Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Arundhati Roy Ke Nodel Ka Naya Tarjuma Kyun?

Arundhati Roy Ke Nodel Ka Naya Tarjuma Kyun?

ارون دھتی رائے کے ناول کا نیا ترجمہ کیوں؟

ایک صاحب نے "گاڈ آف سمال تھنگز" کے پہلے سے موجود اردو ترجمے پر میرے تحفظات اور اس کی موجودگی مین "نئے ترجمے کی ضرورت" بارے عرضداشت پر یہ سوال کیا کہ میں نے اس کا اردو عنوان "مردودان حرم کا خدا" کیسے کیا؟ اسی سوال میں دوسرا سوال جڑا ہوا ہے کہ اس ک پہلے ترجمے کے عنوان "سسسکتے لوگ" کو کیوں اختیار نہ کیا۔ میرا یہ دعوا نہیں تھا اور نہ ہے کہ "پہلا ترجمہ" "غلط" ہے یا اس میں کوئی "صرف و نحو" کی غلطیاں ہیں۔ میری ذاتی رائے تھی کہ اس ترجمے میں وہ فضا منتقل نہیں ہوپائی جو اروندھتی رائے کا مقصد تھا۔

God of Small Things محاورہ "گاڈ آف سمال تھنگز" بظاہر ایک سادہ سا جملہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر معنی و مفہوم کی کئی تہیں چھپی ہیں۔ یہ جملہ سب سے زیادہ شہرت ارون دھتی رائے کے ناول The God of Small Things کے باعث حاصل کرتا ہے، مگر اس کی معنویت محض ناول تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر فکری اور علامتی جہت رکھتی ہے۔

یہ ترکیب بظاہر خدا کے تصور کو معمولی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ساتھ جوڑتی ہے۔ عام طور پر خدا کا تاثر وہ ہستی ہے جو عظیم و شان دار مظاہر اور کائناتی سطح کے معاملات پر حاکم ہوتی ہے۔ لیکن یہاں اس کے برعکس چھوٹی، نازک اور بظاہر غیر اہم چیزوں کو الوہی حیثیت دی گئی ہے۔ گویا یہ جملہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی کی اصل معنویت اور اثر صرف بڑے بڑے فیصلوں یا شاندار تاریخوں میں نہیں بلکہ ان لمحوں میں چھپی ہے جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، معمولی جذبات، روزمرہ کی بے ربط یادیں، خاموش دکھ اور چھوٹی خوشیاں۔

اس محاورے میں ایک طرح کی طنزیہ سبورژن بھی ہے۔ یہ روایتی تصور کو الٹ دیتا ہے کہ "خدا" ہمیشہ بڑے کاموں اور عظیم المیوں پر حکمران ہے۔ یہاں خدا ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ہے جنہیں سماج اور تاریخ اکثر فراموش کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اصل طاقت ان چھوٹے اور غیر نمایاں پہلوؤں میں بھی پوشیدہ ہے جو انسانی زندگی کو اندر سے تشکیل دیتے ہیں۔

یہ ترکیب جذباتی اور فکری سطح پر ایک اور زاویہ بھی کھولتی ہے: یہ ہمیں ان نادیدہ و غیر اہم ٹھہرائے گئے وجودوں اور لمحوں کی طرف متوجہ کرتی ہے جو اصل میں ہماری شناخت اور تاریخ کے سب سے گہرے حصے ہیں۔ گویا "چھوٹی چیزوں کا خدا" ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بڑے بیانیوں کی چمک دمک کے پیچھے، خاموش کمروں اور معمولی باتوں میں بھی کائنات کا راز چھپا ہے۔

جب اسے ناول کے باہر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ شخص یا شے ہو سکتی ہے جو باریکیوں پر نظر رکھتی ہے، جو چھوٹے اور کم نظر آنے والے پہلوؤں میں بھی معنی ڈھونڈ لیتی ہے۔ یا پھر یہ کسی ایسی قوت کا استعارہ ہو سکتی ہے جو ٹوٹے ہوئے، نظرانداز کیے گئے یا غیر اہم قرار دیے گئے وجودوں اور تجربوں پر حکومت رکھتی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو "گاڈ آف سمال تھنگز" ایک تضاد آمیز مگر نہایت پرکشش اظہار ہے: معمولی کو مقدس بنانا، کمزور میں طاقت تلاش کرنا اور ان چھوٹی چھوٹی حقیقتوں میں عظمت دیکھنا جو بظاہر بے معنی لگتی ہیں مگر دراصل ہماری زندگی کو گہرائی اور سچائی عطا کرتی ہیں۔

