Blasphemy Tabah Kun Hathiyar Se Manfeat Bakhsh Dhanda Kab Bana?
بلاسفیمی تباہ کن ہتھیار سے منفعت بخش دھندا کب بنا؟

میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنے اردگرد بہت سے ایسے کردار دیکھے جو نہ صرف اپنے خاندان، برادری، محلے، بازار یا اپنے ہم پیشہ افراد میں بہت زیادہ الگ تھلگ سوچ اور فکرکے مالک ہوا کرتے تھے۔ وہ نہ تو مروجہ رسوم و رواج کی پیروی کرتے، نہ مروجہ عقائد کے پیرو ہوتے اور جن موضوعات کو معاشرے میں ملاں، مفتی، پیر، محدث، فقیہ کی جاگیر اور میراث سمجھا جاتا وہ اس پر بے لاگ گفتگو کرتے اور یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ ان کا تعلق لازمی کسی طاقتور، بڑی برادری، قبیلے، کاروباری خاندان سے ہوتا۔ یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ ان کے پاس کسی بہت بڑے ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کی سند ہوا کرتی۔ بلکہ اکثر و بیشتر وہ سفید پوش یا غریب محنت کش طبقے سے تعلق رکھا کرتے تھے۔ وہ تاریخ، مذھب، ثقافت، معشیت، سماجیات پر بلا تکان گفتگو کرتے۔ سماج کے طاقتور گروہوں جیسے ملاں، پیر، سرمایہ دار، چودھری، وڈیرے کو سخت تنقید کی دھار پر دھرے رکھتے۔ کمزور کے حق میں کھڑے ہوجاتے اور کسی سے دب کر بات نہیں کرتے تھے۔
یہ ہمارے سماج کا حصہ سمجھے جاتے اور ان کی باتوں کو لوگ "ہضم " کیا کرتے تھے۔
لوگوں کی عمومی رائے ان کے بارے میں یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ مذھب، روایات اور سکہ بند طرز زندگی سے باغی ہیں۔ انھیں دہریہ، ملحد، لادین، مذھب بے زار، کمیونسٹ، سوشلسٹ، سرخا، کامریڈ اور نہ جانے کیا کچھ کہا جاتا۔
اس زمانے میں یہ چائے کے ڈھابوں، چوک چوراہوں پر لگی لوگوں کی بیٹھکوں میں پائے جاتے۔ کھل کر اظہار خیال کرتے۔ سارا شہر، قصبہ، گاؤں ان سے واقف ہوتا۔ یہ اکثر مذھبی سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں اور سیاسی کارکنوں سے سخت بحث و مباحثے میں مصروف دیکھے جاسکتے تھے۔ اس دوران عام لوگ ان کی تند و تیز اور بعض اوقات انتہائی درشت انداز میں کی گئی باتوں کو سن کر مسکرا دیتے۔ مسجد کے ملاں، مفتی، پیر ان کی باتوں کو کفر قرار دیتے۔ کئی بار ان کے خلاف فتوے بھی تحریری شکل میں آتے۔ لیکن عوام کی اکثریت عمومی طور پر ان پر دھیان نہ دیتی۔ ان میں سے جب کوئی فوت ہوجاتا تو وہی ملاں، مفتی، پیر، امام مسجد ان کا جنازہ پڑھاتے۔ مذھبی سیاسی جماعتوں کے رہنماء اور کارکن ان کے جنازوں میں شریک ہوتے۔ ان کے تیجے اور چالیسویں پر مقامی مسجد میں اجتماع ہوتا اور مولوی ان کی مغفرت کی دعا کرتا۔ نہ تو ان پر بلاسفیمی لگتی نہ ان کے گھروں پر حملے ہوتے، نہ انھیں کوئی مشتعل ہجوم گھیر کر زندہ جلا ڈالتا۔
اخلاقی اعتبار سے ان کی شہرت ایک سچے، ایماندار، جرات مند، حق گو اور مظلوم و کمزور کے ساتھ کھڑے ہونے والے کی ہوتی۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسے لوگ ہمارے معاشرے اور سماج کی اجتماعی زندگی سے غائب ہوتے چلے گئے۔ گوشہ نشین ہوگئے اور میں نے انھیں محتاط ہوتے دیکھا۔ ہمارے چوک چوراہے۔ چائے کے ڈھابے، سماجی تقریبات ایسے لوگوں سے خالی ہوتی چلی گئی۔
