Sunday, 30 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Voice Of America Ki Yaadein (1)

Voice Of America Ki Yaadein (1)

وائس آف امریکا کی یادیں (1)

بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ وائس آف امریکا کس طرح کا ادارہ تھا۔ بعض لوگ اس کا موازنہ بی بی سی سے کرتے تھے۔ بی بی سی کی نشریات برطانیہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ وائس آف امریکا کی نشریات امریکا میں نہیں دیکھی جاتی تھیں۔ یہ امریکی آئین کے خلاف تھا۔ اسے صرف غیر ملکوں میں امریکی سرکار کا موقف نشر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔

جب میں نے وائس آف امریکا جوائن کیا تو اس کے وسائل دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں سوچتا تھا کہ بی بی سی تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ فل پوٹینشل یعنی تمام امکانات کے مطابق چلایا جائے تو اس کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ لیکن میں نے وہاں کام کرنے والوں کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ اس کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔

وہاں صحافی کم تھے، سرکاری کلرک زیادہ۔ انھیں آزادی اظہار کی نہیں، اپنی نوکری کی پرواہ رہتی تھی۔ اس کے لیے وہ محلاتی سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ بس مجھے اگلا گریڈ مل جائے۔ دوسرا کوئی آگے نہ بڑھ جائے۔ خطرہ بننے والے کا پتہ پہلی فرصت میں کاٹ دیا جاتا تھا۔

میں یہ واقعہ لکھ چکا ہوں کہ میں نے نیا نیا جوائن کیا تھا، ایک دن ایک پشتون خاتون میرے پاس آئیں۔ وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے مجھے جانتی تھیں۔ انھوں نے بے حد حیران ہوکر کہا، مبشر صاحب، آپ کو یہاں کس نے رکھ لیا۔ یہاں تو سب گل محمد ہیں۔ آپ جیسا شخص کیسے برداشت کریں گے۔ میں نے کہا، میں معمولی سا کنٹریکٹ ملازم ہوں۔ مجھ سے کسی کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا، آپ کو جلد لگ پتا جائے گا۔

اس کے بعد سینئر براڈکاسٹر اسد نذیر صاحب نے مجھے کئی بار تنبیہہ کی۔ وہ کہتے تھے، یہ تم کیا ہر وقت کام مانگتے رہتے ہو۔ چپ کرکے بیٹھے رہا کرو۔ ہر شخص روزانہ ایک آدھ رپورٹ بناتا ہے۔ تم بھی اس سے زیادہ کام نہ کرو ورنہ سب دشمن ہوجائیں گے۔ چار دن میں تمھیں نکال دیا جائے گا۔ یہاں کام کرنے والے کو اچھا آدمی نہیں سمجھا جاتا۔ میں ہنستا رہتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا، وہ سچ کہتے تھے۔

وائس آف امریکا جیسے چار ادارے اور تھے۔ یہ پانچوں ایک امریکی ادارے یو ایس اے جی ایم کے تحت کام کرتے تھے۔ ان میں ایک کا نام ریڈیو فری یورپ تھا جو سوویت یونین کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ سوویت یونین کو ختم ہوئے 35 سال ہوگئے لیکن یہ ریڈیو اپنی مہا گانے میں لگا تھا۔ اب اس کی فنڈنگ بھی روک دی گئی ہے۔

یو ایس اے جی ایم کو امریکی حکومت سے فنڈ ملتے تھے۔ ایک بار سروس چیف نے بتایا کہ سال کے بجٹ سے کچھ پیسے بچ رہے ہیں۔ کچھ پروجیکٹ بناکر ان پیسوں کو جلدی خرچ کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ انھوں نے کہا، اگر ساری رقم خرچ نہ کریں تو اگلی بار پیسے کم ہوسکتے ہیں۔ اس لیے تمام سروسز زیادہ پیسے مانگتی ہیں اور وقت سے پہلے سب خرچ کرکے حکومت کو بتایا جاتا ہے کہ پچھلا بجٹ کم پڑگیا تھا، اگلی بار زیادہ پیسے منظور کریں۔

پاکستان کی سروس کا احوال سن لیجے۔ جب میں وہاں تھا تو ریڈیو کی نشریات باقاعدگی سے پیش کی جاتی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ سننے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ اسے جس ٹاور سے ریڈیو تک جانا چاہیے تھا، وہ خراب پڑا تھا۔ ویب سائٹ میرے جانے کے کچھ عرصے بعد پاکستان میں بلاک ہوئی اور شاید آج تک نہیں کھلی۔ ٹی وی کا بیس منٹ کا پروگرام کسی معمولی ریٹنگ والے چینل پر چلتا تھا لیکن اس میں فوج کے خلاف کوئی خبر شامل نہیں ہوتی تھی۔ کبھی شامل ہوجاتی تو فوراََ فون آتا کہ اسے آپ ایڈٹ کرکے بھیجیں ورنہ ہم یہاں ایڈٹ کردیں گے۔ پاکستان کے بعض ادارے سخت سنسرشپ کے باوجود اس سے بہتر صحافت کررہے ہیں۔

اردو سروس میں کیا کچھ چلتا رہتا تھا، اس کا انداز اس بات سے لگائیں کہ میرے جوائن کرنے سے پہلے سروس چیف کو ہراسمنٹ کے کیس میں فارغ کیا گیا۔ یہ کام مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا اور ایسے کہ میں افسانہ لکھ سکتا ہوں۔ ان سابق سروس چیف نے مجھے تھوڑی سی بات بتائی لیکن زیادہ تفصیل اس سازش میں شریک اگلے سروس چیف نے فخر سے بیان کی۔ اس سے پہلے ایک کیمرامین کو ہراسمنٹ کے الزام پر نکالا گیا۔ وہ کیمرامین بھی ایک تقریب میں ملے اور کچھ اشارتا بتایا کہ انھیں کیسے پھنسایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک ویڈیو ایڈیٹر کو اسی الزام پر فارغ کیا گیا۔

اسٹاف کا حال یہ تھا کہ چالیس افراد کی ٹیم میں میاں بیوی کے تین جوڑے کام کرتے تھے۔ ان کے علاوہ تین ایسی خواتین کارکن تھیں جن کے شوہر دوسرے شعبوں میں کام کرتے تھے۔ ایک کی ساس دوسری سروس میں تھیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان لوگوں میں کوئی کمی تھی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسوں کی ملازمت کو کبھی خطرہ نہیں ہوا۔

امریکا میں اکثر میاں بیوی دونوں جاب کرتے ہیں۔ کسی ایک کی ملازمت ختم ہوجائے تو مسئلہ تو ہوتا ہے لیکن ایک سیلری آتے رہنے سے برا بھلا وقت گزارا جاسکتا ہے۔ وائس آف امریکا میں جو جوڑے کام کررہے تھے، وہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھارہے تھے اور اب وہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

Check Also

Shalamar Montegio

By Mubashir Ali Zaidi