میں نے جب "God of Small Things" کے لیے اردو میں"مردودانِ حرم کا خدا" کا انتخاب کیا تو یہ محض الفاظ کا ردوبدل نہیں تھا، بلکہ ایک پورے فکری اور جمالیاتی جہان کو اردو قاری کے قریب لانے کی کوشش تھی۔ انگریزی محاورے میں چھوٹی اور بظاہر غیر اہم چیزوں کو خدائی درجے تک بلند کرنے کا جو تضاد اور طنز ہے، وہی میرے ترجمے کی بنیاد بنا۔ میں نے چاہا کہ اردو میں یہ کیفیت اور زیادہ نمایاں ہو، تاکہ قاری صرف لفظی ترجمہ نہ پڑھے بلکہ اس کے اندر چھپے ہوئے فلسفیانہ طنز کو بھی محسوس کرے۔

اسی لیے میں نے "مردودانِ حرم" کا لفظ اختیار کیا۔ یہ ترکیب سماج کے ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو پوجا گاہوں اور پاکیزگی کے دعوے دار حلقوں سے نکال دیے گئے، جو روایت کی سخت دیواروں کے پیچھے دھتکارے گئے، جنہیں تاریخ نے نظرانداز کیا اور جنہیں مذہبی و سماجی اصولوں نے نااہل قرار دیا۔ جب میں نے ان کو "حرم" سے جوڑا تو یہ بات مزید گہری ہوگئی کہ وہی جگہ جو تقدیس کا مرکز سمجھی جاتی ہے، اسی کے دروازے پر سب سے پہلے دربدر اور بے آسرا لوگ ٹھکرائے جاتے ہیں۔

یوں میرا ترجمہ دراصل ایک شعوری الٹ پھیر ہے۔ جہاں انگریزی محاورہ "چھوٹی چیزوں کے خدا" کی بات کرتا ہے، وہاں میں نے اسے اردو میں"مردودانِ حرم" کے ذریعے سماجی اور مذہبی طور پر پست سمجھے جانے والے انسانوں اور لمحوں کا خدا بنا دیا۔ یہ وہ خدا ہے جو بند کمروں میں گونگی سسکیوں، ممنوع محبتوں اور دبی ہوئی آوازوں پر نظر رکھتا ہے۔ وہ خدا جس کی بادشاہی عظیم الشان تاریخوں یا فاتحوں کے قصوں پر نہیں بلکہ ان کہانیوں پر ہے جو کبھی سنائی ہی نہیں گئیں۔

میرے نزدیک یہ ترجمہ صرف معنوی وفاداری نہیں بلکہ ایک جمالیاتی جست بھی ہے۔ میں نے چاہا کہ اردو قاری کے ذہن میں بھی وہی لرزہ اترے جو انگریزی محاورہ پڑھ کر محسوس ہوتا ہے، یہ احساس کہ خدائی صرف فلک کے تخت پر نہیں، بلکہ ان گلی کوچوں میں بھی بستی ہے جہاں مردودانِ حرم اپنی بقا کی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔

جب میں نے The God of Small Things کو اردو میں منتقل کیا تو میرے لیے یہ محض ایک ترجمہ نہیں تھا بلکہ ایک فکری و جمالیاتی تشکیل تھی جسے میں نے علمِ معانیات، علمِ بیان اور علمِ بدیع تینوں کی روشنی میں دیکھا۔ سب سے پہلے میں نے اسے معانیاتی سطح پر پرکھا۔ انگریزی عنوان میں دلالتِ اوّلیہ "چھوٹی چیزوں" کی ہے، لیکن میں نے اس کی دلالتِ ثانویہ یعنی "کمزور، بےبس، ممنوع اور کچلے ہوئے وجود" کو دریافت کیا اور پھر اس پر ایک معنیاتی انزلاق (semantic shift) کرتے ہوئے "small things" کو "مردودانِ حرم" میں ڈھال دیا، یعنی ان وجودوں میں جو مقدس نظام سے نکال دیے گئے۔

بیانیہ سطح پر یہ تبدیلی اور بھی گہری ہوگئی۔ اصل عنوان میں"God of Small Things" بذاتِ خود ایک استعارہ ہے جس میں معمولی اشیاء کو تقدیس عطا کی گئی ہے۔ میں نے اس استعارے کو طبقاتی اور مذہبی اخراج پر منتقل کیا اور "مردودانِ حرم" کے ذریعے اسے کنایہ بنایا، جس میں"حرم" صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ ہر وہ نظام ہے جو حرمت اور اخراج پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح "مردود" کو میں نے مجاز مرسل کے طور پر ان تمام طبقات کے لیے استعمال کیا جو سماجی یا مذہبی طور پر خارج کر دیے گئے۔ اس ترکیب میں تضاد بیانی بھی پیدا ہوتا ہے: "مردودان" اور "خدا" کا ملاپ۔ وہ جو مقدس کے دائرے سے نکالے گئے، وہی دراصل خدا کے زیادہ قریب قرار پاتے ہیں۔