مذھبی سیاسی کارکنوں کی نئی لاٹ میدان میں آئی۔ بلکہ مجموعی طور پر ایسے لوگ سیاسی اور سماجی طور پر نمایاں اور ممتاز ہوئے جو سیاسی و سماجی کارکن کم دلال اور بھڑوے زیادہ تھے اور انھیں گفتگو، کلام کا سلیقہ تک نہیں آتا تھا۔ کتاب، اخبار، رسائل و جرائد سے ان کا لینا دینا کوئی نہیں تھا۔
کچھ ایسے دانشور بھی سامنے آئے کہ ان کی گفتگو بہت ادق اور جناتی زبان میں ہوا کرتی اور ایسا لگتا کہ ان کے پاس زندگی کا عملی تجربہ بالکل بھی نہیں ہے اور فلسفے میں ہم جسے Praxis یعنی علم و عمل کے امتزاج سے گندھی ہوئی دانش کہتے ہیں وہ ان کے ہاں مفقود تھی۔ ان کا الحاد اور مذھبیت دونوں ہی عجب طرح کی نامانوس پن لیے ہوئے تھی اور کردار جسے کہتے ہیں وہ تو ان کے ہاں بالکل بھی نہیں تھا۔
سارا سماج کرپشن میں لتھڑا ہوا۔ ہر کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈ کر کسی نہ کسی طرح مادی طور پر خوشحال ہونے کی دوڑ میں لگا ہوا تھا۔ درمیانے طبقے کا گھٹیا کلچر اور ثقافت کہ سر آسمان کی طرف اور پاؤں کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے۔ دعوے ہی دعوے تھے لیکن عمل اس کے بالکل الٹ تھا۔
میرے جیسے لوگ جو گفتگو و کلام کے کھلے پن کی فضا میں پل کر نوجوانی کی سرحد میں داخل ہوئے تھے، ریاستی سطح پر آمریت کا دور چل رہا تھا۔ صحافت پابند سلاسل تھی - جمہوریت اور سماجی انصاف پر مبنی تحریر پر ریاست تعزیر لگاتی تھی۔ پولیس گرفتار کرتی تھی۔ خفیہ ایجنسیاں پیچھا کرتی تھیں۔ آپ پر ہندوستانی، یہودی، مغربی ایجنٹ ہونے کا الزام لگتا تھا اور آپ کو جماعت اسلامی کے سرگرم صالحین کی جانب سے لادین، ملحد قرار دے دیا جاتا تھا اور کبھی کبھار آپ ان کے تھنڈر اسکواڈ کے ہاتھوں پٹ جایا کرتے تھے۔
آئین میں 295 اے، بی، سی کے ساتھ ساتھ 298 اے، بی بھی موجود تھی لیکن ان دفعات کے تحت اندراج مقدمہ کی اندھی اور بے لگام روایت نے ابھی جنم لیا تھا اگرچہ مسیحیوں اور احمدیوں کے باب میں یہ دفعات اب تیزی سے استعمال ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ لیکن ایم آر ڈی کے جلسوں میں، آمریت مخالف جلوسوں میں ضیاء کے ان آرڈیننس کے خلاف تقریر کرنا اور اخبارات میں بیان جاری کرنا، چوک اور چوراہوں میں انھیں ختم کرنے یا ان میں ترمیم کا مطالبہ کسی خطرے کو دعوت نہیں دیتا تھا۔ کسی نوجوان کا خود کو ملحد یا دہریہ کہنا اسے کسی مذھبی جنونیت ہجوم کے ہاتھوں اسے زندہ درگور کرنے کو لازم قرار نہیں دیتا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ہماری اجتماعی زندگی کا یہ متحمل، برداشت اور نرمی کا پہلو غائب ہونا شروع ہوگیا۔
سماج کے اندر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر کی جانے والی وہ گفتگو جسے "معمول اور روایت" سمجھا جاتا تھا ختم ہوکر رہ گئی۔ اب صرف یہ کہنا بھی ناقابل معافی جرم بن گیا تھا کہ فلاں شخص پر لگا بلاسفیمی کا الزام غلط ہے۔ ایک وقت تو وہ آیا جب بلاسفیمی قانون کے تحت مقدمے کا اندراج کا اختیار ایس پی سطح کے افسر کو دیے جانے اور اس طرح کے مقدمے کی تفتیش کے طریقہ کار میں تبدیلی کا مطالبہ بھی "آ بیل مجھے مار" کے مترادف ہوگیا اور جس جج نے غلطی سے ایسے کسی ملزم کی ضمانت لے لی تو اسے جان کے لالے پڑ گئے۔
ایک وقت تھا کہ بلاسفیمی کے قانون کے تحت زیادہ تر نشانہ مسیحی اور احمدی بنا کرتے تھے پھر اس کا نشانہ زیادہ تر مسلمان بننے لگے اور اس میں کسی فرقے کی کوئی تمیز نہیں رہی۔
