Babu Shahi
بابو شاہی

"ہم پانچ بھائی ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں۔ سب کی اولاد ہے۔ ہمارے گھر جس زمین پر بنے ہوئے تھے وہ ابھی تک والد صاحب کی ملکیت ہے۔ ہم سب بھائیوں کے گھر سیلاب ریلے کی زد میں آکر زمین بوس ہوگئے۔ ہم سب بھائی راج گیری کا کام کرتے ہیں۔ پٹواری سروے کرنے آیا تو اس نے بتایا کہ سروے میں صرف ملکیت رکھنے والے کا نام درج ہوگا اور اس کے ہی نقصان کا ازالہ ہوگا۔ ہمیں ہمارے نقصان کے بدلے کچھ نہیں ملے گا۔
ہم اپنی مدد آپ کے تحت ہی خود اپنے مکانات کی جیسے تیسے تعمیر کریں گے۔ ہمارے گاوں میں اکثر گھرانے ایسے ہی ہیں کہ زمین کی ملکیت خاندان کے بزرگ کے نام ہے۔ جبکہ دریا کے کنارے آباد درجنوں گھرانے سرکاری زمین پر مکان کے نام پر تین سے پانچ مرلہ اراضی پر ایک سے دو پکے کوٹھے رکھتے تھے جو سیلاب کے آنے سے ڈھے گئے۔ وہ بھی حکومت کے سروے میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے علاقے کے اکثر متاثرین سیلاب کو اس سروے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور انھیں خود اپنے مکانات کی تعمیر کرنا پڑے گی"۔
یہ بات مجھے ایک نوجوان راج گیر نے بتائی۔ میں نے ڈیلی منٹ مرر لاہور کا دفتر اپنے ایک دوست کی ایسٹرن ہاؤسنگ اسکیم ملحق انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان میں ملکیتی بلڈنگ میں بنا رکھا ہے جو ایک کنلسٹنسی فرم چلاتا ہے اور یہ راج گیر اس بلڈنگ میں چل رہے تعمیراتی کام کر رہا ہے۔ یہ راج گیر اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ دریائے چناب میں مچھلیوں کا شکار کرتا ہے اور جو مچھلیاں یہ پکڑتے ہیں اسے یہ بیچ دیتے ہیں اس سے کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔ میرے دوست نے ان کے گھرانے کی کچھ مالی مدد کرنے کے لیے ان سے ان کی شکار کردہ مچھلیوں کی خرید کی اور ان سے کہا وہیں دریا کنارے وہ انھیں مچھلیاں فرائی کرکے دے گا۔
اس نے دوستوں کو فرائی مچھلی کھانے کی دعوت دی۔ ہم جب چناب کے پل پر پہنچے تو وہاں ہم نے درجنوں گھرانوں کو اپنی سیلاب سے متاثرہ جگہوں پر کیمپ لگا کر رہتے ہوئے دیکھا جن کی اکثریت کو سروے سے کچھ نہیں ملے گا۔ ان گھرانوں کی جو مالی حالت ہے اسے دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ وہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن آج تک ان گھرانوں کو نہ تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے میں درج کیا گیا اور نہ ہی پنجاب حکومت کی راشن اسکیم سروے میں ان کا اندراج ہوا ہے۔
میرے ذہن میں ایک سوال اٹھ کھڑا ہوا وہ یہ تھا کہ مان لیا ہمارے راج گیر پانچ گھرانوں کے گھروں کی ملکیت ان کے والد کے نام ہے تو پٹواری ان گھرانوں کے سیلاب کے متاثرہ ان کے والد کے نقصان میں تو درج کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اسی طرح سرکاری زمین پر بنے جو گھر تباہ ہوئے ان کے مکینوں کو بھی سروے میں شامل کرنے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا۔ دیکھا جائے تو سیلاب متاثرین کے اکثریت گھرانے پنجاب حکومت کے سروے سے باہر ہی رہ جائیں گے اور انھیں اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنے گھروں کی تعمیر کرنی ہے۔ ہماری بابو شاہی کتنی ظالم ہے کہ اس نے ملکیت کی شرط لگاکر ہزاروں سیلاب متاثرہ گھرانوں کو امداد سے محروم کردیا ہے۔ نہ تو پریس اس معاملے کی کوریج کر رہا ہے اور نہ ہی حکومت ان کی مدد کر پا رہی ہے۔