بدیعی سطح پر بھی یہ انتخاب کئی جہات رکھتا ہے۔ "مردودانِ حرم کا خدا" میں مبالغہ موجود ہے، جس میں"حرم" کی تقدیس اور "مردود" کی شدت ایک ساتھ آ کر سماجی المیے کو مزید گہرا کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ تضاد کی صنعت بھی موجود ہے: "مردود" بمقابلہ "حرم" اور "خدا"۔ یہ تضاد قاری کو چونکاتا ہے اور معنی میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ "حسنِ تعلیل" کی جہت بھی سامنے آتی ہے کہ میں نے "small things" کو صرف جزئیات کے طور پر نہیں لیا بلکہ یہ دکھایا کہ وہ چھوٹے اس لیے نہیں کہ غیر اہم ہیں بلکہ اس لیے مقدس ہیں کہ سماج نے انہیں مردود ٹھہرایا۔ جناسِ ناقص بھی اس ترکیب میں جھلکتا ہے، "حرم" اور "خدا" کی صوتی وقار اور "مردود" کی سخت آواز مل کر ایک ایسا صوتی توازن پیدا کرتے ہیں جو عنوان کو وزنی اور یادگار بنا دیتا ہے۔

یوں میرا ترجمہ محض ایک semantic transposition نہیں رہا بلکہ ایک جمالیاتی اور بلاغی تشکیل بن گیا۔ استعارہ اور کنایہ نے اسے فکری عمق دیا، تضاد اور مبالغہ نے اس میں المیہ اور طنزیہ رنگ پیدا کیا، حسنِ تعلیل اور جناس نے اس کے صوتی اور معنوی حسن کو بڑھایا۔ نتیجتاً، میں نے "چھوٹی چیزوں کا خدا" کو "مردودانِ حرم کا خدا" میں بدل کر یہ دکھایا کہ اصل بیانیہ محض جزئیات کی تقدیس نہیں بلکہ ان حاشیہ نشینوں کی تقدیس ہے جنہیں سماج اور مقدس نظام نے دھتکار دیا۔ اس تبدیلی کے ذریعے قاری کو وہی چونکانے والی شدت اور معنوی تہہ تک رسائی ملتی ہے جو اروندھتی رائے کے متن میں ازخود موجود ہے۔

جب میں نے The God of Small Things کو "مردودانِ حرم کا خدا" میں ڈھالا تو میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کی صوتی ساخت اور آہنگ کی نوعیت مختلف ہے، اس لیے محض معنی کی منتقلی کافی نہیں بلکہ آوازوں اور وقفوں کے وزن کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ انگریزی عنوان میں"The" نرم اور غیر وزنی آغاز دیتا ہے، "God" بھاری اور بند آواز کے ساتھ سخت ڈ، پر ختم ہوتا ہے، "of" ایک ہلکا وقفہ پیدا کرتا ہے، "Small" کے لمبے مصوّت "آ" سے نرمی اور گونج جنم لیتی ہے اور "Things" میں"تھ" کی سرسراہٹ اور آخر کے ز، کی ارتعاش ایک باریک سی موسیقیت پیدا کرتی ہے۔ یوں پورا عنوان ہوا دار اور سرگوشی نما آہنگ رکھتا ہے، جیسے بچوں، اشیا اور جزئیات کی دنیا میں ہلکی ہلکی صدائیں ہوں۔

اس کے برعکس اردو عنوان "مردودانِ حرم کا خدا" بھاری اور وقار آمیز آوازوں سے بنا ہے۔ "مردودان" میں سخت اور وزنی آغاز ہے اور آخر میں"ان" کی کھنک ہے، "حرم" میں حلقی "ح" اور ارتعاشی "ر" مل کر اختتام پر بھاری "م" پیدا کرتے ہیں، "کا" مختصر مگر وضاحتی جوڑ ہے جو آہنگ کو لمبا کرتا ہے اور "خدا" میں حلقی "خ" کے بعد کھلا مصوّت "ا" آتا ہے جو آخر میں کشادگی پیدا کرتا ہے۔ یہ پورا مجموعہ ایک المیہ اور خطیبانہ گونج پیدا کرتا ہے، جس میں سرگوشی کی لطافت نہیں بلکہ گرج اور تقدیس کی فضا ہے۔

یوں انگریزی عنوان کے چھوٹے وقفے اور نرم حروف آہستگی اور لطافت کو نمایاں کرتے ہیں، جب کہ اردو عنوان کے وزنی الفاظ اور حلقی و بھاری حروف تقدیس، اخراج اور المیے کی شدت کو نمایاں کرتے ہیں۔ انگریزی کا صوتی نقشہ بچوں کی سرگوشی جیسا ہے، جبکہ اردو کا صوتی نقشہ کسی محراب میں بلند کی گئی صدا کی طرح ہے۔ یہی فرق یادداشت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ انگریزی عنوان ذہن میں ہلکی، لطیف اور باریک سی تصویر چھوڑتا ہے، جبکہ اردو عنوان بھاری، مقدس اور نعروں جیسا نقش چھوڑتا ہے۔