بلاسفیمی کا الزام ہر طرح کے تنازعوں اور جھگڑوں اور ذاتی رنجش کا بدلہ چکانے کا سب سے بڑا ہتھیار بن گیا۔ جس پر یہ الزام لگا، اس کی ہی نہیں بلکہ اس کے پورے خاندان کی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ گئی۔
اس الزام کے تحت مقدمے کا اندراج ملزم کو ہر طرح کے حقوق اور صفائی سے محروم کرنے لگا اور وی بس ملعون اور ملعونہ بن کر رہ جاتا تھا۔
راو عبدالرحیم اور اس کے حواری ایسی ہی فضا میں سامنے آئے۔ یہ ایک انتہائی منافع بخش دھندا بن گیا اور جس کا داو لگتا وہ اس ہتھیار کو استعمال کرتا اور مالا مال ہوجاتا۔
ہماری کئی ایک سیاسی جماعتوں اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ نے ناپسندیدہ حکومتوں اور سیاست دانوں کے خلاف اس ہتھیار کو استعمال کرنا شروع کردیا۔
نوے کی دہائی میں نواز شریف اور ضیاء الحق کی باقیات نے پنجاب میں اپنے لے پالک مذھبی دھڑوں سے اس ہتھیار کا استعمال نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کرنے کی کوشش کی بلکہ جب ان کی مسجد کا خطیب ڈاکٹر طاہر القادری ان کے مقابلے میں سیاسی جماعت بناکر لے آیا تو بلاسفیمی کا ہتھیار ان کے خلاف ان کے ہم مسلک اور مخالف فرقوں کے ملاوں اور مفتیوں سے کرایا گیا۔ روزنامہ خبریں لاہور کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد نے طاہر القادری کے خوابوں کے بارے میں ایک سپر لیڈ۔ شہ سرخی شایع کی اور اسے بلاسفیمی کا مرتکب قرار دیا۔ پھر نواز شریف اس کا نشانہ بنے۔ یہاں تک کہ گڑھی شاہو میں جس مدرسے اور مولوی گھرانے کو وہ اپنی سرپرستی میں لیے ہوئے تھے وہاں مسجد میں بطور وزیراعظم ایک تقریر کے دوران اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ایک چھوٹے مفتی نے ان کو منکر ختم نبوت قرار دے کر جوتا مار ڈالا۔ عمران خان کے خلاف بھی ختم نبوت کارڈ استعمال کیا گیا۔
پی پی پی کا ایک وزیر ملک شہباز بھٹی اس لیے قتل کردیا گیا کہ وہ بلاسفیمی لاز میں طریقہ تفتیش میں تبدیلی لانے کے لیے بنائی گئی ایک پارلیمانی کمیٹی کا چئیرمین تھا۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیر مذھبی امور علامہ حامد سعید کاظمی پر اسلام آباد دن دیہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا۔ گورنر سلمان تاثیر ان قوانین میں اصلاحات کے مطالبے اور ایک مسیحی خاتون پر بلاسفیمی کا الزام جھوٹا قرار دینے پر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان کا جنازہ بھی کسی مولوی نے پڑھانے سے انکار کیا تو پی پی پی کے علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی صدر نے وہ جنازہ گورنر ہاؤس میں پڑھایا اور اس پاداش میں انھیں اپنے گھر والوں سے برطانیہ میں جاکر پناہ لینا پڑی۔
بلاسفیمی اس ساری صورت حال میں ایک منفعت بخش دھندا ہی نہیں بنی بلکہ اس کے اطلاق میں مہارت رکھنے والے سماجی و سیاسی طور پہ بے پناہ طاقت کے حصول کا ذریعہ بھی بن گئی۔
راو عبدالرحیم ایڈوکیٹ کا جو انٹرویو گردش کر رہا ہے اس میں اس کی باتیں بتا رہی ہیں کہ اس نے یہ دھندا کیسے شروع کیا اور یہ کرنے کا اسے کیا فائدہ ہوا۔ یہ جس قسم کی سطحی جذباتیت پر مبنی سوچ کا مالک ہے اس سے خیال آتا ہے کہ اسے وکالت کا لائسنس کیسے مل گیا؟ اور یہ کیسے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کا اہل ٹھہرا؟

