Aaj Ke Adeeb Ki Zimmedari
آج کے ادیب کی ذمہ داری

پاکستان میں 1973ء کا آئین پہلے دن سے نہ تو مکمل طور پر ایک عوامی جمہوریہ کے آئین ہونے کی عکاسی کرتا تھا اور نہ ہی یہ آئین کسی ایسے وفاق کی تشکیل دیتا تھا جو ریاست پاکستان کو "کثیر القومی وفاق" پر مشتمل قرار دیتا ہو۔ اس آئین نے پاکستان کی ریاست کی مرکز (وفاق) اور صوبوں میں تقسیم کو محض "انتظامی تقسیم" قرار دیا۔ یہ ریاست کا وہی تصور تھا جو متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج نے 1935ء کے آئین میں پیش کیا تھا۔ اس آئین نے 1956ء کے آئین میں نافذ کردہ ون یونٹ اسکیم کو منسوخ کیا لیکن اس نے ریاست بہاولپور کو زبردستی "پنجاب" کا حصّہ بنایا اور ریاست بہاول پور کے باشندوں سے رائے تک لینا گوارا نہ کی گئی۔
پاکستان کے ایک شہری کے طور پر میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ پاکستان کا آئین اس وقت تک ایک عوامی جمہوری آئین کی شکل اختیار نہیں کرسکتا جب تک ایک تو اس آئین میں ترمیم کی جائے اور اس ترمیم کے زریعے آئینی طور پر یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان کا وفاق پانچ اقوام (پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچ، پشتون) کے اکثریتی پانچ قومی اکائیوں پر مشتمل قرار نہ دیا جائے۔ اس آئین میں یہ تصریح بھی صاف ہو کہ پاکستان کے وفاق میں چھے قومی زبانیں ہیں (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچ)۔
یہ آئین اپنی موجودہ شکل میں درج بالا شقوں کو داخل کیے بغیر ایک نامکمل آئین رہے گا۔
بطور شہری مجھے اس بات کا شکوہ بھی ہے کہ اس آئین میں پاکستان کے تمام شہریوں کے برابر ہونے کا جو زکر ہے، وہ برابری یہ آئین خود ہی اس وقت سلب کر لیتا ہے جب یہ آئین "قرارداد مقاصد" کو اپنا دیباچہ لکھتا ہے اور پاکستان کو "عوامی جمہوریہ پاکستان" قرار دینے کی بجائے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کہتا ہے۔ اس آئین میں مذہب کی شمولیت اسے تھیاکریسی کے قریب کر دیتی ہے جو جمہوریت کے بالکل منافی ہے۔ یہ آئین "شہریوں کے مذہب کا تعین کرتا ہے اور اس بنیاد پر ان سے امتیازی سلوک کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ مذہب کو آئین میں شامل کر دینے نے یہ راستا کھلا رکھا ہے کہ اس میں ایسے قوانین مسلسل بنائے جائیں جو شہریوں کی مذہبی شناخت پر قانونی تعذیب کا راستا کھولے اور ان پر اپنی خودساختہ اختیار کردہ عقائد کی تشریح نافذ کرے۔
ان خامیوں اور کمی کے باوجود ہم اس آئین کی پابندی اس لیے کرتے آئے کہ ایک دن ہم آئین کو وفاقی جمہوری آئین کی شکل دیں لے گے۔
ہماری اس امید کو موجودہ حکومت میں شامل یا اس حکومت کی حامی سیاسی جماعتوں نے اس وقت نا امیدی میں بدل دیا ہے جب انھوں نے یہ عندیہ دیا کہ وہ اس آئین میں آئینی طور پر سویلین بالادستی کی ضمانت دینے والی آئین کے آرٹیکل -243 میں ترمیم کی حمایت کریں گی جس میں ایک طرف تو جوانٹس چیفس آف اسٹاف کونسل کو ختم کرکے "چیف ڈیفینس فورسز" کا عہدہ تخلیق کرنے اور اسے کسی بھی طرح کے ٹرائل سے استثنا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ استثنا آئین کے آرٹیکل – 6 کو غیر موثر بنا دے گا۔