یہ صوتی تقابل ظاہر کرتا ہے کہ میں نے صرف معانی کو نہیں بدلا بلکہ آہنگ کو بھی نئے تناظر میں منتقل کیا ہے۔ انگریزی میں آہنگ "جزئیات کی تقدیس" ہے جبکہ اردو میں آہنگ "حاشیہ نشینوں کی تقدیس" میں ڈھل جاتا ہے۔ یہی تبدیلی ناول کے بیانیے کو اردو قاری کے لیے زیادہ وزنی، یادگار اور چونکانے والا بناتی ہے۔

جب میں The God of Small Things کے لیے اردو عنوان سوچتا ہوں تو مجھے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اصل عنوان کی معنوی تہہ داری، استعارتی وسعت اور صوتی آہنگ کس حد تک منتقل ہو رہا ہے۔ اسی پیمانے پر "سسکتے لوگ" ایک کمزور متبادل ثابت ہوتا ہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ اس کی دلالت کی تنگی ہے۔ "Small Things" کی دلالت کھلی ہوئی ہے: بچے، لمحے، اشیا، جزئیات، کمزور طبقات اور ممنوع محبتیں، سب اس میں سما سکتے ہیں، جبکہ "سسکتے لوگ" صرف انسانوں پر دلالت کرتا ہے اور وہ بھی ایک خاص کیفیت یعنی "سسکنے" تک محدود رہتا ہے۔ اس طرح اصل عنوان کی کثیرالمعنویت ختم ہو جاتی ہے۔

استعارتی سطح پر بھی یہ کمزور پڑتا ہے۔ "Small Things" بذاتِ خود ایک استعارہ ہے، جس میں"چھوٹا" صرف جسمانی یا سماجی چھوٹائی نہیں بلکہ جزئیات اور ناپسندیدہ کو بھی سمیٹ لیتا ہے۔ اس کے برعکس "سسکتے" ایک جذباتی کیفیت ہے، لیکن اس میں وہ تقدیسی پہلو موجود نہیں جو اصل عنوان میں ہے۔ "سسکنا" دکھ کو ظاہر کرتا ہے، مگر اس کے پیچھے خدائی یا ممنوعہ تقدیس کا مفہوم غائب ہو جاتا ہے۔

صوتی اور آہنگی سطح پر بھی "سسکتے لوگ" میں نرمی تو ہے لیکن وزنی پن اور المیہ آہنگ نہیں۔ اس کے مقابلے میں"مردودانِ حرم کا خدا" جیسے عنوان میں حلقی حروف، وزنی اختتام اور شعری ریتم مل کر ایک المیہ صدا پیدا کرتے ہیں، جو قاری پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ "سسکتے لوگ" زیادہ تر روزمرہ بول چال جیسا لگتا ہے اور اس میں وہ ادبی وقار نہیں ہے۔

بدیعی صنعتوں کی کمی بھی اس کی کمزوری ہے۔ "مردودانِ حرم کا خدا" میں تضاد بیانی، مبالغہ، حسنِ تعلیل اور جناس جیسے عناصر شامل ہیں جو عنوان کو تہہ دار بناتے ہیں، لیکن "سسکتے لوگ" میں نہ تضاد ہے، نہ مبالغہ، نہ صوتی حسن۔ یہ سیدھا سادہ بیان ہے جس میں کوئی بلاغی چمک پیدا نہیں ہوتی۔

جمالیاتی سطح پر بھی "سسکتے لوگ" زیادہ تر دکھ کا عنوان ہے، مگر اس میں کوئی سیاسی یا ثقافتی کوڈ نہیں کھلتا۔ اصل ناول محض دکھ کا بیان نہیں بلکہ "محبت کے قوانین" کی خلاف ورزی، کاسٹ سسٹم کا جبر اور حاشیہ نشینی کی تقدیس کا بیانیہ ہے، جو "سسکتے لوگ" میں منعکس نہیں ہوتا۔

یوں"سسکتے لوگ" ایک براہِ راست اور جذباتی عنوان ہے، لیکن یہ The God of Small Things کے کثیرالمعنوی، استعاراتی اور تقدیسی جہان کو محدود کر دیتا ہے۔ یہ صرف دکھ پر مرکوز ہے جبکہ اصل عنوان جزئیات اور حاشیہ نشینوں کی تقدیس کا پیچیدہ بیانیہ رکھتا ہے، اس لیے یہ عنوان کمزور، یک رُخی اور بے وزنی محسوس ہوتا ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed