Shab e Corona, Qalam Band
شب کورونا، قلم بند
"يَبْنَاْ آدَمْ اِنِّيْ لَكّاْ مُحِبٌّ" حدیث قُدسی ہے۔۔۔ رب کریم فرماتا ہے، اے آدم کی اولاد۔۔۔ کیا؟ اے آدم کی اولاد، نامُسلمان، نا عیسائی، نا یہودی، نا آتش پرست، نا بُت پرست، نا مُلحد۔۔۔ فرماتا ہے، "اے آدم کی اولاد، میں تم سے پیارکرتا ہوں " اللہ اکبر۔۔۔
الله فرماتا ہے ہم نے زندگی کو پانی پہ پیدا کیا ہے۔ زمانہ قدیم میں گنتی سات (۷) تک ہوا کرتی تھی، مگر وقت گُزرتا گیا اور ۸ اور ۹ وجود میں آگئے۔ یہاں میرا مقصود ۹ کی منطق سمجھانا ہے، لہذٰا جب زمانہ قدیم میں انسان غور و فکر کی جستجو میں مشغول تھا تبہی اُس نے ۹ کا ہندسہ دریافت کر لیا۔ دو آنکھیں، دو کان، دو ناک کے سُوراخ، ایک مُنہ اور دو شرمگاہیں۔۔۔ ۹ ہو گئے سوراخ، اب اِن سُوراخوں میں ایک چیز قدر مُشترک ہے اور وہ ہے پانی۔
پانی کسی نہ کسی طریقے اِن سُوراخوں سے نکلتا یا رِستہ ہے۔ اور زندگی کا ۹۰ فیصد حصہ انہی ۹ چیزوں پہ انحصار کرتا ہے۔ دوسرا زوایہ دیکھیں تو مذہبی ہے۔ آپ یقین کریں اگر ہم اِن ۹ چیزوں کو مذہب کے مطابق استعمال کریں تو اس میں ہماری ہی کامیابی ہے۔ کیونکہ حرکات و سکانات پھر بھی منکر ہو سکتی ہیں مگر یہ ۹ عضاء۔۔۔ اِن کی واپسی مُمکن نہیں۔
صفائی نِصف ایمان ہے، دین اسلام میں طہارت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور کوئی ۱ ہزار سے زائد احادیث صحیح بخاری میں طہارت کے موضوع پر درج ہوئی ہیں۔ آپ یقین کریں کہ اگر کسی چیز میں صفائی نہ ہو تو وہ ادھوری لگتی ہے۔ مَٹی کے برتن ہوں یا معمار کا کوئی کام یا روز کا گھر میں پکا ہوا سالن ہی ہو۔ اگر صفائی نہیں، خوا وہ کتنا ہی خوبصورت، حسین، لذیذ ہو۔۔۔ ادھورا لگتا ہے۔ اس ہی طرح انسان صفائی کے بغیر نامُکمل ہے۔ وہ حسین، خوبصورت، اُونچا لمبا چھوڑا ہو، اگر صفائی نہیں تو باقی سب ماند پڑ جاتا ہے۔ آپ اپنی ہی مثال لیں کہ آپ کا کوئی ساتھی اگر روز دانتوں میں برش نہیں کرتا تو کتنی کراہت محسوس کوتی ہے؟ بس نہیں چلتا کہ اُس کو ایک زور کا ڈھپڑ رسیدکردیں۔۔۔ تو پھر طہارت، جسمانی صفائی کیوں نہیں؟
آپ مسلمان ہوں، عیسائی، یہودی، بُت پرست، آتش پرست، جس کی بھی عبادت کرتے ہیں اگر صفائی کا عُنصر نہیں توسب ضائع۔ مُلحد کسی خُدا کو نہیں مانتے، خود سے تو کراہت محسوس کرتے ہوں گے۔۔۔ لہذٰا صفائی بہت بڑی خوبی ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے بے نیاز کرتی ہے۔ جبھی تو ہم Homo Sapiens کہلاۓ۔ آج سائنس انسانیت کو بتلا رہی ہے کہ صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ کم از کم دن میں پانچ بار ہاتھ مُنہ دھوئیں۔ کھانے سےپہلے اور کھانے کے بعد بھی۔ آخر کیوں؟ گزشتہ دنوں میں مُفتی تقی عثمانی صاحب ایک بات فرما رہے تھے کہ امام ابوحنیفہ(رح) کو وضو کرتے ہوۓ اکثر گناہ دُھلتے ہوئے، بہتے ہوۓ نظر آتے۔ یہ تو اُن کی کرامت ہو گئی۔ مگر سائنس کاکرامتوں سے کیا لینا؟ سائنس تو Anti Matter سے انکاری ہے۔
یہ دراصل رب کائنات کا امر ہے، جس نے پانی میں ایک خاصیت پاک کرنے کی رکھی ہے۔ وہ دراصل گناہ نہیں بلکہ گندگی غلاظت جس کو ہم آج جراثیم کہتے ہیں وہ دُھلتے ہیں اور بہتے ہیں۔ اور پھر صفائی کا طریقہ کار " اسوۂ حسنہ، رحمت للعلمین " کا ہو تو کیا ہی بات ہے۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے، ترجمہ "بےشک ہم ہی نے یہ ذکر (قرآن) اُتارا ہے اور ہم ہی اِس کے مُحافظ و نگہبان ہیں"۔ قرآن رسول اللہ(ص) کے تین معجزوں، جن کا ذکر قرآن میں براہراست ہوا ہے۔ یعنی قرآن، شق القمر اور اسرأ والمعراج۔ اب چُونکہ قرآن زندہ معجزہ ہے اور اس کا محافظ اور نگہبان خود اللہ ہے تو اس کے دلائل ماضی میں بھی آتے رہیں اورابھی حال ہی میں طہارت، صفائی کی دلیل بھی سچ ثابت ہوئی۔
تمام مسلمانوں کا یقین ہے اللہ کے احکامات کی تشریح رسول اللہ(ص) کے بغیر مُمکن نہیں۔ کیونکہ آپ(ص) ہی آدمِ قُل وکُل ہیں۔ تو آپ(ص) کا بتایا ہوا طریقہ طہارت و صفائی، ذاتی کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ فرماتا ہے، ترجمہ" نبی(ص) اپنی طرف سے کچھ بات نہیں فرماتے ہیں، بلکہ آپ(ص) تو وہ ارشاد فرماتے ہیں، جو اللہ کیطرف سے آپ کو وحی ہوتی ہے"۔
جی ہاں وحی، وحی کی بھی مُختلف اشکال ہوتی ہیں۔ کبھی حضرت جبرائیل(ع) کے ذریعہ سے تو کبھی پردے کے پیچھے سےتو کبھی دل میں کسی بات کے اُتر جانے سے۔ اور دل میں کسی بات کے اُتر جانا تو اب بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی اچھی بات یا اچھا خیال یا اچھا کام اچانک ہو جانا انسان کا ذاتی کمال نہیں یہ تو اُس رب کا امر ہے جو تمام جہانوں کا پالنےوالا ہے۔ اور میری یہ تحریر، یہ خیالات اُس رب کی ہی عطا ہے۔ تو مذکورہ بالا تحریر یہ دلیل پیش کرتی ہے قرآن کے ساتھ ساتھ رسول اللہ(ص) کی سُنت و احادیث کی حفاظت اور نگہبانی کا ذمہ بھی خود اللہ نے لیا ہوا ہے اور حال ہی میں طہارت و صفائی کی دلیل عہد حاظر کو بتلائی جو کہ ۵۷ اسلامی ممالک ہونے کے باوجود بھی نا ثابت کر سکے۔ کیونکہ ہم خود مُکمل طریقے سے صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ ہماری مساجد ہوں، گھر کا صحن ہو، غسل خانہ غرض کوئی بھی ایسی جگہ جہاں پانی کا کام ہوتا ہو، وہاں پانی کے بہنے کا کوئی راستہ ہیں اور ہوتابھی ہو تو ہم توجہ مرکوز کرنے کی بجاۓ اُسے جُھٹلاتے ہیں۔ آپ کسی بھی سلیقہ شعار خاتون کو دیکھ لیں وہ جب بھی پانیکا کوئی کام کرے گی تو اُس جگہ کو پونچھا سے ضرور خشک کرے گی، کیونکہ کھڑا پانی داغ اور بدبُو کا باعث بنتا ہے۔
قربان جاؤں رسول اللہ(ص) آپ فرماتے ہیں کہ شام اور صبح کے وقت پانی جس برتن میں ہو ڈھانپ لیا کرو۔۔۔ کیوں؟ ایک وجہ یہ ہے جو سائنس نے ثابت کی کہ Dengue or Malaria کا مچھر پانی پہ پیدا ہوتا ہے اور انسان اِس بیماری کا شکارشام یا صبح کے وقت ہوتا ہے اور اکثریت اِس ہی پہر کی ہے۔
ایک اور جگہ جناب رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ ہمیشہ بہتے ہوۓ دریا کا پانی پیا کرو۔ وجہ؟ وجہ تو وہی ایک ہی ہے (میرے ذہن کی وسعت کے مطابق) اور وہ ہے پاکیزگی، صفائی۔ زیادہ دُور نہیں جاتے The Message فلم تو ہمارے عہد کے ہر عُمر کے شخص نے دیکھی ہو گی۔ اُس کے ایک scene میں جب مسجد نبوی(ص) میں آذان دی جاتی ہے تو تمام بازار اور صحابی رسول(ص) اپنے کاموں کو ترک کر کے اللہ کےسامنے حاضر ہونے کے لیے وضُو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ نے اگر غور کیا ہو تو مسجد کے اندر کہیں بھی وضُو کی جگہ نہیں تھی۔ تو کہاں وہ حضرات وضُو کیا کرتے تھے؟ تو عرض ہے کہ مسجد کے باہر بہتے ہوۓ پانی پہ وضُو کیا جاتا تھایا ایسی جگہ پر کہ جہاں اگر پانی ڈالا جاۓ تو وہ بہہ جاۓ، ایک جگہ کھڑا نہ ہو۔ ہم بچپن سے سُنتے آرہے ہیں کہ گھر سے وضُوکر کے مسجد جانے کا زیادہ ثواب ہے۔ وہ اِس لیے کہ جب اسلام کا ظہور ہوا یا جب نماز فرض ہوئی تو آج کی طرح نلکوں میں پانی نہیں آتا تھا بلکہ برتنوں میں بھر کے دُور دراز سے لایا جاتا تھا، تو اُن کو پانی کی قدر بھی ہوتی تھی اور صفائی کابھی خاص خیال رکھتے تھے۔ آج آسانیوں نے ہمیں اسلام کی اصل رُوح سے دُوراز کر دیا ہے۔