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ جو 1958ء سے سیاسی عمل میں مداخلت کی مرتکب ہوتی آئی ہے۔ اس نے 1970ء کے انتخابات میں بھی اپنے تئیں کئی ایک سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی تھی۔ اس نے اپنے تئیں ایسے انتظامات کیے تھے جس سے کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہ کر پائے اور منتخب سیاسی نمائندے اس وقت کے جاری کردہ ایل ایف او کے مطابق مقررہ وقت میں آئین کے کسی ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکیں اور اس طرح سے وہ مجبور ہوکر ایسا آئین منظور کریں جس سے پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ اپنی مرضی کا آئین نافذ کرسکے۔ لیکن اس کی مداخلت اس وقت اس کے مقاصد کے آڑے آئی جب پاکستان کی عوام کی اکثریت نے پاکستان عوامی لیگ کو واضح اکثریت دے دی اور یوں 1970ء کے انتخابی نتائج کا تقاضا بنتا تھا کہ عوامی لیگ وفاق پاکستان میں حکومت بنائے اور وہ ملک کا نیا آئین بنائے۔ لیکن پاکستان کی فوجی جنتا نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے ان کی پارلیمانی اکثریت کو ریاستی جبر کی مشینری کے زریعے کچل ڈالے۔ اس فوجی آپریشن کا نتیجہ مشرقی بنگال کی عوام کی اکٹریت کی بغاوت کی شکل میں نکلا اور ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے ملک کے ایک غیر مثالی 1973ء کے آئین میں شامل آرٹیکل -6 کی شمولیت کے باوجود اور سویلین بالادستی کو آئین میں شامل آرٹدیکل -243 کی موجودگی کے باوجود محض 4 سال بعد فوجی بوٹ تلے روند دیا اور پھر اس نے 1985ء کی ایک غیر جماعتی پارلیمنٹ کے زریعے آٹھویں ترمیم منظور کرائی جس میں 11 سالہ دور آمریت کے ان تمام غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کو "آئینی تحفظ" فراہم کیا۔ نوے کی پوری دہائی اس ملک میں ہونے والے تمام انتخابات میں کھلی دھاندلی اور غیر شفاف طریقے سے حکومتوں کے قیام اور ان کی رخصتی کے سال تھے۔
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے 5 جولائی 1977ء کو جمہوریت کو یرغمال بنایا۔ اس نے ایوان صدر، وزرات خارجہ، وزرات دفاع پر اپنا کنٹرول قائم کرکے اس ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو اپنے قبضے میں کیے رکھا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو اس نے ایک بار پھر آئین کو "معطل" کیا اور پھر اگلے 8 سال یہ ملک میں براہ راست حکمرانی کرتی رہی۔ اس نے اپنے زیر تابع مقننہ تشکیل دی۔ سول انتظامیہ پر اپنا کنٹرول رکھا اور ایک ربڑ اسٹمپ عدلیہ قائم کی۔
دوہزار آٹھ میں اسے مجبوری میں ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم کو چھوڑنا پڑا۔ اس دور میں سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے زریعے ایک تو صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے، گورنر کے زریعے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیار کو ختم کیا – یہ اختیار جمہوریت کو کنٹرول کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار تھے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ نے باامر مجبوری یہ کڑوا گھونٹ بھرا لیکن اگلے آنے والے سالوں میں ایک تو اس نے صوبوں کو اختیارات کی عملی منتقلی میں رکاوٹ ڈالی۔ دوسرا اس نے محلاتی سازشیں کرکے کسی صورت بھی آنے والی حکومتوں کو نہ تو وزرات خارجہ پر کنٹرول کرنے دیا اور نہ ہی وزرات دفاع کو اپنے کنٹرول سے آزاد ہونے دیا۔ اس نے ایسے حالات پیدا کیے کہ اٹھارویں ترمیم کے زریعے عدلیہ بھی "آزاد" نہ ہوسکی۔
فوجی اسٹبلشمنٹ نے 2013-18 کے چھے سالوں میں ایک ایسا پروجیکٹ متعارف کرایا جس کے زریعے یہ نہ صرف پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ بنانے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس نے پاکستان کی سویلین انتظامیہ کو ضلعی سطح تک اپنے کنٹرول میں لینے کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ منصوبہ ہموار طریقے سے خود فوجی اسٹبلشمنٹ میں طاقت اور اختیار کی رسہ کشی کے سبب پایہ تکمیل کو نہ پہنچا اور پھر اس کو 2021-2024 تک ایسے حالات میسر آئے کہ اس نے پاکستان کی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر عملی کنٹرول حاصل کرلیا۔
فوجی اسٹبلشمنٹ نے 2021-24 تک اپنے اندر سے ان تمام عناصر کو کنارے لگایا جو اس کے اجتماعی کنٹرول کے کردار کے آڑے آرہے تھے۔ اس کے بعد اس نے عدلیہ میں ان عناصر کے حمایت یافتہ ججوں کو ٹھکانے لگانے کا کام کیا اور اپنے کنٹرول میں موجود پارلیمنٹ سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرائی۔
اب فوجی اسٹبلشمنٹ 27ویں ترمیم کے زریعے سے 1973ء کے آئین میں سویلین بالادستی کی ضمانت دینے والی آئینی شقوں کو نکالنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہ ترمیم پاکستان میں پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے چیف ڈیفینس فورسز کو ایک مطلق العنان کا آئینی کردار ادا کردے گی جس سے پاکستان کے آئین میں موجود سویلین بالا دستی کی ضمانت کو خارج کرکے فوجی اسٹبلشمنٹ کی عملی طور پر موجود بالادستی کو آئینی شکل عطا کر دے گی۔ مستقبل میں اگر چیف ڈیفینس فورسز آئین کو کلی طور پر یا جزوی طور پر معطل کرے یا اس سے انحراف کا مرتکب ہو تو اس ترمیم کے زریعے اسے فوجداری مواخذے سے حاصل استثناء اس کے خلاف کسی بھی کاروائی کو ممکن نہیں بنا سکے گا۔ ویسے فوجی اسٹبلشمنٹ نے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل -6 پر کبھی بھی عمل نہیں ہونے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1973ء کا آئین اپنے نفاذ کے 42 سالوں میں دو مرتبہ مارشل لاء لگنے (جن کا دورانیہ 19 سال بنتا ہے) اور 2018-25ء کے دوران بندوق کے زور پر کرائی جانے والی ترامیم اور غیر جمہوری قانون سازی کے ہاتھوں اپنے جمہوری شکل پہلے ہی گنوا چکا ہے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ، پیکا ایکٹ سمیت درجنوں قوانین کے زریعے سے پہلے ہی پاکستان کے سویلین سیکورٹی و انٹیلی جنس اپریٹس کو کنٹرول کر رہی ہے۔ یہ نگران حکومت کے دور میں خصوصی سہولت کار کونسل برائے سرمایہ کاری کی تشکیل کرکے پاکستان کی معاشی اور مالیاتی پالیسی کو کنٹرول کر رہی ہے۔
اس نے پاکستان گرین انشی ایٹو۔ پی جی آئی بناکر پاکستان کی زراعت، لائیو اسٹاک کو پہلے ہی اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ سابقہ نگران حکومت دور میں اس نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی، نیشنل کوارڈینیشن کونسل اور ارسا کی تشکیل نو کرکے دریائے سندھ سے چھے نئی نہروں کے منصوبے کی غیر جمہوری منظوری لیکر اور وزرات داخلہ کو اپنے یس مین کو سونپ کر 1973ء کے آئین کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب 27ویں ترمیم میں شامل مجوزہ آئینی اقدامات اس آئین کی رہی سہی جمہوری شقوں کو بھی ختم کرنے جا رہی ہے۔
بطور ادیب میں اس ساری صورت حال میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان آج اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں ہمیں اس ملک کو حقیقی عوامی جمہوریہ میں بدلنے کی سیاسی، سماجی سطحوں پر دوبارہ سے جدوجہد کرنی ہوگی۔
پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو اس وقت اس کے پاس ایسی جمہوری سیاسی طاقت موجود ہے جو اس ملک میں "عوامی جمہوری انقلاب" کو اپنا نصب العین قرار دیتی ہو۔ پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارلیمانی جماعتوں کی قیادت بدترین سمجھوتے بازی کا شکار ہے۔ وہ اس ملک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق تک کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کی بدترین سمجھوتہ باز سیاسی روش کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس نے سن 1984ء میں پاکستان کی سیاست کی سب سے بڑی نرسری "طلباء یونین" کی بحالی جیسا "آسان" قدم اٹھانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ اس نے سیاست کی عوامی جمہوریت کی دوسری بڑی نرسری "مزدور ٹریڈ یونین" کو فیکٹریوں، کارخانوں، سروسز سیکٹر سے بالکل غائب کردیا ہے۔ اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے نوے کی دہائی سے اپنی جماعتوں میں حقیقی پارٹی انتخابات کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور یہ چند افراد کے مکمل کنٹرول میں چل رہی ہیں۔ ان کی اس خاندانی آمریت نے پاکستان میں "سیاسی ورکرز" کی بریڈنگ ہی بند کردی۔
پاکستان کی سیاست کا ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں پریس اور بار دونوں عملی طور پر "پریشر گروپ" بن کر رہ گئے ہیں۔ دونوں اداروں میں سفید پوش صحافی اور وکیل کا ضلعی سطح پر پریس کلب، صحافتی تنظیم اور ڈسٹرکٹ بار کا عہدے دار منتخب ہونا ویسے ہی امر محال ہوگیا ہے جیسے سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کا رکن صوبائی اسمبلی یا رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا خواب اور خیال ہوکر رہ گیا ہے۔
پاکستان کے عام شہری کو اپنے حقوق کی ترجمانی کرنے والی نہ صرف حقیقی عوامی جمہوری سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی ضرورت ہے، بلکہ اسے اس ملک میں حقیقی طلباء سیاست، بار سیاست، صحافتی ٹریڈ یونین سیاست اور مزدور ٹریڈ یونین سیاست کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ اس ملک میں عوامی جمہوریت کے بنیادی ادارے طلباء یونین، مزدور، کسان ٹریڈ یونین، بار ایسوسی ایشن اور صحافتی ٹریڈ یونین بحال ہوسکیں۔
پاکستان کے آزاد خیال عوام دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو تمام بڑے شہروں میں ایسی انجمن مصنفین تشکیل دینی ہوں گی جو سماج میں حقیقی عوامی جمہوریت کے قیام کی تحریک کے لیے عوام میں بیداری کا فرض ادا کرسکیں۔ یہ نہ تو قلیل وقت کی جدوجہد ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے آسان جدوجہد ہے۔ اگر پاکستان کے باضمیر ادیب اور دانشور کسی اجتماعی پلیٹ فارم کی تشکیل دیتے ہیں تو میں اس کا حصّہ بنوں گا۔ انفرادی سطح پر میں پاکستان کے عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں اپنا کردار پہلے بھی ادا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ میں نہ پہلے کسی سمجھوتہ باز سیاسی قیادت کا منشی یا مزارع تھا اور نہ اب ان کے لیے کوئی تاویل گھڑوں گا۔ کیا آپ بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

