے نعروں کی حامل، طاقت اور مراعات کے معاملے میں سب ایک جیسے ہیں۔

پاکستان کی بیوروکریسی اب بھی ایک نوآبادیاتی ورثے کی علامت ہے۔ اس کا ڈھانچہ عوامی خدمت کے بجائے طبقاتی کنٹرول کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ خواہ افسر مرد ہو یا عورت، اس کا کردار اسی نظام کے اندر طے ہے جو ریاستی طاقت کو عوام سے الگ رکھتا ہے۔ امیرا بیدار جیسے افسران یقیناً اپنے اضلاع میں ترقیاتی کام کرتے ہیں، مگر وہ اس ڈھانچے کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ وہ نظام کے اندر اصلاح کا چہرہ تو بن سکتے ہیں مگر اس کی بنیادوں کو ہلا نہیں سکتے۔

خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد کی بیوروکریسی میں شمولیت کو اکثر نمائندگی اور ترقی کا نشان قرار دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ شمولیت طاقت کے توازن کو تبدیل نہیں کرتی۔ جیسا کہ فوکو اور بوردیو جیسے مفکرین نے واضح کیا، جب حاشیے پر موجود گروہ طاقت کے ڈھانچوں میں شامل ہوتے ہیں مگر ان کے اصولوں کو نہیں بدل پاتے، تو وہ خود طاقت کے تسلسل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح مرد آقاؤں کی جگہ عورت آقائیں آ جاتی ہیں، مگر جبر اور نظم و ضبط کی نوعیت جوں کی توں رہتی ہے۔

اس منظرنامے کے پس منظر میں پاکستان کا ٹیکس نظام ایک نمایاں مثال ہے۔ ملک میں تقریباً ستر فیصد ٹیکس بالواسطہ ذرائع سے وصول کیے جاتے ہیں، یعنی وہ ٹیکس جو عام شہری اشیائے ضرورت خریدتے وقت ادا کرتے ہیں۔ صرف تیس فیصد ٹیکس براہِ راست آمدنی سے وصول ہوتا ہے اور یہ بھی اکثر متوسط طبقہ ادا کرتا ہے، جب کہ ملک کی کل دولت کا نوے فیصد حصہ رکھنے والی اشرافیہ محض معمولی حصہ دیتی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے حکومت سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، جو اگر اسی بالواسطہ نظام کے ذریعے بڑھائی گئی تو اس کا بوجھ ایک بار پھر غریب اور سفید پوش طبقے پر ہی پڑے گا۔

ریاستی بیوروکریسی میں خواتین، بلوچ، پشتون، سرائیکی یا ٹرانس جینڈر افسران کی نمائندگی بظاہر ایک کثیرالثقافتی اور شمولیتی چہرہ پیش کرتی ہے، لیکن یہ دراصل علامتی شمولیت ہے۔ چند چہروں کی موجودگی سے نہ تو جبر میں کمی آتی ہے اور نہ ہی وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوتی ہے۔ یہ وہی نوآبادیاتی حکمت عملی ہے جس میں حاشیے کے چند افراد کو طاقت کے نظام میں شامل کرکے اس کے استحصالی ڈھانچے کو قانونی جواز دیا جاتا ہے۔

امیرا بیدار کی تصویر محض ایک خاتون افسر کی خوداعتمادی کی علامت نہیں بلکہ پاکستان کی سماجی و سیاسی ساخت کا آئینہ ہے۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں طاقت کی علامتیں بدل ضرور گئی ہیں مگر طاقت کا مرکز نہیں بدلا۔ عورت، مرد یا ٹرانس جینڈر، جب تک وہ اسی استحصالی ڈھانچے کا حصہ رہیں گے، تبدیلی محض سطحی رہے گی۔ اصل سوال امیرا بیدار کے اندازِ نشست کا نہیں بلکہ اس ریاستی نظام کے جھکاؤ کا ہے جو ہمیشہ بالا طبقے کے مفاد میں کھڑا رہتا ہے۔

یہ مضمون اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان میں بیوروکریسی، جنس اور طبقاتی طاقت ایک دوسرے میں اس طرح گتھم گتھا ہیں کہ ایک کی تبدیلی دوسرے کے بغیر ممکن نہیں اور جب تک اس نظام کی جڑوں پر سوال نہیں اٹھائے جاتے، تب تک کوئی تصویر، چاہے وہ کتنی ہی وائرل کیوں نہ ہو، محض علامت رہے گی، تبدیلی نہیں۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan