Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Afghan Tarkeen e Watan, Haqiqat Aur Afwah

Afghan Tarkeen e Watan, Haqiqat Aur Afwah

افغان تارکین وطن، حقیقت اور افواہ

میں خانیوال میں پیدا ہوا اور جب میں نے سن شعور سنبھالا تو میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ہمارے قریب قریب تمام چھوٹے بڑے کاروباری اور تجارتی مراکز، بازاروں، سبزی منڈی اور غلہ منڈی میں چوکیداری کے فرائض سرانجام دینے والوں کا تعلق پاک-افغان سرحد سے ملحقہ افغانستان کے صوبوں سے تھا۔

ہاتھ ریڑھی پر کابلی سیاہ چنے اور مکئی کے دانے بھون کر فروخت کرنے والے اکثر افغان تھے۔ سبزی منڈی، غلہ منڈی میں لدھان کے پیشے سے وابستہ ایک معتدبہ تعداد افغانوں کی تھی۔ جوتیاں گانٹھنے، پالش کرنے کے کام سے وابستہ کئی افراد افغان تھے۔ سردیوں میں ہاتھ میں گرم قہوے کی کیتلی پکڑے مجھے کئی افغان بچے نظر آتے تھے۔ یہ یہاں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر تھے۔

یہی مشاہدہ میں نے سرائیکی بیلٹ کے دیگر کئی شہروں میں کیا۔ میں نے ان افغان مہاجر گھرانوں کی کم و بیش تین نسلوں کو یہیں جنم لیتے، لڑکپن سے جوانی اور ادھیڑ عمری کی منزل میں داخل ہوتے دیکھا۔ ان کی اکثریت آج بھی انہی پیشوں سے وابستہ ہے جب اچانک ان کے پاکستانی شناختی کارڈ نادرا نے خاندان کا شجرہ ستر کی دہائی سے آگے نہ ملنے پر منسوخ کرنے شروع کیے اور انھیں یہاں سے بے دخل کرنا شروع کردیا۔

موسیٰ خان نامی ایک بوڑھا چوکیدار جس کا والد 1981ء میں یہاں آباد ہوا تھا اور اس کے پانچ بھائی اور سات بہنوں کی اولاد، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں جن کی عمریں 17 سال سے 25 سال کے درمیان ہیں اور کئی شادی شدہ ہیں آگے ان کے بچے بھی ہیں۔ یہ کم و بیش 20 گھرانوں پر مشتمل افغان مہاجر خاندان ہیں جن کے پاکستانی شناختی کارڈ، پیدائش کے سرٹیفیکیٹ اور ڈومی سائل سب کے سب منسوخ کردیے گئے۔ ان کی جائیدادیں جن میں محض ان کے ملکیتی مکان ہیں کی رجسٹریشن منسوخ قرار پائی ہیں۔ ان کے پاس موٹر سائیکل جو ہیں ان کی رجسٹریشن اور لائسنس بھی منسوخ کردیے گئے ہیں۔ ان سب کو سرکاری طور پر ہائر کردہ ٹرانسپورٹ میں لادھ کر اسلام آباد میں قائم ایک عارضی مہاجر کیمپ میں بھیج دیا گیا ہے۔ یہ دو ہفتے قبل کی بات ہے۔ یہ افغانستان بھیجے گئے یا نہیں کچھ پتا نہیں ہے۔

موسیٰ خان نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے مرحوم والد نے انھیں بتایا تھا کہ وہ اسی میں جلال آباد کے کسی نواحی علاقے سے انیس سو اسی میں ہجرت کرکے پشاور آئے تھے اور وہاں سے اپنے ایک دوست کے گھرانے کے ساتھ خانیوال منتقل ہوئے اور چوکیداری سے وابستہ ہوئے۔ پھر ان کے خاندان کے کچھ لوگوں نے ریڑھیوں پر دن میں بھنے چنے بیچنے اور رات کو چوکیداری کے ساتھ ساتھ چپلی کباب کی ریڑھی لگانا شروع کیں۔ اب تک ان کے خاندان اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ چند ایک گلی محلوں میں چھوٹے موٹے کریانہ اسٹور کی دکان کھول کر بیٹھ گئے۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے خانیوال میں ایک ٹیلوں اور کئی فٹ گڑھوں سے بھری زمین پر ایک غیر رجسٹرڈ ٹاؤن میں پلاٹ خریدے اور انھیں آہستہ آہستہ مکانات میں تبدیل کیا اور وہاں رہنے لگے۔ وہ مکانات اب کہیں جاکر دو منزلہ پختہ مکانوں کی شکل اختیار کرنے لگے تھے۔ اب ان کی قیمت کہیں چالیس سے پچاس لاکھ ہوئی تھی اور جیسے ہی وہ واپس افغان مہاجر کے اسٹیٹس کو پہنچے تو انھیں یہ مکانات اونے پونے داموں فروخت کرنا پڑے۔

موسیٰ خان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے تو افغانستان میں اپنے دادا اور والد کی جنم بھومی کا نام تک معلوم نہیں ہے۔ نہ ہی اسے یہ پتا ہے کہ وہاں ان کا کون سا رشتہ دار ہے۔ اس کے بیٹے، پوتوں، نواسوں کو بس اردو بولنا آتی ہے اور وہ خود بھی پشتو سے واجبی طور پر واقف ہے اور اس زبان کی اسے اتنی بھی سمجھ نہیں جتنی وہ پنجابی اور سرائیکی سمجھ لیتا ہے۔ ان کے لیے افغانستان تو بہت دور کی بات ہے پاکستان کے پشتون علاقے اجنبی لگتے ہیں۔ وہ افغانستان جاکر کیا کریں گے، انھیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔

ملتان کی سبزی منڈی میں کم و بیش ایک ہزار سے زائد افغان پلے دار تھے۔ یہ بس نام کے افغان پلے دار تھے کیونکہ انھیں بس یہ پتا تھا کہ ان کا دادا یا پڑ دادا افغانستان سے پاکستان آیا تھا۔ گزشتہ مہینے یہ سب کے سب وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان سب کی اردو کا لہجہ یہاں تقسیم کے بعد آج کے ہریانہ اضلاع سے آنے والے مہاجروں جیسا تھا اور یہ پنجابی اور سرائیکی سمجھ تو لیتے تھے لیکن ان زبانوں کو بولنے سے قاصر رہا کرتے تھے۔ میں ان میں سے بہت سے پلے داروں سے انیس سو ننانوے سے واقف تھا اور یہ ملتان کی منڈی سے خرید کیا گیا ہمارا مال گاڑی پر لوڈ کیا کرتے تھے۔ گزشتہ ماہ میرے بھائی نے بتایا کہ اب ملتان کی منڈی میں ان میں سے ایک بھی پلے دار نظر نہیں آ رہا ہے۔

اس کے بالکل برعکس ملتان میں ٹائروں اور گاڑیوں کے اسپئیر پارٹس اور اسیسریز کی مارکیٹ میں بلاشبہ کروڑ پتی اور اربوں پتی ایسے تاجر گھرانے موجود ہیں جن کے افغان ہونے کا سب کو پتا ہے۔ ایسے ہی ملتان میں سفری اور مال بردار گاڑیوں کی خرید و فروخت، ٹرانسپورٹ، ہول سیل کپڑے، جیولری اور یہاں تک کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ افغان نژاد باشندے موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی افغان بدری کی اس مہم میں واپس نہیں جانا پڑا ہے۔ کئی ایک کا نام سود پر چھوٹے، درمیانے اور بھاری قرضے فراہم کرنے، اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، منشیات اور چوری و ڈکیتی کی گاڑیوں کے دھندوں میں ملوث ہونے کے سلسلے میں بھی آتا ہے۔ ان کے یہاں کے با اثر سیاسی خاندانوں، طاقتور پولیس افسروں سے مضبوط روابط ہیں۔ کئی ایک تو ملتان کے گرد و نواح میں قیمتی زرعی رقبوں کے مالک ہیں۔ جبکہ درجنوں افغان باشندے مظفر گڑھ، لیہ، چوک اعظم، چوبارہ، سے لیکر ڈی جی خان ڈویژن میں بڑی زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ ان کا شجرہ نجانے کیسے نادرا کے ریڈار پہ نہیں آیا۔ نہ ہی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کا سراغ لگا پائی ہیں۔ حال ہی میں بنی سی سی ڈی منظم کرائم سے جڑے افغان گھرانوں کا پتا لگا پائی ہیں۔

امپورٹ و ایکسپورٹ کے کاروبار سے جڑے کراچی کے کئی میمن، کھوجہ، ملک اور قریشی سرمایہ دار جو ادرک اور لہسن چین، تھائی لینڈ سے امپورٹ کرتے ہیں اور میرا اپنے خاندانی کاروبار کے سبب ان سے رابطہ رہتا ہے ان سے ملنے والی معلومات کے مطابق کراچی میں پوش علاقوں میں رہنے والے امپورٹ و ایکسپورٹ کے کاروبار سے جڑے سینکڑوں افغان نژاد پاکستانی شہریت رکھنے والے سرمایہ داروں کو گزشتہ دو سال سے جاری افغان بدری کی اس مہم سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور نہ ان کی شناخت پر کسی نے سوال اٹھایا ہے۔ یہ وہ افغان سرمایہ کار ہیں جن کی چوتھی نسل بھی زیادہ تر دری اور پشتو بولتی ہے اور ان کے آبائی افغان علاقوں اور قبیلوں سے تعلق بھی برقرار ہے۔ ان کی بھاری اکثریت دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی کے ہاتھ پر بیعت ہے۔ تبلیغی جماعت سے وابستگی ہے۔ کراچی میں یہ متعدد مدارس دینیہ کے بڑے فنانسر ہیں اور ان کی نئی نسل اعلی تعلیم یافتہ ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریش، فنانس، سپلائی چین، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈگری ہولڈر ہیں۔ اکثر کے پاس یورپی ممالک اور امریکہ کی شہریت بھی ہے۔

یہ میں نے افغان نژاد پاکستان میں مقیم باشندوں کے درمیان پائے جانے والے سماجی۔ معاشی تفاوت اور تفریق کا وہ مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے جو زیادہ تر میرے ذاتی مشاہدے اور حاصل ہونے والی معلومات پر مشتمل ہے اور اس ذاتی مشاہدے اور معلومات کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ حالیہ افغان باشندوں کی جبری بے دخلی، ان سے نسلی ثقافتی۔ ایتھنک بنیادوں پر کی جانے والی نفرت اور ریاستی جبر کا سب سے زیادہ نشانہ افغان نژاد محنت کش طبقہ کے افراد بنے ہیں۔

ہمارے دانشور، تجزیہ نگار اور ریاستی پروپیگنڈا اپریٹس سب افغانوں کو غدار، محسن کش، بے وفا، پاکستان سے نفرت کرنے والے، دہشت گرد، جرائم پیشہ بناکر پیش کر رہا ہے۔ جب کہ ان میں لاکھوں افغان غریب، محنت کش سرے سے غیر سیاسی ذہن رکھنے والے اور اپنی افغان شناخت کو فراموش کیے بیٹھے تھے اور وہ پاکستانی سماج میں ضم ہوگئے تھے۔

ان کا افغانستان سے کوئی رشتہ ناطہ، تعلق باقی نہیں رہ گیا تھا۔ ان کے ہاں تو اب شادی بیاہ کے رسوم و رواج بھی مقامی رسوم و رواج تھے۔ ان کی نوجوان عورتیں فینسی برقعوں اور بڑی عمر کی عورتیں پنجابی اور سرائیکیوں کی طرح بڑی سی چادر سر پر لیکر بازار اور گلیوں محلوں میں نظر آتی تھیں۔

ان کی قدامت پرستی بھی یہاں کے پنجابی، سرائیکی اور ہندوستانی مہاجروں جیسی ہی تھی۔ درجنوں غریب چوکیدار، سبزی منڈی اور غلہ منڈی میں کام کرنے والے مزدور جو ایسے تاجروں سے وابستہ تھے جو بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے تو یہ بھی اسی مسلک کے پیروکار بن گئے تھے۔

کم و بیش 45 سالوں میں، میں نے ان افغان مہاجر محنت کش گھرانوں کو ایک بڑی ثقافتی تبدیلی سے گزرتے دیکھا۔ یہ مقامی ثقافت، رسوم و رواج جو پنجاب کے قصبوں اور شہروں میں پائی جاتی ہے سے ہم آہنگ ہوگئے تھے۔ ان کی تیسری اور چوتھی نسل تو اب اردو، پنجابی اور سرائیکی سے جڑی ہوئی تھی۔

ہمارے مین سٹریم میڈیا نے اس سماجی۔ ثقافتی بدلاو پر کوئی توجہ نہیں دی وہ تو بس کلیشے اور تعصبات کو ہوا دے رہا ہے اور سب افغانوں کی شناخت کو ایک منفی رنگ میں پیش کر رہا ہے۔

پاکستان میں کوئی مارکسی سماجی سائنس دان ایسا نہیں ہے جو طبقاتی سماجی معاشی سائنس کی روشنی میں افغان مہاجرین کے اندر اس سوشل ٹرانسفارمیشن کو دیکھ سکے اور اسے دکھا سکے جس سے یہ افغان نژاد باشندے پاکستان کے مختلف علاقوں اور خطوں میں رہائش پذیر ہونے کے دوران گزشتہ 45 سال میں گزرے۔

ابھی نہ تو میرے سامنے کوئی ایسی سوشل اسٹڈیز موجود ہیں جو پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت میں ایسے افغان نژاد مہاجر گھرانوں کے اعداد و شمار بتاتی ہوں جن کی تیسری اور چوتھی نسل کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فیض یاب ہوئی اور وہ مڈل و لوئر مڈل کلاس کا درجہ پاگئے۔ ان کے ہاں کیا ثقافتی بدلاو دیکھنے کو ملا؟ اور وہ افغان نژاد باشندے ایسی آبادیوں میں بس رہے ہیں یا تھے جو مڈل و لوئر مڈل کلاس پنجابی، سندھی، سرائیکی اور اردو اسپیکنگ ہندوستانی مہاجروں کی بھاری ا کثریت کی آبادیاں ہیں۔

ہمارے پاس اس باب میں سوائے افواہوں، متھ، کلیشے، تعصبات، نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تاریخ پاکستان کے دانشوروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan